قوم کا مجموعی مزاج انتہا پر مَر مِٹنے کا ہے، یُوں جی رہی ہے کہ ہر انتہا پر مَر مِٹی ہے۔ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس سے وابستہ لوگوں کا رویہ اعتدال کی راہ پر گامزن دکھائی دے۔ محبت ہے تو انتہا کی اور نفرت ہے تو انتہا کی۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا!
قوم کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ اگر کچھ نہیں دینا یعنی جیب ڈھیلی نہیں کرنی تو پھر کوئی سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مَر بھی جائے تو جیب سے پھوٹی کوڑی نہیں نکلتی۔ اور اگر کسی پر لُٹانے کا مَن ہو تو جس پر لُٹایا جارہا ہو وہ تھک جائے گا، لُٹانے والے کا اسٹیمنا دم نہیں توڑے گا۔ عام روش ہے کہ کسی سے محبت کی جائے تو وہ فرطِ حیرت کی منزل میں رہتا ہے کہ ایسا کیا کردیا ہے کہ اِس قدر محبت کی جائے۔ اور اگر کسی سے نفرت کا روگ پالا جائے تو وہ اِسی اُدھیڑ بُن میں رہتا ہے کہ آخر ایسی کون سی قیامت آگئی ہے کہ صرف نفرت کی آگ برسائی جارہی ہے۔
سیاست پر ایک زمانے سے جمود طاری ہے۔ دھماچوکڑی تو بہت مچتی اور مچائی جاتی ہے مگر اُس کی پُشت پر کوئی ٹھوس سبب یا جواز نہیں ہوتا۔ لوگوں کو سڑکوں پر نکالا جاتا ہے، نعرے بازی ہوتی ہے، اشتعال انگیز تقریریں کی جاتی ہیں، سرکاری و نجی املاک کی توڑ پھوڑ بھی ہوتی ہے مگر کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیوں ہے۔ جب ہر معاملہ مصلحت کے سَو پردوں میں لپٹا ہوا ہو تو کچھ بھی کیا خاک سمجھ میں آئے؟
لوگ (اقتدار کے ''فیوض و برکات‘‘ سے محروم) اہلِ سیاست کے احتجاج کا سِرا ڈھونڈتے رہتے ہیں اور پھر ناکامی کے سِرے پر واپس آجاتے ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب قتل کرنے والے کو معلوم نہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے اور قتل ہونے والے کو معلوم نہ ہوگا کہ اُسے کیوں قتل کیا جارہا ہے۔ یہ زمانہ ہماری سیاست پر آیا ہوا ہے اور پورے جوبن پر ہے۔ کسی بھی سیاسی سرگرمی کی کِسی منطق کا سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ جنہیں سڑکوں پر لایا جارہا ہے اُنہیں کچھ اندازہ نہیں کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے۔ اُنہیں سڑکوں پر لانے والوں کو بھی اپنے اِس عمل کا جواز دکھائی یا سُجھائی نہیں دیتا۔
ہر معاملے میں بلا جواز طور پر حد سے گزرنے کی روش ایسی پختہ ہوچکی ہے کہ اب قوم کسی اور روش پر گامزن ہونے کا سوچتی بھی نہیں۔ دستر خوان سجا ہو تو لوگ پیٹ کے بجائے نیت بھرنے تک کھاتے رہتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ نیت بھی بھر جاتی ہے مگر پیٹ نہیں بھرتا! یہی حال بولنے کا ہے۔ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر گھریلو حالات اور سیاست پر بتیانے والوں سے قوم کو راہ دکھانے کے دعویداروں تک سبھی کو بولنے بلکہ بولتے رہنے کا ہَوکا سا ہے۔ ویسے تو بولنے والے کسی سہارے کے مُکلّف نہیں ہوا کرتے لیکن اگر سامنے مائکروفون ہو تو سمجھ لیجیے سُننے والوں کے ذہنوں کا تیا پانچا ہوکر ہی رہنا ہے۔ حالیہ سیاسی بحران کے دوران بھی خطابت کے ریکارڈز ٹوٹتے بنتے رہے ہیں۔ تین ہفتوں کے دوران عمران خان نے اپنے پرستاروں اور طاہرالقادری نے اپنے عقیدت مندوں سے جس قدر خطاب کیا ہے وہ چند نئے ریکارڈز کی طرف اُن کی شاندار پیش رفت ہے!
رات کو کسی ہوٹل کی کرسیوں پر یا کسی چبوترے پر بیٹھ کر کچھ دیر گپ شپ کرنا کبھی ہفتہ وار معمول ہوا کرتا تھا۔ اب یہ زندگی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ بات وہی انتہا پسندی کی ہے۔ اب لوگ رات رات بھر ہوٹلوں میں بیٹھ کر قوم کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے اور نیند جیسی نعمت کو قوم کے غم پر نچھاور کرتے ہیں!
ستم تو یہ ہے کہ غریبوں کی مدد کرنے کے معاملے میں بھی ہم حد سے یُوں گزرتے ہیں کہ خود ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ جن کے حُلیے ہی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیشہ ور بھکاری ہیں اُنہیں بھی لوگ مشینی انداز سے نوازتے رہتے ہیں۔ جیسے یہ معمول مشیت نے ہماری جبلّت میں لکھ دیا ہو۔ خیرات دینے میں بھی کسی کی مدد کرنے کے جذبے سے کہیں بڑھ کر ہم یہ سوچتے ہیں کہ حد سے گزر جائیں۔ یہی سبب ہے کہ کسی کو ضرورت نہ ہو تب بھی نوازتے رہنا ہمارے مزاج کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔
جب کوئی قوم اپنے فکر و عمل سے انتہا پسندی ثابت کرتی ہے تو قدرت کی طرف سے بھی اُسی کے موافق ''عنایات‘‘ ہوا کرتی ہیں۔ اگر کوئی شخص پائی پائی جوڑتا رہے اور کہتا جائے کہ بُرے وقت کے لیے کچھ جمع کر رہا ہوں تو اللہ اُسے اُس کی نیت کے مطابق نوازتا ہے یعنی اُس پر بُرا وقت لاکر رہتا ہے۔ ہم بھی اِسی منزل میں ہیں۔ جب ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں پانی ذخیرہ کرنے سے کچھ غرض نہیں۔ تو اللہ کو بھی خیال آتا ہے کہ جب اِس قوم کو پانی سے محبت ہی نہیں تو پانی کے معاملے میں فَیّاضی کیوں دکھائی جائے۔ ہم پانی سے صرفِ نظر کے معاملے میں حد سے گزرتے ہیں تو قدرت بھی پانی نہ برسانے کے معاملے میں انتہا کردیتی ہے۔ اور پھر جب ہمارا رب یہ دیکھتا ہے کہ پانی نہ ہونے پر بھی یہ قوم پانی کی قدر دان نہیں تو ہمیں پانی ہی کی مار مارتا ہے۔ پھر اچانک اِتنا پانی ملتا ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا بلکہ ہر چیز پر پِھر جاتا ہے۔ آج پھر دریا لب ریز ہیں۔ اور چونکہ ہم نے بھرے ہوئے دریاؤں سے اپنی ضرورت کے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کا اہتمام نہیں کر رکھا اِس لیے رحمت کی صورت زمین پر برسنے والا پانی ہمیں زمین میں گاڑنے کا سبب بن رہا ہے۔ معاملہ پھر وہی یعنی انتہا کا ہے۔
انتہا پسندی کی تازہ ترین مثال پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور (نام نہاد) حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی شخصیت کا مناقشہ ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران تلخ و شیریں روابط کی حامل ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کی کوشش کی۔ چند پوٹلے کھولے بھی گئے مگر پھر فوراً بند کردیئے گئے۔ ایسا اِس لیے کیا گیا کہ جس انتہا پسندی سے ایک دوسرے کی اصلیت مزید کُھل سکتی ہو وہ ہرگز پسندیدہ نہیں! چوہدری نثار علی خان اور چوہدری اعتزاز احسن نے ایک دوسرے کے بارے میں قوم کو کچھ بتانے کی کوشش کی۔ معاملہ ابھی انتہا پسندی کی طرف بڑھا بھی نہیں تھا کہ بڑے بیچ میں آگئے۔ جمہوریت کو بچانے والوں کی یہی شان ہوا کرتی ہے! ایک دوسرے کے ساتھ کچھ بھی کرتے رہو مگر قوم کو تو نہ بتاؤ!
تین ہفتوں کے دوران پارلیمنٹ کے سامنے جو کچھ ہوا وہ پارلیمنٹ کے اندر بھی طوفان برپا کرنے کا سبب بنا۔ باہر کی انتہا پسندی کو اندر والوں نے یوں ختم کرنے کی کوشش کی کہ حکومت کو ''غیر مشروط‘‘ حمایت سے نواز دیا۔ یعنی باہر مخالفت کی انتہا اور اندر حمایت کی انتہا۔ مگر حقیقی انتہا پسندی تو یہ ہے کہ سسٹم بچانے کی کوششوں کے دوران کی جانے والی انتہائی پُرجوش تقریروں میں کہیں بھی عوام کے مسائل حل کرنے اور گڈ گورننس کو یقینی بنانے پر کچھ کہنے کی کسی نے بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ سسٹم بچالیا جائے، بس اِتنا کافی ہے۔ ملک کو بچانا اور قوم کو راحت عطا کرنا اللہ کا کام ہے۔ اللہ لاکھوں معصوموں کی قربانیاں رائیگاں کیسے جانے دے گا؟
ہم نے بھی اِس کالم میں انتہا پسندی کے ذکر اور اُس کے بارے میں مثالیں ٹانکنے کی انتہا کردی ہے اِس لیے بس یہیں تک لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اُمید ہے آپ خلوص کی انتہا کرتے ہوئے اُسی طرح در گزر فرمائیں گے جس طرح چوہدری اعتزاز احسن کے معاملے میں چوہدری نثار نے در گزر سے کام لیا ہے!