تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-09-2014

اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا

خورشید رضوی راز کی وہ بات جانتے ہیں۔ وہ آدمی، جس کی زندگی پر کبھی کوئی بھرپور تحریر نہ لکھی گئی۔ 
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے 
اور خود عرصۂ ایّام سے ہجرت کر جا 
یہ جرمن شاعر ایریش فریڈ کی ایک نظم ہے۔ کل شب بارِ دگر انہیں پڑھا۔
''جمہوریت: سلطانیٔ عوام، جس میں 
کسی کو یہ کہنے کی اجازت نہیں 
کہ یہ اصلی جمہوریت نہیں 
کیا وہ فی الحقیقت جمہوریت کہلانے کی مستحق ہے؟‘‘
خوبصورت ہیئر سٹائل اور بچوں کے سے معصوم چہرے والا یہ گول مٹول سا آدمی شعر کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ بالکل سہل، سادہ اور واضح، جس طرح نہر کے ساتھ ساتھ شیشم کے ٹھنڈے سائے میں سفر کرتی سیدھی سڑک۔ عجیب بات یہ ہے کہ واہ واہ کرنے کی بجائے، وہ ہمیں غور و فکر پہ آمادہ کرتا ہے اور کبھی کبھی تو رو دینے پر۔ 
کتاب کا عنوان ہے: جیون سائے۔ اس کے اوراق میں، قاری کو پاکستان کے کئی سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے چہرے دکھائی دیے۔ اکثر لکھنے والوں کے برعکس، جن کی خود پسندی حیرت زدہ کرتی ہے، فریڈ ان نادر شعرا میں سے ایک ہے، جو وطن چھوڑنے پر مجبور ہوا تو اپنی ذات سے بھی ہجرت کر لی۔ 
پہلے کچھ مختصر نظمیں۔ قرینہ یہ ہے کہ جہاں کہیں / کا نشان ہے، وہاں ایک مصرعہ تمام ہوتا ہے۔
مثال: زندگی جسے بسر نہ کیا جائے/ وہ بھی گزر جاتی ہے/ شاید کسی قدر سست روی سے/ بیٹری کے سیل کی مانند/ جسے کوئی استعمال نہیں کرتا/ برسوں بعد بٹن دبایا جائے/ تو سانس بھر روشنی نہیں نکلتی۔ 
جرأت: جس شخص میں جرأت ہے یہ کہنے کی/ کہ اس میں بات کہنے کی جرأت نہیں/ جو وہ کہنا چاہتا ہے/ اس میں کم از کم اب بھی/ جرأت موجود ہے یہ بات کہنے کی۔ 
تسلّی: یہ امر کہ مرنے والے لوٹ کر نہیں آتے/ سچ ہے، یقینا سچ ہے/ مجھے صرف یہ بات ستاتی ہے کہ بعض لوگ/ جو اپنے ہاتھوں اور یونی فارموں پر/ خون کے دھبّے تلاش کر رہے ہیں/ انہیں یہ بات تسلّی دے سکتی ہے۔ 
انقلاب: جب سے چوہے نے بلّی کو دیکھا ہے/ ایک چوہے دان میں پھنسے ہوئے/ وہ انقلاب برپا کرنے کی فکر میں ہے۔ 
اچھے کام: جب میں دیکھتا ہوں کہ کیسے کیسے جتن/ اچھے کام کی خاطر کیے جاتے ہیں/ تو بعض اوقات میں سوچتا ہوں/ شاید یہ بات اچھی ہوتی/ اگر اچھے کام کا سرے سے وجود ہی نہ ہوتا۔
شرط: صرف یہ بات اہم نہیں ہے کہ ایک انسان درست بات سوچے/ بلکہ یہ امر بھی کہ جو شخص درست بات سوچے/ وہ انسان بھی ہو۔ 
سچائی: تم کہتے ہو کہ تم فی الواقع/ سچائی کی تلاش میں ہو/ خواہ وہ تمہاری برداشت سے بڑھ کر ہی کیوں نہ ہو/ ہو سکتا ہے کہ یہ بات درست ہو/ مگر جب تم نے اس بات کو جان لیا ہے/ اور اس کے باوجود/ سچائی کی کھوج کو جاری رکھتے ہو/ تو تم نے غالباً جھوٹ کا دامن تھام لیا ہے۔ 
پیار و محبت: وہ باتیں کر رہے تھے اپنی جدوجہد کی آزادی کے لیے/ پیار و محبت کے رستے میں اور توقیرِ انسان کی خاطر/ ان کا بچہ ایسے میں کمرے میں آیا/ ان سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا/ انہوں نے اسے منع کر دیا/ ''ہمیں اس وقت تنگ نہ کرو اور جا کر کھیلو‘‘/ بچّے نے باپ کی طرف دیکھا، پھر ماں کی طرف اور چلا گیا/ اس کے بعد میں ان کی باتیں/ توجہ سے سن نہ سکا/ انہوں نے مجھ سے پوچھا/ ''کیا تمہیں بچّے نے پریشان کر دیا؟‘‘
دل لگی: لڑکے بالے دل لگی میں مینڈکوں پر/ پتھروں کی بوچھاڑ کرتے ہیں/ اور مینڈک ہیں کہ سچ مچ مارے جاتے ہیں۔ 
علامے: بعض سچائیاں ایسی ہوتی ہیں جو اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتی ہیں/ جس کی جرأت جھوٹ بھی نہیں کر پاتا/ بعضوں کی سوچ ایسی ہے کہ وہ صرف ایسی سچائیوں کی/ تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
خوف: ننگا خوف اب/ قابلِ برداشت نظر آتا ہے/ بالمقابل پہلے کے/ جب وہ بھاری کپڑوں میں چھپا ہوا تھا۔ 
دستور: آزادی کہاں چلی گئی/ اسے جھکّڑ لے اڑا/ اور جمہوریت؟ اسے کتوں نے پھاڑ کھایا اور جیلوں میں ٹھونسی گئی/ امید نے کہاں پر پناہ لی؟ 
دستور میں/ اور مایوسی نے؟ دستور کی شرح میں۔ 
دہائی: تم نے کیا کیا؟ میں نے انہیں شور مچانے دیا/ دوسروں نے کیا کیا؟ ان کے منہ بند کر دیے/ وہ پکارتے آخر کیا تھے؟/ وہ مدد کی دہائی دیتے تھے/ کس کی مدد کی؟ بعض اوقات میرا خیال ہے، میری!
ایریش فریڈ آسٹریا میں پیدا ہوا۔ نسلاً وہ یہودی تھا۔ گسٹاپو کے ہاتھوں اس نے اپنے ماں باپ کو بے بسی سے مرتے دیکھا۔ مارپیـٹ اور اذیت رسانی سے۔ بھاگ کر وہ لندن چلا گیا اور بی بی سی کے شعبہء جرمن سے وابستہ ہوا۔ وہ ایک جوان آدمی تھا کہ امریکی ویت نام پہ چڑھ دوڑے۔ یہ ایک بڑا امتحان تھا۔ اس میں وہ سرخرو ہوا کہ ڈٹ کر سامراج کی مخالفت کی۔ اس سے بڑا امتحان اسرائیل کا قیام تھا، اس کے ہم نسلوں کا وطن۔ غور و فکر کے بعد بالآخر اس نے دوٹوک موقف اختیار کیا۔ یہی اپنی ذات سے ہجرت کا لمحہ تھا۔ اب ایریش کی عالمگیر پذیرائی کا آغاز ہوا۔ اس نے لکھا: ''سن اسرائیل میری بات سن/ جب ہمارا پیچھا کیا گیا/ تو میں تم میں سے ایک تھا/ اب میں کیسے اپنے آپ کو تم میں شمار کروں/ جب تم خود پیچھا کرنے والے بن چکے ہو‘‘۔
اس نے لکھا ''بیگن بولتا ہے مگر اس کے معانی کیا؟/ کیا مطلب ہے اس بات کا کہ بیگن بولتا ہے/ اس کا مطلب ہے کہ ایک قاتل بولتا ہے/ دیر یا سین والا قاتل/ اور ہوٹل کنگ ڈیوڈ والا قاتل/ کئی سو عورتوں، بچوں اور مردوں کا/ سالہا سال سے اب وہ لبنان کا قاتل بھی بن چکا۔ 
دنیا کے عظیم ترین اعزازات شاعر کے لیے بتدریج سہل ہو گئے۔ ان میں سے ایک کا نام تو خود اس کے نام پر رکھ دیا گیا۔ وہ ہمیں میکسم گورکی، دستوفسکی اور لیو ٹالسٹائی کی یاد دلاتا ہے لیکن شاید وہ ان سب سے زیادہ بہادر آدمی تھا۔ اس نے ہجرت کی اور جو ہجرت کرتے ہیں، زندگی کے ایسے معانی بھی ان پر روشن ہو جاتے ہیں، سب کتابیں اور سب استاد مل کر بھی شاید جنہیں اجاگر نہ کر سکیں۔ ایک بار اس نے کہا تھا: شاعر اس نہر میں مچھلیاں پکڑتا ہے، جو اس کے اندر بہتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس نے کسرِ نفسی سے کام لیا: ہر سچّا آدمی اپنے باطن میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پاتا ہے، اپنے آپ سے برسرِ جنگ ہو کر۔ خورشید رضوی راز کی یہ بات جانتے ہیں۔ وہ آدمی، جس کی زندگی پر کبھی کوئی بھرپور تحریر نہ لکھی گئی۔ 
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے 
اور خود عرصۂ ایّام سے ہجرت کر جا 
پسِ تحریر: سوشل میڈیا پر طرح طرح کی افواہیں پھیلانے والے ان گنت ہیں۔ فارغ آدمی کا دماغ شیطان کی کھڈی ہوتا ہے۔ عام طور پر صرفِ نظر ہی کرتا ہوں لیکن اب خرافات بہت بڑھ گئیں‘ مثلاً یہ کہ میں نے فلاں اخبار نویس کو برطرف کرنے کی شرط عائد کی یا یہ کہا کہ فلاں صاحب نے اپنے خاندان سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں۔ جھوٹوں پر خدا کی لعنت۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved