اصول تو یہ ہے کہ غزل میں صرف عشقیہ شاعری ہونی چاہیے کہ یہی اس کا اساسی موضوع بھی ہے جبکہ دیگر موضوعات کے لیے نظم موجود ہے۔ یہ غزل کو محدود کرنے کی بات نہیں ہے کہ یار لوگ اسے پہلے ہی لامحدود کر چکے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ بھی احساسات و کیفیات ایسی،ذہن و دل کو انسپائر اور مجبور کرتی ہیں کہ انہیں شعر میں بیان کیا جائے اور غزل ہی کا سانچہ ایسا ہے کہ لکھنے والے کو آسانی سے دستیاب بھی ہے۔ چنانچہ موضوعات کے لحاظ سے غزل اپنی ساری حدیں پھاند چکی ہے جبکہ یہ نظم کے مقابلے میں زیادہ سہولت آمیز بھی ہے۔
تصوف اور فلسفہ اساتذہ کے بطور خاص محبوب موضوع رہے ہیں کہ عشقیہ مضامین کے ساتھ ساتھ اس میدان میں بھی کافی فتوحات حاصل کی گئیں‘ حتیٰ کہ کوئی بھی موضوع ایسا نہ رہ گیا جسے غزل سے باہر کیا جا سکا ہو۔ چنانچہ معاملاتِ دل ہی کو محیط ہونے کی بنیاد پر اس کے مضامین میں وسعت اپنے آپ ہی اپنا جلوہ دکھاتی نظر آتی ہے کہ محبت کے علاوہ بھی کئی مسائل ایسے ہیں جو دل و دماغ کو انگیخت کرتے رہتے ہیں اور شعر میں ان کا اظہار بھی ہوتا ہے ، اس لیے انہیں کسی خاص صنف تک محدود و مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ ورائٹی کو ویسے بھی سپائس آف لائف کہا گیا ہے۔
اس لمبی تمہید کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ذوالفقار عادل نے اس بُو قلمونی اور رنگا رنگی کو ممکن بھی کر دکھایا ہے۔ موصوف ان نوجوان شعراء میں شامل ہیں جو میں نے بطور خاص نشان زد کر رکھے ہیں اور اس کے اشعار لوگوں کو سنایا بھی کرتا ہوں۔ اس نے جو فضا اپنے لیے بنائی ہے وہ دوسروں سے خاصی حد تک مختلف ہے۔ اس کے اشعار میں محبت کا موضوع بس کبھی کبھار ہی راہ پاتا ہے اور یہی اس کا کمال بھی ہے کہ ماورائے محبت اشعار میں بھی وہ تازگی اور تاثیر بھر دینے میں کامیاب ہے جس کے لیے یار لوگوں کو معاملاتِ محبت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کی شاعری میں عشقیہ اشعار شاید دو چار فیصد سے بھی زیادہ نہ نکلتے ہوں۔
اس کے ہاں کوئی نیا ڈکشن لانے کی کسی کوشش کا سُراغ نہیں ملتا لیکن اس کا اسلوب ایسا ہے کہ شاید اسی وجہ سے اسے کسی نئے ڈکشن کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی ہو۔ ہمارے بعض دوست محض ڈکشن کی تبدیلی کو ہی کافی سمجھ لیتے ہیں،بھلے ہی ان کی شاعری تازگی اور تاثیر دونوں سے محروم رہ جائے۔ شعر تو وہ ہوتا ہے جسے پڑھ کر دوسروں کے ساتھ بھی شیئر کرنے کو جی چاہے‘ اسی لیے میں عمدہ شعر کو صدقۂ جاریہ سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔ میں کوئی نقاد نہیں ہوں اس لیے کھول کر بیان نہیں کر سکتا کہ اس کی شاعری کن کن محاسن سے مزّین ہے کیونکہ میری نظر میں شعر کا دوسروں سے مختلف ہونا ہی اس کی اصل خوبی ہے۔ یہ شاعری مجھے کیوں اچھی لگی ہے‘ اس کی وجہ شاید ان اشعار سے خود ہی ظاہر ہو جائے جو میں آپ کے لیے نقل کرنے لگا ہوں اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ آپ پر بھی اپنا زبردست اثر نہ چھوڑیں:
شکر کیا ہے ان پیڑوں نے صبر کی عادت ڈالی ہے
اس منظر کو غور سے دیکھو، بارش ہونے والی ہے
بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے آتشدان میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں تھا جتنی آگ جلا لی ہے
زخم کا رنگ اور تھا، داغ کا رنگ اور ہے
کتنا بدل گیا ہوں میں عرصۂ اندمال میں
دل سے گزر رہا ہے کوئی ماتمی جلوس
اور اس کے راستوں کو کھلا کر رہے ہیں ہم
اک ایسے شہر میں ہیں جہاں کچھ نہیں بچا
لیکن اک ایسے شہر میں کیا کر رہے ہیں ہم
اب تک کوئی بھی تیر ترازو نہیں ہوا
تبدیل اپنے دل کی جگہ کر رہے ہیں ہم
کب سے کھڑے ہوئے ہیں کسی گھر کے سامنے
کب سے اک اور گھر کا پتہ کر رہے ہیں ہم
کام مکمل کرنے سے بھی شام مکمل کب ہوتی ہے
ایک پرندہ رہ جاتا ہے، باقی سب گھر آ جاتے ہیں
بہت سنا گیا مجھے، بہت سنا دیا گیا
ہزار سال بعد بھی ہزار داستاں ہوں میں
خوش گمانی سے ہو گئے تصویر
ایک دیوار آ لگی ہم سے
یہ جو دریا کی خموشی ہے، اسے
ڈوب جانے کی اجازت سمجھو
گرد کوزوں سے ہٹانے کے لیے آتا ہے
کوزہ گر شکل دکھانے کے لیے آتا ہے
دل کی سرحد پہ کھڑا دیکھ رہا ہوں عادلؔ
کب کوئی ہاتھ ملانے کے لیے آتا ہے
سبزہ اُگا کہ خاک اُڑا، قبضے میں رکھ کہ چھوڑ جا
بھول سے بھر کہ دھیان سے، خالی جگہ سمجھ مجھے
جتنا اُٹھا سکے یہ بوجھ، اتنا اُٹھا مرے عزیز
جتنا سمجھ میں آ سکے، اتنا بڑا سمجھ مجھے
ہم جانا چاہتے تھے جدھر بھی، نہیں گئے
اور، انتہا تو یہ ہے کہ گھر بھی نہیں گئے
خال و خد ساتھ چھوڑ دیتے ہیں
آئنہ دیکھتے رہا کیجے
جتنا اُڑا دیا گیا
اُتنا غبار تھا نہیں
بیٹھے بیٹھے اسی غبار کے ساتھ
اب تو اڑنا بھی آ گیا ہے مجھے
عادلؔ اس راہداری سے وابستہ کچھ گلدستے تھے
رُک رُک کر بڑھنے والوں کی پسپائی سے ختم ہوئے
دیواروں کو، دروازے کو، آنگن کو
گھر آنے کی عادت زندہ رکھتی ہے
جہاں بھی دیکھتے ہیں ہم روانی
اُسے تسلیم کر لیتے ہیں پانی
وہ سفینے کہاں گئے ہوں گے
ڈوبتے ڈوبتے خیال آیا
آج کا مقطع
گلی گلی مری آنکھیں بچھی ہوئی تھیں، ظفرؔ
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا