یہ جاننا یقینا ہر پاکستانی کا حق ہے کہ چین کے صدر کے دورے کے بارے میں پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے یا جو باہر بیٹھے ہیں اور اس دورہ کے التوا کی وجہ سے اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دے رہے ہیں‘ وہ درست ہیں؟ سبھی جانتے ہیں کہ کسی بھی سربراہ مملکت کے دورے کا شیڈول تیار کیا جاتا ہے‘ جس میں مہمان کی آمد سے لے کر واپسی تک کے ہر لمحے کی تفصیل ہوتی ہے اور جس کی سیاست‘ تجارت اور سکیورٹی سے متعلق بہت سے ادارے منظوری دیتے ہیں۔ شیڈول کے ایک ایک نکتے پر بحث کی جاتی ہے لیکن جہاں تک زیر بحث دورے کا تعلق ہے‘ اس کا ابھی شیڈول ہی تیار نہیں ہوا۔ چینی صدر کے مجوزہ دورے کے لیے حکومت نے کیا ایجنڈا تیار کیا ہوا تھا؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چینی صدر کے دورۂ پاکستان سے قبل پاکستان کے سرکاری قواعد اور ضابطوں میں ایک انتہائی نا مناسب اور مشکوک قسم کی ترمیم کی جا رہی تھی۔ اس ترمیم کے ذریعے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے میں پھیلی کرپشن اور لوٹ مار کو ہر قسم کی پابندیوں اور ضابطوں سے مبرا کر دینا تھا۔یہ بہت ہی حیران کن ترامیم تھیں اور کسی بھی جمہوری یا مہذب معاشرے میں ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ مسلم طریق کار کے مطابق ہر منصوبے اور پروجیکٹ پر کام شروع کرنے سے پہلے اس کی ''Bidding‘‘ کی جانی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن میٹرو بسوں کے منصوبے کے بعد موجو دہ حکمرانوں نے اسے ملک بھر میں رواج دینے کا ارادہ کرتے ہوئے قواعد و ضوابط میں ترمیم کر دی کہ چین کی جو کمپنیاں پاکستان میں کام کریں گی یا پاکستان کے وہ لوگ جو چین کی فنی اورتکنیکی افرادی قوت کو اپنے کسی بھی منصوبے کے لیے استعمال کریں گے‘ انہیں ٹینڈرز کے تکلفات یا عالمی بڈنگ کی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ بتانا ضروری ہونا چاہئے کہ چین کے معزز صدر کے مبینہ دورے کا ایجنڈہ وہ نہیں جو حکمران بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ34 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہونے جا رہی تھی؛ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ اس سرمایہ کاری کی اصلیت کیا ہے۔ چین جاکر مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کرنے والوں کو بتانا چاہئے تھا کہ یہ کوئی امداد نہیں بلکہ قرض ہے اور قرض بھی ایسا کہ اسے اگر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف یا کسی اور بین الاقوامی فنڈنگ کرنے والے ادارے سے لیا جائے تو اس پر سود کی شرح2.4 فیصد ہوگی لیکن یہ قرضہ جو چین کی کچھ کمپنیوں سے لیا جانا تھا جسے حکمرانوں نے اپنے منتخب منصوبوں کے لیے استعمال کرنا تھا اس پر سود کی شرح 7 فیصد تھی۔ یعنی عالمی اداروں کے شرح سود سے تین گنا زیا دہ۔اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ سات فیصد شرح سود کے علا وہ موجودہ حکمرانوں اور چین کی مبینہ کمپنیوں کے درمیان یہ طے پا چکا تھا کہ ان اربوں ڈالروں کے منصوبوں کے لیے کسی بھی قسم کے ٹینڈرز یا قانون کے مطا بق عالمی یا کسی بھی قسم کی بڈنگ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ یعنی منصوبوں کا تخمینہ بھی خود ہی بنانا ہے اور ان پر کام بھی اپنی مرضی کی کمپنیوں یا بندوں سے کرانا ہے۔ یعنی ان کا کوئی آڈٹ نہیں ہوگا بالکل لاہور اور راولپنڈی کی میٹرو بس کی طرح۔۔۔ اگر اس طریق کار پر عوام شور مچائیں تو ''اس کے لیے پٹرول کے چند لٹر اور لاہور کا کئی منزلہ ایل ڈی اے پلازہ کس مرض کی دوا ہے‘‘۔
اگر آپ اس پر مزید حیران ہونا چاہتے ہیں تو جان لیجئے کہ موجو دہ حکومت کے چینی کمپنیوں کے ساتھ تیار کئے جانے والے ان مجوزہ منصوبوں میں کوئلے پر چلنے والے پاور پروجیکٹس بھی شامل ہیں۔۔۔اور یہ وہ منصوبے ہیں جن کی تکمیل سے پہلے ہی وزیر پانی و بجلی کے انتہائی قریبی عزیز خواجہ نعیم نے نیپرا میں کوئلے سے چلنے والے
پاور پروجیکٹس سے حاصل ہونے والی بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کے لیے پہلے سے ہی ایک کیس دائر کر دیا ہے تاکہ جب یہ منصوبے مکمل ہوں تو عوام پر بھاری بھر کم بجلی بم گرا دیئے جائیں۔۔۔اور کربناک صورت حال یہ ہے کہ نیپرا کی جانب سے ایک سال قبل دائر کی جانے والی یہ ''tariff review petition'' اپنی مجوزہ قانونی مدت پوری کر چکی ہے لیکن نہ جانے کون سے سرکاری یا قانونی ضابطے کی رو سے حکومت کے کہنے پر اسے قبول کرتے ہوئے اس کے نرخوں میں اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے تاکہ متوسط اور غریب عوام کی مزید چیخیں نکالی جا سکیں۔
اگر اپنے ملک کے شہریوں کو بتایا جائے کہ ''حکومت کی درخواست پر نیپرا نے ان پاور پروجیکٹس کی تکمیل کے لیے سترہ لاکھ ڈالر فی میگا واٹ کے حساب سے منطوری دے دی ہے تو اس کو سمجھنے والے اپنی جگہ پر پریشان تو ہوں گے ہی لیکن حیران اس بات پر بھی ہوں گے کہ بھارت نے پاکستان کے مقابلے میں کوئلے سے مکمل ہونے والے کول پاور پروجیکٹس کے لیے صرف اور صرف 55 ہزار ڈالر فی میگا واٹ کی منظوری دی ہے۔۔۔۔کیا کوئی اس قدر واضح فرق کا جواب دینا پسند کرے گا؟۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ نیپرا نے ان منصوبوں کے لیے کی جانے والی انویسٹمنٹ پر ڈیٹ آف ریٹرن 17فیصد سے بڑھا کر 27 فیصد کر دیا ہے۔ ''اس سے تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس غریب قوم کو سات فیصد شرح سود پر مزید37 بلین ڈالر کے قرضوں کے علا وہ بجلی کے بھاری اور نا قابل برداشت نرخوں کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے لازماً مہنگائی کا طوفان آئے گا اور غریبوں کی چیخیں نکل جائیں گی... اور دوسری جانب کچھ لوگوں کی جیبوں میں مزید دس سے بارہ بلین ڈالر چلے جائیں گے۔
اگر آپ میں سے کسی کو فرصت ملے تو اس کے لیے وزارت پانی و بجلی کو ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی جانب سے بھیجی جانے والی اس رپورٹ کے مندر جات پر غور کرنا ضروری ہے جس میں اس پر اعتراضات کرتے ہوئے پوچھا گیا ہے کہ ان سب منصوبوں کی بات چیت اور مفاہمتی یادداشتوں کی تیاری اور ترتیب میں شرکت کے لیے کون کون سے لوگ تھے جو اس وفد کا حصہ تھے؟۔کیا اس میں حکومت کی انتہائی قریب ترین ایک انرجی پاور کمپنی بھی بات چیت کے لیے چین جانے والے اس وفد میں شامل تھی؟۔
اگر کسی کو شک ہو تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ نیپرا کی ویب سائٹ ملاحظہ کرلیں۔ نیپر ا نے کوئلہ سے چلنے والے ان پاور پروجیکٹس کے لیے ٹیرف میں اضافے کی کتنی منظوری دی ہوئی ہے۔ یعنی پنڈ وسیا نئیں تے اُچکے پہلے ای آ گئے نیں!