پچھلے دو ماہ سے جاری سیاسی کشمکش میں ہماری وہ پارلیمنٹ فاتح بن کے ابھری جس کے وجود کو زیادہ دیر تک برداشت کرنے کی روایت کمزور تھی، لیکن اسی مجروح پارلیمنٹ کی جاندار مزاحمت نے جمہورکی حکمرانی کو نئی توانائی عطا کر کے حکومت اور مقتدرہ دونوںکواس کی بالادستی تسلیم کرنے پر مجبورکر دیا۔ جی ہاں! یہ اجتماعی ذہانت تھی جو طوفانی یلغارکی راہ میں رکاوٹ بنی اورجائز اتھارٹی کی طور پر ریاست کے وجود پہ تصرف کا حق پا گئی۔ جاوید ہاشمی کی بغاوت نے لانگ مارچ اور دھرنوں کے لبادوں میں ملبوس سازشوںکے تاروپود بکھیرکے سیاسی بحران کا اختتامیہ لکھ دیا۔ ان کی بغاوت بھی پارلیمنٹ کی اُسی محافظ سوچ کا جز تھی جس نے غیبی قوت سے سرشار طاہرالقادری کی شعلہ نوائی اور عمران خان کے جارح لہجے کو لمحوں میں مضمحل کرڈالا۔ وہ شوریدہ سر حملہ آورجو معقولیت اور برداشت کی ہراپیل کو پائے حقارت سے ٹھکرا کے قومی وقارکی علامت پارلیمنٹ پہ چڑھ دوڑنا چاہتے تھے،ایک غیر مرئی فکری وحدت کے سامنے سپرانداز ہوکے بالآخر اپنے بے لچک موقف سے پسپا ہونے پر مجبورہوگئے۔
چلواچھا ہوا، یہ تراشیدہ بحران جس نے دو ماہ تک ملکی سیاست کو اپنے بے رحم پنجوں میں دبوچے رکھا، آخرکار ایسے خوشگوار انجام کا پیش خیمہ بنا جس نے منتخب پارلیمنٹ کو پہلی بار علامتی طور پرہی سہی، حاکمیت اعلیٰ کا مظہر بنا دیا اور منتخب حکومت نے بھی حق حکمرانی کے دفاع کا فریضہ نبھا کے اچھی روایات قائم کی۔ البتہ اس کشاکش میں ہمارا ہوشیار میڈیا منقسم اور باہم متحارب رہا اور صحافتی برادری کا ایک موثردھڑا جسے خوف و ترغیب کی زنجیروں نے جکڑ رکھا تھا، ہمیشہ کی
طرح انسانی دھارے سے جدا دکھائی دیا۔کیا یہ بھی ہماری خوش قسمتی تھی کہ رائے عامہ پہ کارپوریٹ میڈیاکی گرفت قدرے ڈھیلی پڑی اورانسانی سوچوںکو زنجیر پہنانے والا میڈیا پہلی بارخود خیر وشرکی جنگ میں رزم آرا نظرآیا۔ یہی وجہ ہے کہ ابہام سے لبریز ٹیلی ویژن مذاکروںکی اکتا دینے والی طویل اور لایعنی بحثوںکی گہری دھند تمام حشرسامانیوںکے باوجود حقائق کو مُتلبّس کرنے پرکامل قدرت نہ پاسکی اور خیر، ہر فریب کاری کے پردے کو چیرکے سامنے آتی رہی۔کنفیوژن کے دبیزغبارکے باوجود اس اصول کو جھٹلایا نہ جا سکا کہ منتخب قیادت ہی امورمملکت کو چلانے کاحق رکھتی ہے، عزل ونصب کی کنجی آئین کی کتابِ میں محفوط ہے اوراس کی کسٹوڈین عوام کو جوابدہ پارلیمنٹ ہے۔
طاہرالقادری کی طرف سے آئین و پارلیمنٹ پر بے باک حملوں سے ظاہرہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے اور سیاسی اشرافیہ میں آئینی نظام کی تقدیس کے مسئلے پر وہ یکسوئی مفقود تھی جو مملکت کی روح پہ پڑنے والی چوٹوںکا ادراک کرکے سسٹم کے دفاع کے لئے کوئی خودکار مزاحمت منظم کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کاروان جمہوریت کو جب بھی مذہب یا قومی سلامتی کو درپیش مفروضہ خطرات کی آڑ لے کرمنزل سے بھٹکایاگیا توکوئی مدافعت سامنے نہ آئی‘ مگر بتدریج تبدیلی نے وہ تمام حجابات الٹ دیئے جن سے جمہوریت دشمنوں نے اجتماعی ادراک کے رخ تاباںکوڈھانپ رکھا تھا۔ قرائن گواہی
دیتے ہیںکہ پچھلے پندرہ برسوں میں ہماری مقتدرہ کے اندر بھی ایسی سوچ پروان چڑھی کہ قومی سلامتی اور ملکی دفاع کے تقاضوں کوایک مضبوط جمہوری سسٹم مطلوب ہوگا۔ 2003ء میں ارکان اسمبلی کے نام لکھے گئے خطوط میں جنہیں پریس کے سامنے افشاکرنے کی پاداش میں جاوید ہاشمی کو بغاوت کے مقدمات کا بوجھ اٹھانا پڑا، ایسا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ شامل تھاجو ملک میں لگنے والے تمام مارشل لائوںکے پیچھے کار فرما اصل محرک کا پتا چلا سکے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو حب الوطنی اور ملک دشمنی جیسی بنیادی اصطلاحوںکی تعریف ازسرنو متعین کی جائے۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہرخود ساختہ نجات دہندہ آئینی نظام اور جمہورکی حکمرانی کو تلپٹ کرکے التباسات کی دھندسے فائدہ اٹھاتے ہوئے جمہوریت اور مروجہ نظام کو ناقص، غیر معتبر اور بے کار باورکرا کے ٹھکرانے میں حجاب محسوس نہیںکرتا اور یوں عوام کوکامل جمہوریت اور معیاری آئینی نظام فراہم کرنے کا فریب دے کر انہیں میّسر آزادیوں سے بھی محروم کر دیتاہے۔
پہلے فوجی آمر ایوب خان نے جمہوریت کی بساط لپیٹ کے اپنی طبع زاد بنیادی جمہوریت متعارف کرائی، یحییٰ خان نے ایوبی آمریت کے اکتائے ہوئے عوام کے جمہوری حقوق کے مطالبات کی گونج کو انگیخت دے کر بزورقوت اقتدار پہ قبضہ کر لیا، جنرل ضیاء الحق نے آئینی جمہوریت کو قتل کرکے فلاحی اسلامی ریاست بنانے کے جھانسے میںگیارہ سال تک قوم کو جمہوری آزادیوں سے دور رکھا اور جنرل مشرف نے بھی اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے نام پرآئینی نظام کی جڑیںکھوکھلی کرکے معاشرے کو انتہا پسندی اور تاریکی کے دلدل میں اتاردیا۔ اب بھی آئین و پارلیمنٹ کی حرمت پر حملہ آوردورہنمائوں نے عام لوگوں کو فریب دینے کے لئے جمہوری حقوق اورآئیڈیل آئینی نظام کے نعروںکا سہارا لے کر سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی مشق ستم کوآزمایا ؛ حالانکہ ان کی پکار حقیقت کے برعکس تھی۔ دراصل وہ ایک استبدادی حکومت کے قیام کی راہ ہموارکرنے کی سکیم کا حصہ ہیں۔بلاشبہ نمو پاتے آئینی نظام کی نرم کونپلوںکو مسل کے جمہوری تمدن کی افزائش روکنے والے بھی وطن دشمنی کے مرتکب ہوتے ہیں ، لیکن یہاں حب الوطنی کی تعریف اس قدر پیچیدہ اور متنازع بنا دی گئی ہے کہ جمہوریت کے بدترین دشمن بھی ستم گری کی ہرکاوش کوخیر و فلاح باورکرا سکتے ہیں۔ آفرین ہے ہماری صحافتی دانش پہ جس نے مفروضوںکو حقیقت کے لبادے پہنانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ آزادی اور انقلاب مارچ آئین ، ریاست ، حکومت اور معاشرے کے خلاف کھلی شرانگیزی تھی جس کا نقاب ذہنی ابہام اور عمومی بیزاری پر مبنی وہ سماجی رویہ بنا جو سیاسی حقوق اور جمہوری نظام کی نسبت ہمارے معاشرے کے تمام طبقات میں سرایت کر چکا ہے۔
حکومت کے علاوہ اہل دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام لوگوں میں آئینی نظام کے ارتقاء پاتے مراحل اورجمہوریت کی پنپتی افادیت کا شعور پیدا کریں تاکہ کوئی فتنہ آئینی جمہوریت پر حملہ آور ہو تو عوام اس کے دفاع کے لئے مستعد نظرآئیں۔اس سارے ہنگامے میں کچھ سیاسی کردار نمایاں ہوئے اورکئی فطری رجحانات نمو پا گئے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی سسٹم کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی نے انہیں قومی لیڈرکے طور پہ متعارف کرایا۔ قوم پرست رہنما اسفند یار، حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی کی آئین کے ساتھ لازوال کمٹمنٹ نے علیحدگی پسندی کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کرکے وفاق کو قوت وتوانائی عطا فرمائی اورمذہبی لیڈر مولانا فضل الرحمٰن کی آئینی جمہوریت سے وفاداری کا عزم مذہبی تعصبات کوکندکرنے کا وسیلہ بنا۔ البتہ ابھرتے ہوئے قومی لیڈر عمران خان دلیل کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ افسوس، وہ قومی قیادت پہ فائز ہونے کا سنہری موقع گنوا بیٹھے۔ عمران خان اگر تدبر سے کام لیتے تو 14اگست سے پہلے وہ مقاصد حاصل کر لیتے جو ہر سیاست دان کی آرزو ہوا کرتے ہیں۔ سیاست کی بازی میں عمران خان نے جو شاہ مات کھائی اس کا ازالہ ممکن نہیں، انتخابی شکست کی تلافی کی جا سکتی تھی لیکن دلیل کے ہاتھوں شکست کھانے والے اصغر خان کی مانند وہ دوبارہ سیاسی زندگی نہیں پاسکتے۔