تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-09-2014

دم نہ کشیدم …

عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے جن 
نکات کی بنیاد پر احتجاج کا ڈول ڈالا تھا 
بلاشبہ وہ سارے کے سارے غلط یا بلا جواز 
نہ تھے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ نظام کو درست 
کرنے کی راہ ہموار ہو اور ملک کے ساتھ 
ساتھ عوام کے حالات بھی بہتر ہو جائیں
  
ہر سال بارشیں ہوتی ہیں‘ دریا بپھرتے ہیں اور ندی نالوں میں پانی بھی چڑھ آتا ہے مگر اب کے سیاسی دریا ایسا بپھرا ہے (یا بپھرایا گیا ہے!) کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ مون سون گزر رہا تھا
اور لوگ حیران تھے کہ جن بادلوں کو برسنا تھا وہ تو برسے نہیں اور لوگوں کو ترساتے ہوئے ہی گزر گئے‘ لیکن اسلام آباد کی فضا سے اُٹھنے والے احتجاجی بادل ایسے برسے ہیں کہ اب کسی مقام پر رُکنے اور سانس لینے کا نام نہیں لے رہے۔ ریڈ زون میں ہونے والی احتجاجی بارش نے سیاست کی سڑک کو محض زیر آب لانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اچھی خاصی دلدل کی سی کیفیت پیدا کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ 
قوم حیران ہے کہ اب کے ایسا کیا ہو گیا ہے کہ حالات کی نزاکت بھی دھرنوں کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آپ حالات کی نزاکت کو کوئی الزام نہ دیں۔ مرہم کا کام ہے زخم کو مندمل کرنا۔ اب اگر کوئی مرہم استعمال کرنے سے گریز کرے بلکہ مرہم کی شکل دیکھنا بھی پسند نہ کرے تو اِس میں مرہم کا کیا قصور؟ 
منتخب وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنے والوں نے ''ثابت قدمی‘‘ اور ''اولوالعزمی‘‘ کے معاملے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حد یہ ہے کہ قدرت نے اتمامِ حجت کا اہتمام کرتے ہوئے دریاؤں کو بَھر ہی نہیں دیا بلکہ بے قابو بھی کر دیا ہے مگر دھرنے دینے والوں کا دِل ابھی بھرا نہیں۔ وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ لاکھوں افراد نقل مکانی کر گئے ہیں مگر لے دے کر ایک دھرنے والے ہیں کہ معمولی سی نقل مکانی کا بھی نہیں سوچ رہے۔ 
انسانوں کی پیدا کردہ ہنگامی حالت کے مقابلے میں قدرت کی پیدا کردہ ہنگامی حالت فوری رسپانس کی متقاضی ہوتی ہے۔ وسطی پنجاب کے بیشتر علاقے اور آزاد کشمیر سیلاب کی لپیٹ میں ہے مگر قوم حیران ہے کہ اُسے بے یقینی کی کیفیت سے دوچار کرنے والے اب بھی کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں اور اپنی ہی کہے چلے جا رہے ہیں۔ خدا جانے اِس بار کون سے خفیہ حکیم کی معجون کھائی ہے کہ احتجاجی اسٹیمنا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ 
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ قوم مصیبت میں ہو اور اسے مشکل سے نکالنے کے دعوے دار وطن میں یا وطن سے دور سیر و تفریح میں مشغول ہوں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ چار سال قبل سندھ میں سیلاب آیا تھا تب بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ اُس وقت کے صدر اہل خانہ کے ساتھ فرانس میں تعطیلات گزارتے رہے۔ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر تجزیہ کاروں نے اُس تفریحی دورے کو سَفّاکی قرار دیا۔ اور ایسا کہنا کچھ غلط بھی نہ تھا مگر اِسے کیا کہیے کہ قوم کے تازہ ترین نجات دہندہ ملک کے دارالحکومت میں ہیں اور سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھ کر بھی جذبات کی رَو میں بہنے کو تیار نہیں۔ ان میں کوئی بھی سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا۔ 
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے جن نکات کی بنیاد پر احتجاج کا ڈول ڈالا تھا بلاشبہ وہ سارے کے سارے غلط یا بلا جواز نہ تھے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ نظام کو درست کرنے کی راہ ہموار ہو اور ملک کے ساتھ ساتھ عوام کے حالات بھی بہتر ہو جائیں‘ جو اب تک حکمرانوں کی روشن مستقبل فارمیسیوں کی مینوفیکچرڈ کڑوی گولیاں ہی نگلنے پر مجبور ہیں۔ مگر درست کرنے کی کوشش میں نظام کو مزید خراب کرنے میں کہاں کی دانش مندی ہے؟ 2013ء کے انتخابات میں کی جانے والی مبینہ دھاندلی اور انتخابی نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کے نام پر احتجاج شروع ہوا تو ہزاروں افراد ساتھ ہو لیے کہ شاید حالات بہتر ہو جائیں۔ سب کو یقین تھا کہ حکومت پر دباؤ بڑھے گا تو بہتری کی کوئی تو صورت نکل آئے گی۔ قوم حیران و پریشان ہے کہ ابتلا کی اِس گھڑی میں بھی یارانِ وطن سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کمر کَسنے کے بجائے احتجاجی ریلے ہی میں بہے جا رہے ہیں! 
سیاست دان کون ہوتے ہیں؟ وہ جو حالات اور واقعات پر نظر رکھتے ہیں اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے فکر اور حکمتِ عملی میں تبدیلی لاتے ہیں۔ پھر ہمارے سیاست دانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ حالات پر نظر رکھنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ اور حالات بھی کیا؟ ہنگامی حالت کہیے۔ ملک کا ایک بڑا حصہ سیلابی ریلوں میں غلطاں ہے۔ کچے مکانات گرتے جا رہے ہیں، اُن میں دب کر لوگ جاں بحق ہو رہے ہیں، کھڑی فصلیں تباہی سے دوچار ہو چکی ہیں، مال مویشی بھی سیلابی ریلوں کی نذر ہوئے۔ ایسی حالت میں بھی یاروں کو سسٹم کی پڑی ہے۔ احتجاج برحق ہے مگر یہ کیسا احتجاج ہے کہ وقت اور حالات کی نزاکت کو بھی خاطر میں لانے سے اِنکاری ہے؟ 
قوم کو خلفشار سے لڑتے ہوئے ایک ماہ ہو چکا ہے۔ احتجاج اور انتشار کی کیفیت ایک ماہ قبل پیدا ہوئی تھی۔ اِس دوران میڈیا کے ذریعے جو کچھ اِس قوم کے گوش گزار کیا گیا ہے اور جو مناظر اہلِِ وطن نے دیکھے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے اطمینان بخش نہیں۔ اسلام آباد کی ہتھیلی پر دھرنوں کی سرسوں جمانے والوں نے سیکڑوں بار یقین دلایا ہے کہ خوش خبری ملنے والی ہے مگر اب تک ایک بھی ایسی خبر نہیں آئی جو اہلِ وطن کے مُرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ کی تابانی بکھیر دے۔ ذہانت بلا کی ہے اِس لیے اپنی ہر خوش خبری اور پیش گوئی کو یہ لوگ open-ended رکھتے ہیں، یعنی کوئی بھی مفہوم کشید کیا جا سکتا ہے۔ اگر اِتنا بھی نہ جانتے ہوں تو سیاست کیا خاک کریں گے! 
تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے بدھ کی شام عمران خان کے کنٹینر پر اجلاس میں طے کیا کہ وزیر اعظم کے استعفے تک دھرنا جاری رہے گا۔ گویا ملک سیلابی نالوں میں بہتا رہے، تحریک انصاف کا پرنالا وہیں گرتا رہے گا! ملک کی مجموعی صورت حال میں دھرنا چھوڑ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینا کیا ایسا فیصلہ ہے‘ جو احتجاج کرنے والوں کو سیاسی معاملات میں کوئی ایڈوانٹیج دلا سکتا ہے؟ یہ وقت تو اور سب کچھ بھول بھال کر سیلاب زدہ علاقوں میں غریبوں اور لاچاروں کی مدد کرنے کا ہے۔ ملک میں سیلاب زدگان کی بھرپور امداد کا ماحول بن رہا ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی ساری پبلک سپورٹ کہیں دھرنوں میں نہ بہہ جائے! 
سندھ اِس اعتبار سے خوش نصیب صوبہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور اُن کی کابینہ کے ارکان ہر طرح کی صورت حال سے چند پُرلطف لمحات کشید کر لیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا دل فریب باتوں سے عوام کا دل بہلایا کرتے تھے۔ یہ منصب اب خاصے پُرلطف انداز کے ساتھ منظور وسان صاحب کو مل گیا ہے۔ اور خود شاہ صاحب کیا کم ہیں۔ پیر جو گوٹھ (خیرپور) میں دریائے سندھ کے حفاظتی پُشتوں کا معائنہ کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ پتے کی بات بتائی کہ ''دریا تو بادشاہ ہے۔ وہ اپنی مرضی سے رُخ بدلتا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ وہ سیدھے راستے سے سمندر میں جائے۔‘‘ 
شاہ صاحب کی حِسِ مزاح کے قُربان جائیے۔ اگر وہ دریا کو سیدھے راستے سے سمندر میں بھیجنے کی کوشش کر سکتے ہیں تو ذرا دھرنے والوں کو بھی کوئی سیدھا راستہ دکھا دیں۔ یہاں شاہ صاحب کو ذرا زیادہ محنت کرنی پڑے گی کیونکہ دھرنے والے ہیں تو دریا مگر سمندر میں گرنے کے بجائے اِس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ سمندر اُن میں آ گرے! یہ سب کچھ ایسا سِحر انگیز ہے کہ قوم ''ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved