تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     10-09-2014

اصلاحات یا انقلاب؟

ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد ہماری تاریخ میں ایسا کوئی رہنما نہیں ملتا جس نے پاکستانی سیاست کو اتنا متاثر کیا ہو جتنا عمران خان نے۔۔۔ آ پ چاہے مرضی کے جس سیاسی پیمانے پر ان کی جانچ کرلیں۔ بھٹوصاحب اور کچھ دیگر سرکردہ رہنمائوں، جو آج ہماری سیاسی بساط پر مسلّم اہمیت رکھتے ہیں، کے برعکس عمران خان کا تعلق نہ تو کسی روایتی جاگیردار سیاسی خاندان سے ہے اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی فوجی آمریت کا ہاتھ تھام کر سیاست کی راہوں پر قدم رکھا ہے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے مقتدر تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے کھیل اور فلاحی کاموں میں نمایا ں کارنامے سرانجام دیے۔ کسی اور سیاست دان کو یہ امتیاز حاصل نہیں۔ 
عمران خان کے کردار کے تین پہلووں کو تسلیم کیا جاتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ عوام کی ایک معقول تعداد اُنہیں تحسین کی نگاہوںسے دیکھتی ہے۔ یہ پہلوکسی مقصد کے حصول کے لیے عزم، استقلال اور دیانت داری ہیں۔ ہمارے قحط الرجال کے ماحول میں ایسی خوبیوں کے حامل شخص سے بہت سی امیدوں کا وابستہ ہو جانا فطری بات ہے۔ ایسی خوبیاں رکھنے والے افراد خود بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اُنہیں کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔وہ امیدرکھتے ہیں کہ ان سے کوئی بڑا کام لیا جانا مقصود ہے۔ اسی امید کا دامن تھام کر عمران خان کرکٹ کی خوشگوار دنیا سے سیاست کی ناہموار اور غیر یقینی واقعات سے لبریز دنیا میں قدم رکھ بیٹھے ہیں۔ 
سیاست کا معرکہ چونکہ ایک روزہ میچ نہیں ہوتا، اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سیاست کے میدان میں بالکل ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ یہ کریڈٹ اُنہیںہی جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ہر کونے سے نوجوانوں کو تحریک دی ۔روایتی سیاست سے بیزار ، ان نوجوانوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار بھی کی اور عمران خان کی قیادت پر یقین کرتے ہوئے ان کے ہم قدم ہولیے۔پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کے بعد ملک میں قائم ہونے والی دوسری بڑی جماعت ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ملنے والے ووٹوں کی بنیاد پر پی ٹی آئی نے پی پی پی کو، جو کبھی ملک کی مقبول ترین عوامی جماعت تھی، پیچھے چھوڑ دیا۔ ان انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر پی ٹی آئی دوسرے نمبر پر آئی۔ 
موجودہ لانگ مارچ اور دھرنے کے حوالے سے عمران خان میڈیا کی بہت زیادہ توجہ حاصل کررہے ہیں۔ ان کے حامی اور مخالف متضاد جائزوںکے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ تاہم شاہراہِ دستور پر مظاہرین کی طرف سے پارلیمنٹ کی عمارت اور وزیر ِ اعظم ہائوس کی طرف پیش قدمی کی وجہ سے عمران کو تنقید کا سامنا کرناپڑ ا اور ان کی حمایت میں کچھ کمی آئی لیکن یہ ایک ناقابل ِتردید حقیقت ہے کہ وہ ابھی بھی ایک بے حد مقبول رہنما ہیں۔ کچھ اور واقعات (پی ٹی آئی اور طاہر القادری کی عوامی تحریک کے کارکنوں کی طرف سے پی ٹی وی کی عمارت پر دھاوا بولنااور فوجی آمریت کے پروردہ کچھ مشکوک کردار والے سیاست دانوں کا پی ٹی آئی کے کنٹینر پر عمران خان کے پہلو میں کھڑا دکھائی دینا) نے بھی ان کی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے قائد کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اس طرح کے موقع پرست رہنمائوں کی، جو ان کے دائیں بائیں دکھائی دیتے ہیں، نظر فوجی مداخلت پر ہوتی ہے کیونکہ آمریت کے بوٹوں سے ہی وہ گنگا رواں ہوتی ہے جس میں یہ جی بھر کے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ اگر عمران ان کے جھانسے میں آئے تو یہ ملک کا بڑا نقصان ہوگا۔ 
کپتان کی یہ بات درست ہے کہ ابھی میچ ختم نہیں ہوا‘ اور وہ فتح تک میدان نہیں چھوڑیں گے۔ یقینا ایک کپتان سے ایسے ہی عزم و استقلال کی توقع کی جاسکتی ہے، تاہم کرکٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بہت سے میچ ، جن میں ٹیمیں اپنی جان لڑادیتی ہیں، نتیجہ خیز ثابت ہونے کی بجائے ڈرا ہوجاتے ہیں۔ عمران خان نے یقینا اپنے کرکٹ کیرئیر کے دوران ایسے بہت سے ٹیسٹ میچ کھیلے تھے۔ اُنہیں علم ہوگا کہ اگر میچ ہار جیت کے بغیر بھی ختم ہوجائے تو کپتانوں کی سبکی نہیںہوتی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ معاملہ کہاں ختم ہوگا؟کیا یہ میچ ڈرا ہونے جارہا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو کہیں کپتان کو سیاسی طور پر سخت نقصان تو نہیں پہنچے گا کہ اتنی مشقت، اتنی سیاسی سرمایہ کاری اوراتنے بلنددعووں کے باوجود وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے؟ تاہم یہ بات بھی یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ہرروز سٹیج پر کھڑے ہوکر وہی الفاظ بار بار دہرانا اور علامہ قادری کی صف میں کھڑے دکھائی دینا ان کی سیاسی ساکھ کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اور ان کے سخت جان حامی کتنے ثابت قدم رہتے ہوئے لانگ مارچ اور دھرنے کا جواز پیش کرتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے عمرا ن اپنا بہت سا نقصان کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ کھڑے موقع پرستوں کا کچھ نہیں جائے گا۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ وہ اپنی سیاسی جدوجہد کے ہیرے مٹی میں کھورہے ہیں۔ 
عمران خان نے بہت سے غلط سیاسی اندازے لگالیے تھے۔ سب سے پہلے تو وہ لانگ مارچ کے شرکا کی درست تعداد کا اندازہ لگانے میںناکام رہے۔ اُنہیں بھی خوش فہمی تھی کہ ملین مارچ دیکھ کر اسلام آباد کی حکومت ختم ہوجائے گی یا پھر ''امپائر‘‘ انگلی اٹھا دے گا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس پر مستزاد، جب ان کے پانچ مطالبات تسلیم کرلیے گئے تو وہ اسے اپنی فتح قرار دینے کی بجائے انتہائی پوزیشن، وزیر ِ اعظم کے استعفے، پر قائم رہے اور ابھی بھی ہیں۔ ایک او ر اندازے کی غلطی یہ تھی کہ حکومت پُرتشدد کارروائی کرے گی اور ہونے والی ہلاکتیں اس کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوںگی۔ تاہم بوجوہ حکومت نے تشدد سے بھی گریز کیا اور عمران خان اور ان کے حامیوں کو خود ہی تھکنے کا موقع دیا۔ اب تک معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی یہ حکمت ِ عملی کامیاب رہی۔ 
اس معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس سیاسی جمود نے حکومت کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔ اس پر دھاندلی، بدعنوانی، اقربا پروری اور نااہلی کے الزامات نے اسے بڑی حد تک کمزور کردیا ہے۔ یہ ایک منفرد قسم کی سیاسی محاذآرائی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں سب کو کامیابی مل جائے اور ہم اپنے سیاسی نظام میں اچھی اصلاحات دیکھیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کھیل میںشریک تمام کھلاڑیوں کو، اگر وہ وقت کے تقاضے سمجھنے میں ناکام رہے، شکست کا سامنا کرنا پڑے۔ وقت کا یہ تقاضا انتخابی عمل میں اصلاحات، اچھی حکمرانی ، آئین اور قانون کی حکمرانی اور بدعنوانی اور اقرباپروری کا خاتمہ ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہی اصل میں آزادی اور انقلاب مارچ ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved