تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-09-2014

اشارہ تو تھا

طوفان گزر جائے گا تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ مخلص مگر انتقام کی آگ میں جلتے لوگ ، مکروہ سازشیں کرنے والے ابن الوقت اور اقتدار کے بھوکے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ دشمن ممالک اور ان کے کارندوں کا منہ کالا ہوا۔ اللہ کے رسولؐ پر جھوٹ گھڑنے والوں کا۔ 
قلق کی ایک لہر اٹھی اور دراز ہو گئی ۔ صحت اگر مکمل طور پر بحال ہو گئی ہوتی ۔پوری بھاگ دوڑ اگر کر سکتا تو شاہراہِ دستور کے دھرنوں کا احوال تفصیل سے لکھنے کی کوشش کرتا۔ میرؔ صاحب یاد آئے ؎ 
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک 
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی 
تب خیال آیا۔ کس قدر جہالت کی بات ہے ۔ اللہ جو کام بندے سے لینا چاہتاہے ، اس کا موقع اسے دیتا ہے ۔ رحمن کو یہی منظور تھا۔ اسے پسند نہ تھا کہ یہ کہانی فوراً لکھی جائے ۔ وقت آئے گا تو پوری داستان انشاء اللہ بیان کردی جائے گی۔ 
کچھ کھیل تماشے کے شوقین بھی ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک طرف لاکھوں ، شاید کروڑوں مخلص لوگ ہیں ، تبدیلی کی آرزو، نظامِ زر و ظلم سے نجات کی تمنّا جنہیں کھینچ لائی ہے ۔ دوسری طرف لیڈروں میں ایسے ہیں ، جو پنجابی محاورے کے مطابق گندے پانی میں مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ؛حتیٰ کہ ایسے بھی ، جن کے بارے میں کہاجاسکتاہے ع 
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست
انتخاب میں دھاندلی ہوئی ، لاریب! مگر کتنی ؟ 30، 35یا 100 نشستوں پر ؟ ظاہر ہے کہ ایک غیر جانبدار اور پُرعزم عدالتی کمیشن ہی تعین کر سکتاہے ۔ دھاندلی کے خلاف تحریک برحق بلکہ مبارک مگر تحقیق کے بغیر ہی اور بالکل اچانک وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ کہاں سے پھوٹ پڑا؟ اگست کے اوائل تک ، کوئی ذکر تک نہ تھا، جب تحریک کی نیو اٹھائی جا رہی تھی ۔ پھر یہ سب سے بڑا اور بنیادی مطالبہ کیسے بن گیا؟ 
ایک حکومت کو ہٹانا مقصود ہو تو واضح منصوبہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو کون؟ اور کس طرح ؟ ٹیکنو کریٹس کی حکومت؟ مارشل لا یا نئے انتخابات؟ 
ٹیکنو کریٹس کی حکومت قبول نہ کی جائے گی ۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فعال طبقات مار شل لا کو برداشت نہ کریں گے ۔ روزِ اوّل سے کشمکش کا آغاز ہو جائے گا۔ مزید عدم استحکام اور مزید محاذ آرائی۔ ظاہر ہے کہ الیکشن ہی واحد متبادل ہے ۔وزیراعظم کا استعفیٰ کافی نہیں ؛اگرچہ اس کا امکان بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ الیکشن کا فیصلہ ہو جائے تو نگران عبوری حکومت تشکیل دینا ہوگی ۔ منصوبہ تو کیا ، اس کاخاکہ تک موجود نہیں۔ اگر کسی دانا کا خیال ہے کہ فوجی قیادت اسے مسلّط کر دے گی او رسپریم کورٹ مہر لگا دے گی تو وہ احمقوں کی جنّت میں رہتا ہے ۔ فرض کر لیجیے کہ جنرل راحیل شریف آمادہ بھی ہو جائیں تو عدالتِ عظمیٰ کیسے ہوگی ؟ فرض کیجیے ، وہ بھی ہو جائے تو مانے گا کون؟ 
مان لیجیے کہ معجزہ ہو جائے گا ۔ نون لیگ ، پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم، جمعیت علمائِ اسلام ، اے این پی ، جماعت اسلامی سمیت کون سا سیاسی عنصر تعاون کرے گااور اس تعاون کے بغیر یہ منصوبہ پروان کیسے چڑھے گا؟ تنہا تحریکِ انصاف یہ معرکہ سر کرے گی؟ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، سراج الحق بھی تعاون پر آمادہ نہ ہوں گے۔ پارٹی کے باقی لوگ تو اور بھی سخت روّیہ اختیار کریں گے۔ 
پھر کس برتے پر، کس امید پر وزیراعظم سے استعفیٰ مانگا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ مطالبہ کرنے والوں کو اس قدر پختہ یقین کیوں ہے؟ چھ میں سے پانچ مطالبات اگر مانے جا سکتے ہیں تو وہ اکتفا کیوں نہیں کرتے ؟ اگرچہ رات کو مظاہرین کی تعدادگاہے پولیس کے برابر ہو جاتی ہے مگر دن کے اکثر اوقات میں تو ایک تہائی سے بھی کم ۔ پھر اس کے لیے کیا مشکل تھا کہ انہیں اکھاڑ پھینکتی؟ 
ان سوالوں کے جوابات بہت تلخ ہیں ۔ معلوم اور منکشف ہیں مگر یہ کافی نہیں ہوتا۔ آپ کو شواہد مہیا کرنا ہوتے ہیں اور تفصیلات آشکار۔ جاوید ہاشمی سے مجھے معذرت ہے کہ میں نے ان کے موقف کو سمجھنے میں غلطی کی ۔ اس لیے کہ ہنگاموں اور سیاسی رہنمائوں سے دور ،ہسپتال میں پڑا تھا۔ اب بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ خود کو ایسے مشیروں کے حوالے کرنے کی بجائے، جو اپنے مفاد کے سوا کسی کے نہیں ، تین سطروں کا اعلانِ لا تعلقی بھیج کر، علاج کے لیے انہیں بیرونِ ملک چلے جانا چاہیے تھا۔ بات مگر ان کی غلط نہیں ۔ اشارہ کارفرما تھا اور اب بھی اسی امید پر مذاکرات کو دراز کیا جا رہا ہے ۔ افسوس کہ فی الحال میں کھل کر بات نہیں کر سکتا۔ اسباب بیان کر دیے ہیں ۔ دوباتوں کی وضاحت البتہ ضروری ہے ۔ اوّل یہ کہ شریف حکومت کے بارے میں ناچیز کے نقطۂ نظر میں رتّی برابر تبدیلی نہیں۔ جس وزیراعظم کی دولت سمندر پار ہو اور جو دشمن ملک کے کاروباریوں سے مل کر مزید دولت کمانے کاآرزومند ہو ۔ جس پارٹی کا عالم یہ ہو کہ 2009ء میں شہر ڈوب جانے کے باوجود پانچ سال میں لاہور کاسیوریج سسٹم نہ تعمیر کر سکے ، اس سے امید وابستہ کرنا احمقوں کا کام ہے یا غرض مندوں کا ۔ ثانیاً یہ کہ جنرل راحیل شریف کے بارے میں اطمینان ہے کہ وہ کسی سازش کا حصہ ہرگز نہ بنیں گے۔ یہ ان کا مزاج اور افتادِ طبع ہی نہیں ۔ خوش قسمتی سے وزیراعظم کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات خوشگوار ہیں اور یہ ایک سیفٹی والو ہے۔ 
نواز شریف کو جانا چاہیے مگر ایک شائستہ جمہوری تحریک کے ساتھ اور متبادل انتظام کر لینے کے بعد ، جو خالصاً ، سوفیصد اور مکمل طور پر سیاسی ہو ۔ مکمل طور پر شفاف ہو ۔ تحریکِ انصاف اگر ایسا کر سکتی تو اس سے اچھی بات کیا تھی۔ وہ نہیں کر سکتی ۔ یکایک عمران خان اس خستہ حال پارٹی کے ساتھ ، جس میں ناقص اور نا مکمل ہی نہیں ، جرائم پیشہ تک مسلّط ہیں ، انتخابی میدان میں اترنے پر آمادہ کیسے ہو گئے ؟ طاہر القادری ، چوہدری صاحبان ، شیخ رشید اور اشارے کرنے والوں کے ایما پر ۔ ان کے کارنامے یاد ہیں ۔ عالمی کپ ، شوکت خانم ، نمل یونیورسٹی ، زلزلہ اور سیلاب زدگان کی بے پناہ امداد مگر وہ کانوں کے کچے ہیں ۔ مگر وہ سیاسی حرکیات کا ادراک نہیں رکھتے ۔ آج کل شاہ محمود ان کے اتالیق ہیں ۔لا حول ولا قوّۃ الا باللہ۔ عالمی کپ میں وسیم اکرم ان کے ساتھ تھے، ''اللہ ھو‘‘ کا ورد کرتے ہوئے جنہوں نے دو گیندوں پر دو بڑے بلّے باز پویلین بھیج دیے تھے ۔ شوکت خانم میں ڈاکٹر فیصل ہیں ۔ نمل یونیورسٹی میں پروفیسر ایلی سن ۔ پارٹی میں ان کے ساتھ کون ہے ؟ کوئی وسیم اکرم، نہ انضمام الحق، کوئی ڈاکٹر فیصل، نہ ایلی سن، جو ایک دن ساڑھی پہنے اس طرح شرما رہی تھیں ، جیسے پوتے پوتیوں نے دادی کا دلہنوں کا سا میک اپ کر دیا ہو۔ 
سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کا خواب دیکھا۔ ان کے بیانات پر نہ جائیے، اللہ کوحاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ فوج ہی نہیں ، جائز عوامی برہمی سے فائدہ اٹھا کر ملک توڑنے کے منصوبوں پر غور کیا گیا۔ 
کئی دن میں گہرے دکھ کا شکار رہا۔پھر جی کو قرار آگیا کہ فوجی قیادت یکسو ہے ۔ بھاڑے کے ٹٹو تو ظاہر ہے کہ کوئی مدد نہ کر سکے ۔ الٹا بدنامی کا باعث بنے مگر سنجیدہ اخبار نویسوں نے لگی لپٹی نہ رکھی ۔ بحیثیتِ مجموعی اگرچہ میڈیا کا کردار منفی رہا... گھر پھونک کر تماشا دیکھنے کا ۔ پارلیمان ٹیکس چوروں ، استحصالیوں اور ابن الوقتوں پر مشتمل ہے لیکن جدوجہد کا نتیجہ بہتر پارلیمنٹ ہونی چاہیے یا انارکی؟ 
اچکزئی، اسفند یار، آصف علی زرداری اور الطاف حسین، سب کے سب مولانا فضل الرحمن بن گئے اور مولانا فضل الرحمن نواز شریف کے لاڈلے ۔ سبحان اللہ۔ طوفان گزر جائے گا تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ مخلص مگر انتقام کی آگ میں جلتے لوگ ، مکروہ سازشیں کرنے والے ابن الوقت اور اقتدار کے بھوکے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ دشمن ممالک اور ان کے کارندوں کا منہ کالا ہوا۔ اللہ کے رسولؐ پر جھوٹ گھڑنے والوں کا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved