تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     10-09-2014

پیچھے کون ہے؟

دھرنوں کے پیچھے کون ہے، امپائر کون ہے، جس امپائر کی انگلی اٹھے گی وہ کون ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو آج ہر پاکستانی کی زبان پر ہے، میڈیا کے ہر اینکر کے ہاتھ میں کنکر کی طرح ہے کہ یہ کنکر کس کو لگے گا۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا تو جس پارلیمانی لیڈر اور سیاستدان نے اظہار خیال فرمایا اس نے بھی اشاروں میں بتلانے کی کوشش کی کہ پیچھے کون ہے؟ مجھے اس ساری صورت حال سے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ہمارے محلے میں ایک گھر تھا‘ اس میں لڑائی بہت ہوا کرتی تھی۔ میاں بیوی بھی لڑتے تھے اور بچے بھی خوب لڑتے تھے۔ گھر کے سربراہ نے الزام لگانا شروع کر دیا کہ محلے کی فلاں عورت ہماری اس لڑائی کے پیچھے ہے، بات بہت بڑھ گئی تو محلے کے سمجھدار لوگ جمع ہوئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سمجھدار آدمی الزام لگانے والے کو یہی کہہ رہا تھا کہ اپنا گھر ٹھیک کرو، اپنی بیوی کو سنبھال کر رکھو، اپنی لڑائی کے پیچھے تم خود ہی ہو اور کوئی نہیں ہے‘ لہٰذا الزامات لگا کر محلے کے سکون کو غارت مت کرو۔
اس تناظر میں جب میں موجودہ حکمرانوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ پرویز مشرف پر غداری کی دفعہ لگانے کی کوشش تو زوروں پر ہے مگر اس سے میرے پاکستان کو کیا ملے گا؟ اس کے بجائے اگر پرویز مشرف پر یہ مقدمہ قائم کر دیا جائے کہ انہوں نے اپنے دور 
میں 60ارب روپے کے قرضے معاف کر دیئے، جن لوگوں کے یہ قرضے معاف ہوئے وہ کون سے مساکین ہیں؟ لامحالہ ان مسکینوں میں شوگر اور ٹیکسٹائل ملوں کے سیاسی مالکان ہیں۔ ایم این ایز اور وزراء ہیں۔ میاں نوازشریف صاحب یہ کیس آج بھی درج کروا کر مقدمہ کروا سکتے ہیں اور پرویز مشرف کو سزا دلوا سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ پھر وہ خود کیسے بچیں گے؟ سابقہ حکومت کے مسکین لوگ کیسے بچیں گے؟ موجودہ حکومت کے غریب مسکین ممبران اور وزراء کیسے بچیں گے؟ لہٰذا یہ کیس نہیں بنے گا۔ نہ یہ کیس سابق صدر زرداری بننے دیں گے، نہ میاں نوازشریف صاحب بننے دیں گے، نہ اس کی حمایت چودھری شجاعت کریں گے، نہ اسفند یار کریں گے اور نہ کوئی اور سیاسی لیڈر ہی کرے گا۔ پارلیمنٹ کے تقدس پر ہم نے پارلیمنٹ کے لیڈروں کی تقاریر خوب سنیں۔ پارلیمنٹ کا حالیہ مشترکہ اجلاس جس پر ہر دن کروڑوں کا خرچ ہوا اور یہ خرچہ عوام کے پیسوں سے ہوا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان عوام کے مسائل پر کوئی بات بھی عوامی نمائندوں نے کی ہے؟
ایوان میں سیاستدان بھی ہیں، سردار بھی ہیں، وڈیرے بھی ہیں، صنعتکار بھی ہیں، مذہبی اور سیاسی علماء بھی ہیں۔ حکمرانی میں اپنا اپنا حصہ لینے کے لیے خوب کھینچا تانی کرتے ہیں مگر کبھی کسی نے یہ بات کی کہ ملک میں ہسپتالوں کا حال کیا ہے؟ صحت کی کیفیت کیا ہے؟ یکساں تعلیم اور قومی زبان میں تعلیم کی کبھی کسی نے بات کی؟ میرٹ کے اصول اپنانے پر کبھی کوئی پالیسی بنانے کی بات ہوئی؟ میرٹ کی دھجیاں اڑانے پر کبھی کوئی بات ہوئی؟ حکمرانوں کے 84قریبی عزیزوں کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہونے کی کسی نے بات کی؟ صدر کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا جو اختیار تھا اسے تو اٹھارویں ترمیم سے ختم کر دیا گیا مگر اسی اسمبلی نے پاکستان میں عوامی فلاح و بہبود کے لئے کون سی قانون سازی کی؟ بجلی کا جو بحران ہے اس کے پیچھے کون ہے؟ کیا اسمبلی میں اس پر کبھی کوئی بات ہوئی؟ سوئٹزرلینڈ میں جن پاکستانیوں کا 200ارب ڈالر پڑا ہے اس پیسے کے بارے میں کبھی کوئی بات ہوئی کہ یہ کن کا پیسہ ہے؟ ان کے نام اسمبلی میں سامنے آئے؟ اس پر کوئی قرارداد آئی؟ کوئی قانون سازی ہوئی کہ اس پیسے کو واپس لائیں گے اور فلاں غیرجانبدار اور ایمان دار کمیٹی یہ پیسہ واپس لائے گی؟ سو ارب ڈالر کا قرضہ اتار کر پاکستان کو قرضہ فری ملک بنا دیا جائے گا اور باقی سو ارب ڈالر سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا کام شروع کر دیا جائے گا تو پاکستان یکدم فراٹے بھرتا ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔
پارلیمنٹ میں بعض ممبران نے توجہ دلائی کہ موجودہ حکومت کا ساتھ تو دے رہے ہیں مگر وہ اپنا مغل شاہی انداز ترک کرے۔ کیا وزیراعظم پاکستان نے اسی فلور پر اعلان کیا کہ میں اپنے اس انداز سے معذرت کرتا ہوں اور اپنے خاندان کے لوگوں کو یہیں فارغ کرنے کا اعلان کرتا ہوں... انہوں نے اعتزاز احسن سے معذرت کی، خورشید شاہ سے معذرت کی مگر یہ معذرت اس لئے تھی کہ حکومت بچ جائے۔ جس سے عوام کا فائدہ ہو جائے، حکومت کے مغلیہ انداز کی اصلاح ہو جائے اس پر بھی معذرت کا کوئی لفظ پارلیمان میں ادا ہوا؟ بالکل نہیں۔ یورپی یونین کی ایک پارلیمنٹ ہے‘ اس نے سابق صدر آصف زرداری صاحب کے دور میں زور ڈالا کہ پھانسی کی سزا نہ دی جائے، جناب صدر نے اسے معطل کر دیا۔ موجودہ حکومت نے بھی اسے برقرار رکھا، سات ہزار پھانسی کے قاتل مجرم جیلوں میں محفوظ ہیں۔ اب ہماری پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون کدھر گیا؟ اب اس کا تقدس مجروح کیوں نہیں ہوا؟ ثابت ہوا تقدس کو زخم اس وقت لگتا ہے جب یہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے مفادات کو زخم لگتا ہے۔ باقی پاکستان کو زخم لگے یا عوام کو، کسی کو کوئی پروا نہیں۔ پھر آخر پارلیمان میں بیٹھے لوگ کیوں نہیں مانتے کہ دھرنا بحران کے پیچھے خود پارلیمان کے لوگ ہیں۔ یہ مسکین لوگ، یہ غریب لوگ اپنے ترقیاتی مال میں 17فیصد کمیشن لے کر اپنی غربت دور کرنے والے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن بھی یہ نہیں کرواتے کیونکہ جمہوریت اسی کا نام ہے کہ بلدیاتی پیسہ انہی کے ہاتھوں میں رہے۔ یہی اس بحران کے پیچھے ہیں، یہی اصل لوگ ہیں‘ یہی بحران پیدا کرنے والے ہیں... اب سوچ یہ ہونی چاہئے کہ ان بحرانی لوگوں سے موجودہ بحران کو کس طرح ختم کیا جائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved