میرا خیال ہے‘ دنیا کی کسی پارلیمنٹ میں ایک ہی موضوع پر اتنی تقریریں‘ کبھی نہیں ہوئی ہوں گی جتنی کہ ہمارے ہاں گزشتہ کئی دنوں سے ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ موضوع بھی کمال کا ہے۔ پارلیمنٹ اور جمہوریت۔عام طور سے یوں ہوتا ہے کہ قومیں جب کسی مشن میں کامیاب ہوتی ہیں تو جا بجا لوگوں کو اکٹھا کر کے‘ اپنی کامیابی کے تذکرے کرتی ہیں۔ خوشیاں مناتی ہیں اور آنے والے دنوں کے لئے نئی کامیابیوں کی تیاریاں کرتی ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ خلق خدا‘ پارلیمنٹ اور جمہوریت کو ایک سزا کی طرح بھگت رہی ہے اور ان دونوں کا کاروبار کرنے والے‘ جشن منا رہے ہیں۔جب فوج اصل میں اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو یہی سارے لوگ‘ جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں‘ انہیں بڑے اہتمام سے جمہوریت پیش کر دیتے ہیں۔ انہیں کہتے ہیں کہ آپ پارلیمنٹ بنائیے ہم ‘اسے چلانے کے لئے حاضر ہیں۔آپ کو جمہوریت کی ضرورت ہے تو خاطر جمع رکھیے ہم سپلائی کر دیں گے۔ یحییٰ خان سمیت پاکستان کے سارے فوجی آمروں کو اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد‘ پارلیمنٹ بھی مل جاتی ہے اور جمہوریت بھی۔ مال مصالحہ وہی ہوتا ہے۔یحییٰ خان نے انتخابات مانگے۔ جمہوریت کے مستریوں نے جوش و خروش سے ان میں حصہ لے کر‘ جمہوریت کو'' مضبوط ‘‘کیا۔کامیاب ہونے والوں نے ایک کے بجائے‘ دو پارلیمنٹ بنا دئیے اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے‘ خون کے دریا بہائے گئے۔دنیا میں کہیں کے سیاست دان بھی‘ پارلیمنٹ اور جمہوریت سے اتنا پیار کرتے ہیں جتنا کہ ہم! قوم کو ایک کے بجائے دو پارلیمنٹ دینے کے بعد ‘ ہمارے اہل سیاست دانوں نے دونوں طرف کے جنرلوں کو پارلیمنٹ اور جمہوریت فراہم کر دئیے۔ایک کے بجائے دو پارلیمنٹ بنانے کا معجزہ دکھاتے ہوئے بہت خون بہایا گیا لیکن منزل حاصل کر کے رہے۔جیسے ہی خون خرابے کے اثرات‘ زائل ہوئے۔ پارلیمنٹری جمہوریت سے پیار کرنے والے‘ ہمارے سیاست دان‘ اکتاہٹ کا شکار ہو گئے۔ اپنی بنائی ہوئی پارلیمنٹ کو چلانا ان کے لئے مشکل ہو گیا۔ پارلیمنٹ کی بقا اور جمہوریت کے استحکام کے لئے‘ انہوں نے پھر سے ا یک فوجی آمر کو دعوت دی تاکہ وہ انہیں‘ ایک قابل عمل جمہوریت اور پارلیمنٹ مہیا کرے اور ساتھ ہی اس آئین کی بھی مرمت کر دے‘ جسے چلانا ان کے بس سے باہر ہو گیا تھا۔
جنرل ضیا الحق ایک صالح اور درد مند مسلمان تھے۔انہوں نے نئے سرے سے ایک آئین بنا کر‘ اس میں اسلام کے تحفظ او ر فروغ کے مناسب انتظامات کر دئیے۔ یہ انتظامات پہلے بھی موجود تھے مگر غیر محفوظ۔آئین کو اسلام سے مالا مال کر نے کے بعد‘ انہوں نے تجرباتی طور پر شجرے دیکھ کے ایک پارلیمنٹ بنائی اور جب اسے آزمائشی مراحل سے گزار لیا تو نئے آئین کے تحت‘ نئی پارلیمنٹ کھڑی کی اور مزے سے جمہوریت کو ہانکتے ہوئے ‘شاہراہ اقتدار پر گامزن ہو گئے۔ جب تک جمہوریت کی لگامیں آمرِ اسلام کے ہاتھوں میں رہیں‘ جمہوریت مست خرامی سے چلتی رہی اور جب اچانک ایک حادثے کے نتیجے میں آمرِ اسلام بالا ہی بالا ‘ عالم بالا پہنچ گئے تو ہمارے سیاست دان ایک بار پھر پارلیمنٹ اور جمہوریت سے محروم ہو گئے۔ہمت مگر نہیں ہاری۔ادھر ادھر سے دائو لگا کر‘ دربار میں حاضر ہو گئے اور انہیں مرضی کی جمہوریت اور پارلیمنٹ فراہم کر کے‘اپنے کاروان کو پھر سے جادہ پیما کر دیا۔جنرل ضیا الحق نے شجرے دیکھ کر‘ صحیح النسل سیاست دان تیار کئے۔ وہ دس سال تک آمرِ اسلام کی جمہوریت کو سبک خرامی سے چلاتے رہے۔ جب آمر کے بغیر‘جمہوریت کو مزید چلانا مشکل ہو گیا تو ایک بار پھر‘ نئے آمر کی خدمات حاصل کی گئیں۔ انہوںنے نئے سرے سے بساط بچھا کر‘ نئے مہرے ترتیب دئیے اور ایک بار پھر ان کی خدمت میں پارلیمنٹ اور جمہوریت پیش کر دی۔ اس بار بھی آمر نے‘ پھر سے انہیں ایک نیا آئین دے کر‘ نئی پارلیمنٹ مرتب کر کے دی اور سٹیئرنگ پر بیٹھ کر اسے سٹارٹ کر دیا۔جب جمہوریت کی گاڑی چل پڑی تو اس کے نئے معمار کو‘ لات مار کے سڑک پر پھینکا اور آگے کی طرف چل پڑے۔طویل عرصے کے دوران‘ بار بار پارلیمنٹ کو رینیو کرنے اور جمہوریت کی بار بار ٹیلرنگ کر کے‘ اسے اتنا پختہ اور مضبوط بنا دیا ہے کہ اسے چلانے والے ٹینکوں کو بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ہر نئے جنرل نے کینٹ جمہوریت کو بکتر بند گاڑی طرح مضبوط کر دیا ہے۔ کینٹ کی جمہوریت ‘ کنٹینر کی جمہوریت بن کر دھڑلے سے کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔قدرت نے ہر نوع کو‘ نئی نسل کے ذریعے آگے بڑھانے کا نظام بنا رکھا ہے۔ کینٹ جمہوریت اب بالغ ہو کر‘ کنٹینر کی ڈرائیونگ سیکھ چکی ہے۔ اب جارحیت کے لئے بھی کنٹینر استعمال ہوتے ہیں اور دفاع کے لئے بھی۔پرانی نسل کے جمہوری سوداگر سیمنٹ اور کنکریٹ سے بنے ‘ کنٹینر میں بیٹھ کر‘ نئی نسل کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں اور نئی نسل اپنی جگہ لینے کے لئے‘ لوہے کے کنٹینر میں بیٹھ کر‘ اپنا بچائو کرتے ہوئے قدم جمائے کھڑی ہے۔
عام طور پر‘ کینٹ جمہوریت‘ شہری علاقے میں آنے کے بعد‘ اوسطاً‘ آٹھ‘ دس سال کا عرصہ گزار لیتی ہے۔یہی اس کی قدرتی عمر ہوتی ہے۔ اس کے بعد نئی نسل تیار ہو کر‘ کنٹینر کا کنٹرول سنبھالنے کو تیار ہو جاتی ہے۔ پرانی نسل ‘ پرانی پارلیمنٹ میں مورچہ زن ہو کے‘ اپنے دفاع میں لگ جاتی ہے اور نئی نسل اپنے اثاثوں پر قبضہ کرنے کے لئے‘ لوہے کے کنٹینر میں مورچہ زن ہو جاتی ہے۔ اس بار یہ کھیل صرف چودہ مہینوں میں ہی شروع ہو گیا۔ اسے نئی زندگی اور توانائی دینے والا آمر‘ بہت جلد اسے چھوڑ گیا۔ ایوب خان نے جمہوریت کو جنم دے کر دس‘ بارہ سال اپنی سرپرستی میں رکھا۔یحییٰ خان اپنی بنائی ہوئی پارلیمنٹ کو ایک رکھنے میں ناکام رہے اور وہ دو ملکوں میں بٹ کر‘ فوجی سرپرستی کے بغیر پروان چڑھنے لگی مگر زیادہ عرصہ اپنے پیروں پر کھڑی نہ رہ سکی۔ایک طرف دو تین سالوں کے بعد ہی فوج نے آگے بڑھ کر لڑکھڑاتی جمہوریت کو اپنی پناہ میں لیا اور7 سال کے بعد ہماری جمہوریت بھی اپنے بانی کے سائے سے محروم ہو کر‘ دوسری باربوکھلائی ہوئی ہے۔اسے سمجھ نہیں آرہی کہ اپنے اثاثوں کو پرانی نسل سے‘ نئی نسل کے ہاتھوں میں کیسے منتقل کرے۔
پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔دونوں نے اپنا آغاز‘ جمہوریت کے ساتھ کیا۔ بھارتی جمہوریت‘ اپنے بانیوں کے زیر سایہ‘ پروان چڑھ کے جوان ہو گئی۔ ہماری جمہوریت بچپن میں ہی یتیم ہو گئی تھی۔اسے جاگیرداروں‘ قبائلی سرداروں اور طالع آزما جنرلوں نے مل کر‘ اپنا بندی بنا لیا۔انہی بندیوں کی نسل جب پیروں پر کھڑی ہوئی تو اسی میں سے کچھ لوگوں کو جمع کر کے پارلیمنٹ بنا ئی گئی۔ اسی پارلیمنٹ سے‘ جمہوریت چلوائی اور جب دیکھا کہ بچونگڑے جمہوریت کو چلانے میں دقت محسوس کرنے لگے ہیں تو پھر آگے بڑھ کر اس کا کنٹرول خود سنبھال لیا۔ چند سال یہ جمہوریت کوچلاتے ہیں۔اس کے بعد آزمائشی طور پر معاملات اس کے سپرد کر کے‘ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ ا ن سے سنبھل نہیں پاتی ‘تو پھر سے آگے بڑھ کر‘اسے پیروں پر کھڑا کرتے ہیں۔ اسے آٹھ‘ دس قدم چلا کر دیکھتے ہیں اور جب تسلی ہو جاتی ہے کہ اب یہ اپنے پیروں پر چل سکتی ہے تو ایک طرف ہٹ جاتے ہیں۔ یہ جمہوریت چند قدم گرتے پڑتے چلتی ہے اور جب گرنے کے بعد‘ اٹھنے کے قابل نہیں رہتی تو اسے پالنے والے پھر سے آگے بڑھ کر‘ سنبھال لیتے ہیں۔ اس باربچونگڑے جمہوریت کو پیروں پر کھڑا کرنے والے بزرگ کو دھکا دے کر دور ہو گئے۔ یہ 6برس چلنے کے بعد ساتویں برس میں داخل ہوتے ہی‘ لڑکھڑانے لگی ہے۔ نئی نسل اپنا اثاثہ سنبھالنے کے لئے آگے بڑھنا چاہتی ہے اور پرانی نسل قبضہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔ایک نے سیمنٹ اور کنکریٹ کے ٹینکر میں بیٹھ کر‘ مورچہ لگا رکھا ہے اور نئی نسل لوہے کے کنٹینر میں بیٹھی آگے بڑھنے کی کوشش کرر ہی ہے۔ دونوں کنٹینر ایک ماہ سے اپنی اپنی جگہ کھڑے ہیں۔ کوئی بھی آگے بڑھنے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ پرامن انتقال اقتدار کے راستے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ پرانی نسل راستہ چھوڑنے کو تیار نہیں اور نئی نسل پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ایک جمود سا طاری ہے۔آپ پوچھیں گے اب کیا ہو گا؟ میرا جواب ہے کہ وہی ہو گا جو ہوتا رہا ہے۔ہمارے ہاں عوامی طاقت رکھنے والا کوئی لیڈر‘ میدان اقتدار میں اپنے پیروں پر زیادہ دیر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ زند ہ رہنے کے لئے مردہ ضمیر درکار ہوتے ہیں اور ایسے معاشرے کی سیاسی فصلوں میں اردوان‘ قسمت ہی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ جو بننے کی کوشش کرتا ہے‘ وہ زیادہ سے زیادہ مورسی بن سکتا ہے۔6مہینے۔سال۔ اور پھر...