تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     12-09-2014

سیلاب آمد

ملک میں بدقسمتی سے ایک بار پھر تباہ کن سیلاب آگیااور جانی نقصان کے ساتھ ساتھ بہت بڑے مالی نقصان کا بھی ملک وقوم کو سامناہے ۔اور ابھی تو سیلاب صوبۂ سندھ کی حدود میں داخل نہیں ہوا، اس لئے نقصانات کا صحیح تخمینہ لگانا فوری طورپر ممکن نہیں ہے ۔ ہمارے کراچی والوں کے بھائی الطاف حسین صاحب نے دھرنے والوں سے دردمندانہ اپیل کی کہ خدارا دھرنا موقوف کرکے پوری قوم سیلاب زدگان کی مدد میں جُت جائے اور سب مل کر اس قومی المیے کا سامنا کریں۔ مگر ہوسکتاہے کہ دھرنے والوں نے سوچا ہو کہ پاکستان میں سیلاب تو ہرچند سال کے وقفے سے آتارہتاہے، انقلاب اور آزادی دھرنا تو بار بار نہیں آسکتا، اس لئے اسے موقوف یا ملتوی کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ 
حالانکہ دھرنے کے حوالے سے بھی کوئی ایسی مایوس کن صورتِ حال نہیں ہے۔ پہلا دھرنا 2012ء میں ہوا اور دو سال کے وقفے سے اس دھرنے کے بطن سے دو دھرنے نمودار ہوئے، جس کی طوالت کا ابھی اللہ تعالیٰ اور دھرنے کی قیادت کے سوا کسی کو علم نہیں ہے۔ اور اگر دھرنوں کی افزائشِ نسل اسی رفتار سے ہوتی رہی، تو بعید نہیں کہ ہمارا ملک ''دھرنستان‘‘ کہلانے لگے اور ''گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ ‘‘ میں دھرنوں کے حوالے سے ہمارا ملک سرِفہرست قرار پائے۔ انگریزی اخبارات والے دھرنے کو Sit Inلکھتے ہیں، لیکن جو دہشت اور ہیبت اور شکوہ ''دھرنے ‘‘کے لفظ میں ہے، وہ Sit In میں کہاں؟۔پہلے ہمارے ملک میں علامتی دھرنے ہوتے تھے، توان سے اتنا خوف نہیں آتا تھا، کیونکہ وہ صرف احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے اور حکومت اور عوام کو اپنے مطالبات کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہوتے تھے ، اس لئے دھرنے کے سب فریق انہیں آسانی سے لیتے تھے۔ 
اِس دوران ہمارے تمام ٹیلیویژن چینلز میں دھرنوں کی تمام تفصیلات اورجزئیات کی کورنگ کی میراتھن دوڑ لگ گئی ،صرف زمین ہی سے نہیں ، فضاسے بھی کوریج کے اہتمام کئے گئے ،معمول کی نشریات مُعطّل ہوگئیں،نجومی ،جوتشی اور ماہرینِ مُستقبلیات فارغ کردیئے گئے اور وہ سینئر تجزیہ کار جن کے دربار معمول کے مطابق سرِشام لگتے تھے ، اب وہ چوبیس گھنٹے مصروف ہوگئے اور اُن کی مہارتوں ،تجزیوں ، تاویلات وتوجیہات کا فیض قوم کے لئے جاری وساری ہوگیا ۔ہم تو جونیئر لوگ ہیں ،صرف ایک ہی شعبے میں سینئر ہیں اوروہ ہے':' سینئر سٹیزن ‘‘،باقی ہم طالب علم ہیں اور اہلِ علم ودانش سے اپنی بساط کے مطابق استفادہ کرتے رہتے ہیں ۔رَواں تبصروں سے توہم نے دامن کھینچ لیاہے ،کچھ عرصے کے لئے ٹیلیویژن اسکرین کوبھی خیرباد کہہ دیاہے تا کہ بلڈ پریشر نارمل رہے اور اِس ڈھلتی عمر میں نفسیاتی عوارض سے بچے رہیں ،جوہوناہے وہ ہوکر رہے گا اور پوری قوم کے ساتھ ہم بھی نتائج کے مُستفیدین یا متاثرین میں شامل ہوںگے ۔
حکومت کا عالم یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار پوری پارلیمنٹ تمام تر اختلافات کو بھلا کر حکومت کی پُشت پر کھڑی ہوگئی ہے ، لیکن اِس سے بند گلی سے نکلنے کا راستہ کسی کو سجھائی نہیں دیتا۔ پارلیمنٹ ،آئین اور جمہوری نظام کے تحفظ کی دُہائی دے رہی ہے اور مخالفین کے نزدیک آئین لفظاً ومعنیً رُوبہ عمل نہیں ہے ۔جو مطالبات ہیں ،وہ آئین کے دائرے میں پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے اور آپس کی بے اعتمادی کی وجہ سے مسائل کو حل کرنے کے لئے جووقت اور طریقۂ کار دَرکار ہے ،اُس کی خاطر اہلِ مطالبات انتظار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ 
آئینی ترمیم اور قانون سازی وزیراعظم کے لئے پارلیمنٹ کی حمایت کے بغیر عملاً ممکن نہیں ہے، کیونکہ آئینی ترمیم کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے ،اور وہ وزیر اعظم کے پاس نہیں ہے ،تاوقتیکہ اپوزیشن یا پارلیمنٹ کی سب جماعتیں اس کی حمایت نہ کریں ۔ اسی طرح وزیراعظم کے لئے تنہا اپنی پارٹی کے بَل پر سادہ قانون سازی بھی ممکن نہیں ہے ، کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے پاس سینیٹ میں سادہ اکثریت بھی نہیں ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو کرنی ہے ، اس کے لئے کوئی نیا طریقۂ کار وضع کرنا ہے۔ موجودہ الیکشن کمیشن کے ممبران کو وقت سے پہلے فارغ کرنا ہے ، لیکن اس گوہرِ مقصود کا حصول بھی دستوری ترمیم کے بغیر شاید ممکن نہ ہو۔ اِسی طرح الیکشن کے طریقۂ کار کو بدلنا ہے، بائیومیٹرک سسٹم لانا ہے، تو اس کے لئے بھی مطلوبہ قانون سازی کے ساتھ ساتھ انتظامات بھی درکار ہوں گے،پس تمام تر نیک نیتی کے باوجود اِس پر بھی یقیناً کچھ وقت لگے گا ۔
مذاکرات کی صورتِ حال یہ ہے کہ قومی جرگے کے توسط سے چیونٹی کی رفتار سے چل رہے ہیں ، حالانکہ قومی اور ملکی حالات کاتقاضا ہے کہ مذاکرات کو تیز رفتاری سے جلدازجلد کسی انجام تک پہنچایا جائے۔ جناب شاہ محمود قریشی دو تین روز سے یہ بشارت سنارہے ہیں کہ معاملات حل ہونے کے قریب ہیں ، لیکن دوسری طرف جو قیادتیں انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کی مہم پر دھرناجاری رکھی ہوئی ہیں، لگتا ہے کہ ان کا پروگرام طویل دورانیے کا ہے۔ قوم اس لئے کنفیوز ہے کہ ان کے خطابات میں کسی مصالحت یا مفاہمت کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی اور ان کی بے قراری اور اضطراب کی تصویر بہت پہلے غالب نے اپنی غزل میں کھینچ دی تھی ؎ 
آہ کو چاہئے اک عُمر، اَثر ہونے تک
کون جیتا ہے، تیری زُلف کے سر ہونے تک
دم ِہر موج میں ہے، حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھئے کیا گزرے ہے، قطرے پہ گُہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں، خونِ جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
سو مطالبات اور اَہداف کے لئے اگر آئینی اور قانونی ضمانتیں اور تحفظات چاہئیں ، تو عاشقی کو صبر طلب ہوناچاہئے ، اس میں لازماً اور یقینا وقت درکار ہوگا ، صرف جذبات کے تموُّج ، مزاج کی عجلت پسندی اور عادت کی جلدبازی سے یہ ہمالیہ سر نہیں ہوگا، مگر مشکل یہ ہے کہ'' بے تاب تمنا‘‘ میں انتظار کی سَکَت نہیں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ کل کی بجائے آج اور آج کی بجائے اسی لمحے تصادم ہوجائے اور کچھ جانیں اس مشن کی نذر ہوجائیں اور پھر جس عالمِ غیب سے مداخلت کی توقعات ہیں ، وہ مجبور ہوجائیں یا ان کے لئے جواز پیدا ہوجائے ،لیکن یہ مرحلہ بھی دستوری نظام کی بساط لپیٹے بغیر سَر نہیں ہوگا، اس کے قومی ، ملی اور ملکی فوائد کیا ہوں گے اور نقصانات کیا ہوں گے ، یہ وقت آنے پر ہی معلوم ہوگا، کیا کسی کو خبر تھی کہ جنرل یحییٰ خان کے فوجی انقلاب کی قیمت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں چکانی پڑے گی، سو خطابات کا پیغام تو یہ ہے کہ بقولِ شاعر ؎
مفاہمت نہ سکھا مجھ کو اے سالار!
میں سربکف ہوں، لڑا دے کسی بلا سے مجھے
بہت سے اہلِ نظر کے تأثرات اور تبصرے ہم بھی پڑھتے رہے ہیں کہ اس گلے سڑے نظام کو غارت ہوہی جاناچاہئے، اس نے قوم کو کیا دیا ہے، کرپشن ہے، ناانصافی ہے، ظلم ہے، جاگیرداری کا عفریت پَھن پھیلائے اپنے زہر سے غریب مزارعین اور ہاریوں کا خون کشید کررہا ہے، اسے زہرآلود کررہا ہے، علامہ اقبال نے بھی یہی کہا تھا ؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کے کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
مگر علامہ اقبال کے انقلابی اشعار سے بھی تاحال حقیقی انقلاب نہیں آیا اور آج تک کسی کی خطابت کی شعلہ نوائی سے آنِ واحد میں انقلاب نہیں آئے۔ اور بصدادب عرض ہے کہ انقلابی اشعار کہنے، انقلابی نثر پارے تخلیق کرنے اور محض انقلابی خطابات سے حقیقی انقلاب انسانی تاریخ میں نہیں آئے ۔ انقلاب کے اجزائے ترکیبی اور تقاضے بہت کچھ اور بھی ہیں، انسانی تاریخ کے انقلابات کی داستانیں پڑھ لیجئے۔ ہم بہت کچھ بھی کر پائیں ، توشکست وریخت کرسکتے ہیں ، لیکن انقلاب تخریب کے بعد تعمیر کانا م ہے اور سسٹم جس اسٹیبلشمنٹ پر قائم ہے، اُس کا بدلنا بھی آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کے لئے کسی ایک اہم پوسٹ پربندے کاتقرر دشوار ہے، آزاد عدلیہ نے جو کلچر متعارف کیا ہے، وہ بھی اب نظام کے پاؤں کی زنجیرہے۔ پس ایک بار پھر یہی استدعا ہے ع: ''عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب‘‘ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved