تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     10-09-2014

درگزر‘ اُچکزئی‘ پلان ڈی اور جمہوریت

چودھری نثار علی خان نے درگزر سے کام لیا اور جمہوریت ڈی ریل ہونے سے بچ گئی۔ جواباً کمال مہربانی سے چودھری اعتزاز احسن نے اس درگزر کو قبول فرمایا۔ اس طرح فرشتوں کا پلان ''ڈی‘‘ ناکام ہو گیا۔ دونوں طرف کے معززین اور نامور پارلیمنٹیرینز کے اسمبلی چیمبر اور فلور پر لگائے گئے سنگین الزامات پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ اب چند روز میں اخبارات اور ان میں لکھنے والے بھی درگزر سے کام لیں گے۔ رہ گئے عوام‘ تو وہ سدا سے درگزر سے کام لے رہے ہیں۔ لہٰذا راوی ہمیشہ کی مانند چین لکھتا ہے۔ 
بطور وزیرداخلہ اعتزاز احسن پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے دور وزارت میں سکھ علیحدگی پسندوں کی فہرست بمعہ دیگر تفصیلات بھارت کو فراہم کی تھیں جس کی بنیاد پر بھارت نے علیحدگی پسند سکھ رہنمائوں پر کریک ڈائون کیا اور سکھوں کی نہایت زوردار علیحدگی کی تحریک کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس الزام میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا مبالغہ! کبھی پتہ نہیں چل سکے گا کہ پاکستان میں ایسے معاملات صرف سینہ بہ سینہ چلتے ہیں اور ان پر ارباب اقتدار خواہ حامی ہوں یا مخالف‘ دم سادھے بیٹھے رہتے ہیں اور کوئی بات نہ تو کسی کو پتہ چلنے دیتے ہیں اور نہ ہی اس پر کبھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ہے‘ لہٰذا اس معاملے کو جو اسرار میں ہے اسرار میں ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ اعتزاز احسن نے اپنی اس بدنامی نما شہرت کو افتخار چودھری کی بحالی کی ''فقید المثال‘‘ تحریک کی قیادت کر کے جہاں نیک نامی میں تبدیل کیا‘ وہیں سپریم کورٹ بار کے صدر جیسے عہدے کی عزت افزائی سے بھی لطف اٹھایا۔ انہوں نے ایک ہی جست میں کئی کامیابیاں سمیٹیں۔ اس نیک نامی کے طفیل انہوں نے حارث سٹیل کا مقدمہ لڑا اور خاصی فیس وصول کی۔ لینڈ مافیا کی وکالت فرمائی اور دولت کے بہتے دریا سے فیض یاب ہوئے۔ لیکن اپنی اصول پسندی اور اخلاقی بلندی کا ڈھنڈورا بھی اس خوبی سے پیٹا کہ دنیا عش عش کر اٹھی۔ افتخار چودھری کی کورٹ نمبر 1 میں پیش ہونے سے انکاری تو رہے مگر مشاورت وغیرہ کے نام پر کروڑوں کمائے۔ اسے کہتے ہیں ع 
رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی 
لیکن ماضی پر تین حرف بھیجیں۔ معاملہ چار دن پرانا ہے۔ صرف چار دن۔ ابھی اس پر لکھ لیں تو لکھ لیں وگرنہ بعد میں تو پوری قوم نے بھول جانا ہے کہ کیا ہوا تھا۔ رئوف کلاسرا انجم عقیل کے بارے میں لکھ لکھ کر بے حال ہو گیا ہے۔ دو چار دن پہلے ایک خاصا باعلم دوست ملا اور پوچھنے لگا کہ یہ انجم عقیل کا کیا قصہ ہے؟ اب بھلا ایسے عالم میں قوم کی یادداشت کا ماتم نہ کیا جائے تو کیا کیا جائے۔ چار روز قبل اسمبلی میں اپنی مقررانہ صلاحیت کی دھاک بٹھانے کے دوران جناب اعتزاز احسن‘ جن کو اپنی ''عزت اور شہرت‘‘ بڑی عزیز تھی‘ نے سب کے پرخچے اڑائے۔ چودھری نثار کے‘ سرکار کے اور ہر دائیں بائیں والے کے۔ اسی دوران فرمایا کہ اگر میں پارلیمنٹ سے چلا گیا تو سارے ''باغیرت‘‘ ممبران میرے ساتھ اٹھ کر چلے جائیں گے۔ ایوان میں پیچھے صرف محمود خان اچکزئی رہ جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے اچکزئی کو ''باغیرت‘‘ ممبران اسمبلی کی فہرست سے خارج کردیا۔ یہ فلور آف دی ہائوس پر بات ہوئی ہے اور اس کا جواب دینا اصولاً تو ''چادر والی سرکار‘‘ پر واجب ہے مگر جس دن سے وہ اچکزئی سے ''اُچکزئی‘‘ ہوئے ہیں‘ کچھ کہنے کے قابل نہیں رہے۔ کیا زمانہ تھا جب لوگ جناب اچکزئی کی باغیانہ باتوں پر سر دھنتے تھے اور ان کی درویشی اور فقر کو عقیدت بھری نظروں سے دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے۔ یہ تب کا ذکر ہے جب وہ اچکزئی ہوا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے اپنے بھائی کی گورنری اور مبینہ طور پر آٹھ رشتہ داروں کی اسمبلی کی ممبری ''اُچک‘‘ لی اور اچکزئی سے ''اُچکزئی‘‘ بن گئے۔ عہدے‘ مال متاع اور اقتدار کے اُچکنے کی قیمت تو دینی پڑتی ہے۔ سو آج کل وہ یہ قیمت اپنی عزت اور نیک نامی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ 
اصول پسندی‘ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور ارفع سیاسی اخلاقیات کے دعویدار اعتزاز احسن نے تین روز قبل فرمایا کہ انہوں نے چودھری نثار کی درگزر قبول فرما کر اسٹیبلشمنٹ کا پلان ڈی ناکام بنا دیا ہے۔ اس پر دل عش عش کر اٹھا اور ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا۔ اس واقعے کا راوی ہمارا پرانا یارغار چودھری ہے۔ وہ بتانے لگا کہ ایک دن وہ اپنے ایک اسلام آبادی دوست کے ساتھ مری جا رہا تھا کہ اچانک اس کے دوست نے چھتر پارک کے دروازے پر کھڑی ایک خاتون کو دیکھا تو چودھری سے کہا کہ وہ بریک لگائے۔ چودھری نے حیرانی سے معاملہ پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ وہ سامنے جو خاتون کھڑی ہے وہ اس کی پرانی جاننے والی ہے۔ پھر آنکھ دبا کر کہنے لگا۔ یہ دو نمبر معاملہ ہے۔ مجھے اتار دو اور تم مری جائو۔ میں بعد میں آ جائوں گا۔ چودھری نے اسے گاڑی ایک طرف روک کر اتارا اور مری روانہ ہو گیا۔ ابھی وہ آٹھ دس کلو میٹر ہی گیا تھا کہ اس دوست کا موبائل پر فون آیا کہ واپس آئو اور مجھے ساتھ لے لو۔ چودھری نے گاڑی واپس موڑی اور اسے چھتر پارک سے واپس اٹھا لیا۔ وہ دوست گاڑی میں بیٹھ کر بتانے لگا کہ جب میں اتر کر واپس گیٹ کے پاس پہنچا تو رش میں وہ خاتون کہیں اِدھر اُدھر ہو چکی تھی۔ اسے پورے پارک میں تلاش کیا مگر خدا جانے اسے زمین نگل گئی تھی یا آسمان۔ وہ اسے دوبارہ نظر ہی نہیں آئی۔ وہ اس خاتون کے اس طرح غائب ہو جانے پر بڑا دکھی تھا۔ پھر دو چار منٹ کے بعد جب اس کا غم تھوڑا کم ہوا تو کہنے لگا۔ اے اللہ! آج میں اپنے نیک ارادوں کے طفیل اس گناہ سے بچ گیا ہوں‘ تو مجھے میرے نیک ارادوں کا ثواب عطا کر۔ 
چودھری نثار کے بیان پر دھواں دھار اور شعلہ فشاں تقریر کر کے بقول اعتزاز احسن اگر کوئی پلان ڈی تھا تو انہوں نے اس پر عملدرآمد کروانے کی پوری کوشش کی۔ اعتزاز احسن کو علم تھا کہ چودھری نثار جوابی کارروائی ضرور کریں گے کہ ان کا مزاج کوئی خفیہ فائل نہیں اوپن سکرپٹ ہے۔ لہٰذا یہ بات صاف ہے کہ اگر کوئی پلان ڈی واقعتاً تھا تو اس پلان کی کامیابی کے لیے اعتزاز احسن نے تو پورا زور لگایا مگر وہ شومئی قسمت سے پورا نہ ہو سکا۔ وہ ایک کامیاب وکیل ہیں اور اپنے پلان کی ناکامی کو ''کامیابی‘‘ میں بدل کر اس کی داد بھی سمیٹنا چاہتے ہیں ع 
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا 
حالانکہ انہیں اول تو ان الزامات پر اسمبلی سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا یا کم از کم بطور ایک اصول پسند وکیل کے (جس کے وہ دعویدار ہیں) انہیں ازخود ایک جوڈیشل کمیشن بنا کر معاملے کی چھان بین اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی استدعا کرنی چاہیے تھی مگر یہ اعلیٰ و ارفع روایات ہم صرف مثالوں کے طور پر بیان کرتے ہیں‘ اپنی ذات کا معاملہ آئے تو مولا جٹ بن جاتے ہیں۔ 
لاس اینجلس کے ایئرپورٹ کا نام ''ٹام بریڈلی انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘‘ ہے۔ یہاں ٹام بریڈلی کا مجسمہ بھی لگا ہوا ہے۔ ٹام بریڈلی امریکہ کے کسی میٹرو پولیٹن شہر کا دوسرا اور لاس اینجلس کی تاریخ کا پہلا سیاہ فام میئر تھا جو مسلسل بیس سال تک یعنی مسلسل پانچ بار میئر رہا۔ وہ نہایت کامیاب میئر تھا اور نیک نامی کے علاوہ معاملہ فہمی کے سلسلے میں بھی اس کی بہت شہرت تھی۔ شہر میں نسلی فسادات کے دوران اس کی انتظامی صلاحیتوں نے پورے امریکہ کو متاثر کیا۔ اسی ایئرپورٹ کے داخلے کے قریب چودہ عدد روشن ستون ہیں جو ایئرپورٹ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ روشن ستون ٹام بریڈلی کے اقتدار سے علیحدگی کا باعث بنے۔ ان ستونوں کی تعمیر کے لیے ہونے والے ٹینڈر میں اس کے بھتیجے یا بھانجے نے بولی دی۔ اس کی بولی سب سے کم تھی‘ لہٰذا ٹھیکہ اسے مل گیا اور مکمل بھی ہو گیا۔ بعد میں الزام لگا کہ ٹام بریڈلی نے بطور میئر اس ٹھیکے کے حصول میں اپنے بھانجے کی مدد کی تھی۔ ٹام بریڈلی نے سٹی کونسل میں تقریر کرنے‘ مخالفین کے بخیے ادھیڑنے اور ان کی کرپشن کے قصے سنانے کے بجائے استعفیٰ دے دیا۔ اعلیٰ تعمیراتی معیار کے حامل یہ چودہ ستون آج بھی روشن ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ آنجہانی ٹام بریڈلی کی اخلاقی جرأت بھی۔ 
اعتزاز احسن خیر سے نہ تو ٹام بریڈلی ہیں اور نہ اس کے پاسنگ۔ مگر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم یہ بات طے کر لیں کہ اس قسم کی زبانی لڑائی‘ جس میں ایک دوسرے پر نہایت سنگین اور قابل دست اندازیِ پولیس قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور بعد میں باہمی صلح یا درگزر کے باعث داخل دفتر کر دیے جاتے ہیں‘ کے لیے ایک باقاعدہ کمیشن بنایا جائے‘ جو اس قسم کے الزامات پر باہمی مٹی ڈالنے کی روایت کے بجائے تحقیقات کرے اور جزا یا سزا کا معاملہ طے کرے۔ فی الوقت جمہوریت سے مراد این آر او‘ مفاہمت اور درگزر لی جا رہی ہے۔ اگر جمہوریت اور اس کی مضبوطی کرپشن‘ بے ایمانی اور لوٹ مار پر سمجھوتہ کرنے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے کا نام ہے تو باز آئے ہم ایسی جمہوریت سے۔ اگر عدالتیں اس قسم کے معاملات پر غیر جانبدار رہیں گی تو تاریخ انہیں بھی معاف نہیں کرے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved