تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-09-2014

2010ء سے 2014ء تک‘ حکومتی بدانتظامیوں کی داستان …(2)

پانی کا مہیب ریلا آ چکا تھا اور تونسہ بیراج پر دبائو ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ بیراج کی اوپر والی سمت یعنی Up stream ایک پیمانہ نصب ہے۔ جسے "Critical Gauge" کہتے ہیں۔ تونسہ بیراج کا کریٹیکل لیول چار سو پینتالیس فٹ تھا جبکہ پانی اس لیول سے پانچ فٹ اوپر یعنی چار سو اڑتالیس فٹ ہو گیا۔ دایاں حفاظتی بند چار سو تینتالیس سے اوپر ہوتے ہی توڑ دینا چاہیے تھا مگر یہ طے ہی نہ ہو سکا کہ بند کب توڑنا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کی دو صورتیں تھیں؛ پہلی یہ کہ بیراج کے سارے دروازے مکمل طور پر کھول دیے جاتے تاکہ پانی کا دبائو کم ہو جاتا اور دوسری یہ کہ دایاں بند توڑ دیا جاتا‘ مگر دونوں کام نہ کیے گئے۔ دروازے مکمل طور پر اس لیے نہ کھولے گئے کہ اگر دروازے کھول دیے گئے تو پانی کا ایک بڑا ریلا اس بیراج سے گزر کر‘ جب ڈائون سٹریم بنائی گئی دیوہیکل دیوار سے ٹکرائے گا تو یہ دیوار اس دبائو کو برداشت نہیں کر سکے گی اور بہہ جائے گی۔ ایسی صورت میں محکمے کے کرپٹ افسران اور ٹھیکیدار گیارہ ارب روپے کا حساب کیسے دیں گے۔ دایاں بند اس لیے نہ توڑا گیا کہ دریا کے پانی کے سیلاب کی صورت میں نکاس والے راستے میں ٹھیکیدار کے سولہ مربعے تھے اور ان پر گنے کی فصل تیار تھی۔ اس پر با اثر ٹھیکیدار کے چھ سات کروڑ روپے کی بربادی کسی کو منظور نہ تھی۔ افسران عملی قدم اٹھانے کے بجائے شش و پنج میں پڑے رہے اور پانی کا سارا دبائو بالآخر بائیں حفاظتی بند المعروف عباس والا بند پر آ گیا جو بالآخر جواب دے گیا۔ 
دریائے سندھ کے پانی کا مہیب ریلا عباس والا بند‘ مظفر گڑھ کینال اور تونسہ پنجند لنک کینال کو توڑتا ہوا‘ ان علاقوں میں داخل ہو گیا جہاں آج تک دریائے سندھ کا پانی نہیں آیا تھا۔ اس سے قبل سیلاب کی صورت میں ہمیشہ دایاں حفاظتی بند توڑا جاتا تھا کیونکہ بیراج بناتے وقت سیلابی پانی کے نکاس کے لیے ایک راستہ چھوڑا گیا تھا۔ یہ پانی کے دوبارہ دریا میں آنے کا قدرتی راستہ تھا جسے برقرار رکھا گیا اور مظفرگڑھ تونسہ سڑک اور ڈی جی خان کینال کے نیچے بھی اس سیلابی پانی کے گزرنے کے لیے باقاعدہ راستہ بنایا گیا تھا۔ اس طرف پانی آنے کی صورت میں پانی چند میل کے بعد تونسہ بیراج سے ڈائون سٹریم پر دوبارہ دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا تھا مگر بائیں طرف ایسی کوئی گزرگاہ یا متبادل راستہ نہ تھا۔ بایاں بند ٹوٹتے ہی قیامت صغریٰ کا سا حال ہو گیا۔ اس نقصان کو چند اقدامات سے کم کیا جا سکتا تھا۔ اگر اس ریلے کو دوبارہ دریائے سندھ میں ڈالنے کے لیے دری انتیس ہزار اور دری چانڈیاں والی کے بند توڑ دیے جاتے مگر یہ بند با اثر کھر خاندان کے ان نمائندوں نے نہ توڑنے دیے جو اس وقت اقتدار میں تھے۔ 
اس دوران حکومت محض تماشائی بنی رہی۔ فوج نے بالآخر آ کر دری چانڈیاں والا بند توڑا۔ مقامی با اثر خاندان نے ازخود اس کی مرمت کرنے کی کوشش کی لیکن اگلے روز کرنل کامران کی نگرانی میں فوج نے یہ بند دوبارہ توڑ دیا۔ اس دوران ناقابل تلافی نقصان ہو چکا تھا۔ صرف پی ایس او آئل ڈپو پر نقصان کا اندازہ ایک ارب روپے تھا۔ سات سو پچاس میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا ایک یونٹ کئی ماہ بند رہا؛ تاہم اس دوران بعض اچھی باتیں بھی ہوئیں اور تسلی بخش خبریں بھی ملیں۔ پہلی یہ کہ ٹھیکیدار کا سولہ مربع اراضی پر کاشت شدہ گنا سیلاب سے محفوظ رہ گیا۔ دوسری اچھی خبر یہ تھی کہ ٹوٹ جانے والے عباس پور بند کی دوبارہ تعمیر کا ٹھیکہ پھر اسی ٹھیکیدار کو دیا گیا جس نے پہلا ٹوٹ جانے والا بند بنایا تھا جس میں باریک بجری (Crush) استعمال ہی نہیں کی گئی تھی اور تیسری اچھی خبر یہ تھی کہ محکمہ آبپاشی کی ساری نااہلی‘ نالائقی اور کرپشن پر آنکھیں بند رکھنے والوں کے خلاف تحقیقاتی کمیشن کے تینوں ارکان ان کے ماتحت تھے۔ 
سیلاب ختم ہو گیا اور تباہی و بربادی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔ چار سال لوگوں کی سو فیصد آبادکاری نہ ہو سکی۔ نقصانات پورے نہ ہوئے اور اب پھر سیلاب کا عفریت سینکڑوں بستیوں‘ دیہاتوں اور قصبوں کو تاراج کرتا ہوا جنوبی پنجاب کی طرف آ رہا ہے‘ بلکہ آ چکا ہے۔ آج بھی سیلاب سے ہونے والے نقصانات میں بنیادی کردار محکمہ آبپاشی کے افسران کی نااہلی‘ نالائقی اور بددیانتی کا ہی ہے۔ دریائوں کے کنارے بنائے جانے والے بند کھوکھلے‘ کمزور‘ ناقص مٹیریل اور غلط منصوبہ بندی کا شاہکار ہیں۔ اب تک جتنے پیسے ان حفاظتی بندوں کی تعمیر و مرمت پر صرف ہو چکے ہیں‘ ان سے ان دریائوں کے دونوں طرف کئی فٹ موٹی کنکریٹ کی دیوار بنائی جا سکتی تھی۔ ان دریائوں کے بہائو کو رواں رکھنے کے لیے ان کے آبی راستوں کو گہرا کیا جا سکتا تھا اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے کہیں کم پیسوں میں کئی ڈیم تعمیر ہو سکتے تھے جن کے باعث نہ صرف سیلاب سے بچائو ممکن تھا بلکہ سیلاب کی صورت میں کروڑوں ایکڑ فٹ پانی کو سمندر میں ضائع ہونے سے بھی بچایا جا سکتا تھا مگر ایسی صورت میں محکمے کے افسروں اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت پر مشتمل کرپٹ اتحادی مافیا کا موج میلا ختم ہو جاتا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہر سال اربوں روپے خرچ کر کے مٹی کے بند بنائے جاتے ہیں اور وہ اگلے ہی سیلاب میں بہہ جاتے ہیں‘ اور پھر نئے سرے سے ان بندوں کی تعمیر شروع ہو جاتی۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ 
2010ء کے سیلاب کے بعد ایک کمیشن بنایا گیا۔ یہ کمیشن جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تھا اور اس کمیشن نے بڑی محنت سے کئی ماہ کی کوششوں سے حقائق اکٹھے کیے۔ اس دوران کمیشن نے تونسہ بیراج اور سیلابی متاثرہ علاقوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ میں نے اس سیلاب پر دو تفصیلی کالم لکھے۔ ایک دن مجھے ہائیکورٹ کی جانب سے گواہی کا نوٹس موصول ہوا۔ وجہ میرے کالم تھے۔ میں لاہور پہنچ گیا۔ کمیشن کا اجلاس لاہور ہائی کورٹ کی تہہ خانے والی لائبریری میں ہو رہا تھا۔ میں جسٹس صاحب کے روبرو پیش ہو گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مجھے دیکھ کر کہا کہ انہیں خوشی ہوئی ہے کہ کوئی کالمسٹ اپنے کالم کی سچائی کی غرض سے عدالت کے طلب کرنے پر آ گیا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے کسی کالمسٹ کو عدالت آ کر اپنے کالم کی سچائی کا دفاع کرتے نہیں دیکھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اپنے کالموں کے مندرجات کو قبول کرتا ہوں؟ میں نے جواباً کہا کہ نہ صرف یہ کہ میں ان کالموں کے تمام مندرجات کی صحت قبول کرتا ہوں بلکہ میں آپ کو اپنے اصل ہاتھ سے لکھے ہوئے کالم دینا چاہتا ہوں کیونکہ اخبار والوں نے اپنی مجبوریوں کے باعث ان دونوں کالموں سے نام نکال دیے ہیں اور کئی سطریں حذف کردی ہیں۔ میں اصل کالم کمیشن میں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ پورا سچ کمیشن کے سامنے آ سکے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے چند سوالات کیے۔ میں کیونکہ سارا سیلاب زدہ علاقہ بذات خود دیکھ چکا تھا لہٰذا ساری تفصیلات بتائیں اور سوالات کے جواب دیے۔ 
کمیشن نے بعدازاں اپنی سفارشات حکومت کو پیش کردیں جن میں موٹی موٹی سفارشات تھیں کہ اس سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی بنیادی ذمہ داری محکمہ آبپاشی پنجاب پر ہے۔ رپورٹ میں پنجاب حکومت کے محکموں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کے بارے میں بڑے سخت الفاظ استعمال کیے گئے۔ دریائی علاقوں میں غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ ''زمیندارہ بندوں‘‘ کو فوری طور پر ختم کرنے کا کہا گیا۔ دریا کے بیٹ میں غیر قانونی اور بلااجازت تعمیرات کے بارے میں قانون سازی پر زور دیا گیا۔ ہیڈ ورکس اور بیراجوں پر قابل استعمال حالت میں مطلوبہ مشینری اور دیگر لوازمات کو لازمی قرار دیا۔ پانڈ ایریا کے بارے میں ہدایات دیں۔ سیلاب کے دنوں میں بریچنگ ایریاز کو نوگو ایریا بنانے کی سفارش کی۔ سیلاب سے نمٹنے کے لیے کثیرالجہتی اور وسیع منصوبہ بندی پر زور دیا گیا۔ سیلاب کی پیشگی اطلاع کے لیے ایک جدید ترین فورکاسٹ میکنزم بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی سفارشات پیش کی گئیں مگر سب کچھ داخل دفتر ہو گیا۔ جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی‘ ان کے خلاف کارروائی اور انکوائری تو کیا ہونی تھی‘ خادم اعلیٰ کی ناک کے نیچے ان کو ترقیاں دی گئیں۔ سیکرٹری آبپاشی کے لیے کسی ٹیکنیکل افسر کی تعیناتی کی سفارش کے ساتھ ساتھ اس وقت کے سیکرٹری آبپاشی رب نواز اور دو چیف انجینئرز رائو ارشاد اور عبدالقادر کو تمام خرابی اور غفلت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے تادیبی کارروائی کا کہا گیا مگر کچھ نہ ہوا۔ سیکرٹری آبپاشی کو بعدازاں سیکرٹری انرجی لگا دیا گیا۔ 
اب بقول رانا ثناء اللہ یہ رپورٹ ہی غلط ہے۔ اگر رپورٹ غلط ہے تو پھر یہ دوبارہ سیلاب انہی وجوہ پر زیادہ نقصان کا باعث کیوں بن رہا ہے؟ اگر ہم 2010ء میں اپنی غلطیوں کو درست کر لیتے تو 2014ء میں نقصانات کو کم کیا جا سکتا تھا مگر کمیشن کی دو تین بے ضرر سی سفارشات کے علاوہ کسی پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اس بار بھی شاید سیلاب کے بعد کوئی کمیشن بنایا جائے اور اس کی سفارشات کو بھی حسب سابق داخل دفتر کردیا جائے۔ ممکن ہے اگلے کسی سیلاب کے موقع پر پھر کوئی رانا ثناء اللہ اس رپورٹ کو غلط قرار دے۔ میں یہ بات اس تناظر میں کہہ رہا ہوں کہ ہم نے 2010ء سے 2014ء تک چار سال میں کوئی سبق حاصل نہیں کیا‘ کچھ اقدامات نہیں کیے‘ بھلا آئندہ کے لیے ایسی احمقانہ امید کس طرح رکھی جا سکتی ہے۔ (ختم) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved