تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-09-2014

خُداخیر کرے!

رائٹرز کی سٹوری ، مخدوم جاوید ہاشمی کا قصہ ۔ بعض اوقات ایک بڑی مصیبت، قیامتِ صغریٰ ٹل جاتی ہے ۔ مخلوق کو بھنک تک نہیں پڑتی ۔ مجھ جیسے بیچارے قلم اٹھائے سوچتے رہ جاتے ہیں ؎
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی 
خوف فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے 
اسلام آباد کے مظاہرین کی تعداد پچیس تیس ہزار کی بجائے اگر ڈیڑھ دو لاکھ ہوتی اور پارلیمنٹ اگر حکومت کی پُرجوش حمایت نہ کرتی ؟ شاید کبھی تاریخ اپنی قبا چاک کرے تو ان ایّام کا خوفناک ماجرا آپ کو لرزا دے گا۔ شاید آنے والے برسوں میں کبھی اگست 2014ء کے خفیہ معرکوں پر کوئی سنسنی خیز کتاب لکھی جائے ۔ایک سوال یہ ہوگا کہ ان دنوں کسی ممکنہ ماورائے آئین اقدام کا معاملہ کیوں زیر بحث رہا جب کہ بظاہر ایسا کوئی قدم اٹھایا ہی نہیں گیا۔کپتان کا وہ تیسرا مپائر کون تھا، جس کی انگلی اٹھ جانے کا انتباہ کیا گیا تھا؟ اور ایک ''صوفی‘‘ کیوں یہ کہتا رہا کہ آنے والے دنوں میں وہ بڑے عہدوں پر تقرر کیا کرے گا؟سب بہک کیوں گئے تھے ؟ 
بہرحال اب تو صورتِ حال بدل چکی ہے ۔خدا بہتر جانتاہے لیکن لگتایہی ہے کہ دوچار دن میں دھرنے لپیٹ دیے جائیں گے ۔ نواز شریف کی حکومت اس بحران سے تونکل ہی جائے گی ۔ علّامہ صاحب مستقل طور پر کینیڈا کو پیارے ہو جائیں گے۔اس کے بعد دارالحکومت میں آپ کبھی انہیں مجمع لگاتے ہرگز نہیں دیکھیں گے ۔ میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ ایک دفعہ کسی معاہدے کے ذریعے یا زبردستی انہیں واپس بھیج دیا گیا تو ممکنہ طور پر اس کے بعد کیا ہوگا۔ ماضی قریب میں ان کے مالی معاملات پر جو تحقیقات ہوتی رہیں ، جو ثبوت اور شواہد اکٹھے ہوئے، ہوسکتا ہے، ان کی بنیاد پر کارروائی شروع کردی جائے ۔کوئی آدمی جب غیر معمولی طور پر طاقتور ہو ۔ حالات جب اس کے لیے سازگار اور دشمن کے خلاف ثبوت اس کی مٹھی میں ہو تو یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کیا کرسکتا ہے ۔آنے والے دنوں میں ممکن ہے ہم یہ دیکھ لیں ۔ علّامہ ہی نہیں ، میڈیا ، پولیس اور بیوروکریسی سمیت، ہر جگہ حکومتی مزاحمت کرنے والوں پہ زندگی تنگ کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ 
مجھے تحریکِ انصاف کی فکر ہے ۔لانگ مارچ ، دھرنے، سول نافرمانی اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے بعد عمران خان اس قدر کمزور ہو ں گے کہ آئندہ شاید نون لیگ کی حکومت کو وہ چیلنج نہ کر سکیں ۔ایسے میںپختون خوا حکومت کے خلاف سازشیں شاید ایک نیا ڈھنگ اختیار کر لیں ۔اے این پی ، جمعیت علمائِ اسلام ، نون لیگ اور آفتاب احمد خان شیرپائو سمیت، صوبے کے سبھی طاقتور کھلاڑی پی ٹی آئی کو منہ کے بل گرانا چاہیں گے ۔ شاید خود اس کا ارادہ بھی یہی ہے ؎
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی 
مجھے نون لیگ کی بھی فکر ہے ۔ آپ سب جانتے ہیں کہ جب کوئی چیلنج نہ ہو تو ایسے میں ہمارے پیارے حکمرانوں کے طرزِ فکر میں انقلابی تبدیلیاںجنم لیتی ہیں ۔زمانہ بدلا، حالات بدل گئے ۔ حکمران ٹولہ ہے کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد ۔ 
چلیے ، میں آپ سے پوچھتا ہوں ۔ اکیسویں صدی کے پاکستان میں متروک وراثتی سیاست اور کتنے دن؟ سیوریج کا نظام تعمیر کرنے کی بجائے لانگ شوز ، کیمرہ اور کتنے دن؟ نئے عدالتی نظام اور نئے میڈیا کے جلو میں مخلوق کے تیور توبدل رہے ہیں ۔ بے باک آدم زاد اب اپنے دما غ سے سوچنے لگے ہیں ؎
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر ، یہ خوف
گرد و غبارِ عہدِ ستم اور کتنی دیر؟
دنیا بدل گئی ۔ پاکستان بدل رہا ہے ۔ادارے تعمیر کیے جا ئیں گے ۔ میڈیا اور عدالت ایک طرف، پولیس کے بعد آخر سرکاری افسر بھی ناجائز حکومتی احکامات ہوا میں اُڑادیں گے ۔سانحۂ ماڈل ٹائون کی طرح ہر ریاستی بربریت کی ایف آئی آر کٹے گی ۔ ایک دن آئے گا کہ نادرا کی کمان ایک اور طارق ملک کے ہاتھ میں ہوگی ۔ ووٹ ڈالنے کا نظام کمپیوٹرائزڈ ہو گا۔ حکمران خاندان پھر کیا کرے گا؟ ریاستی امور میں ٹیکنالوجی کا دخل بڑھتا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ دو تین دہائیوں کے بعد ٹیکس چوری ناممکن ہو جائے گی ۔ اشرافیہ پھر کیا کرے گی ؟ 
اور فوج ؟ سول ملٹری توازن؟ سیاسی بحران ختم ہونے کے بعد نئے حالات ، صورتِ حال تب واضح ہوگی ۔ بہرحال اس بحران سے کئی ادارے سلامت گزر گئے ہیں ۔ 
فوجی اور سیاسی ترجیحات میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ حکومت کی جانب سے تحریکِ طالبان کے ساتھ صلح صفائی کی کوششوں کا انجام شمالی وزیرستان میں ہمارے سامنے ہے ۔ ایک معزز سینیٹر کا سوال یہ ہے کہ ایک ہزار جنگجو مارے گئے تو باقی کہاں ہیں؟یہی لکھتے لکھتے ہماری انگلیاں گھس گئیں ۔ قارئین ایک سال قبل اچانک فوج وہاں ٹوٹ پڑتی تو ایک کی بجائے چار پانچ ہزار خونخوار درندے مارے جا چکے ہوتے ۔ برسبیلِ تذکرہ ، فوجی کارروائی کی شدید مخالفت کرنے والوں، اس کے نتیجے میں دہشت گردی بڑھنے اور اسے قومی خودکشی قرار دینے والوں پہ اب ہنسی آتی ہے ۔ اب جب کہ امن بڑی حد تک قائم ہو چکاہے ،انہوں نے قوم سے معذرت تک کی ضرورت محسوس نہ کی۔ سوکھے منہ یہ بھی نہ کہہ سکے کہ ان کے اندازے غلط نکلے اور یہ کارروائی ملک کے مفاد میں تھی ۔ بعض تو ''دفاعی ماہر‘‘بن کر یہ مژدہ سنانے لگے کہ آدھے جنگجو افغانستان اور باقی آدھے مہاجرین کی صورت ملک بھر میں پھیل چکے ۔ 
فوج اور سول والوں کی ترجیحات! گزشتہ ماہ رائٹرز ہی کی ایک سٹوری یہ تھی کہ دھرنوں کے پسِ منظر میں حکومت کمزور اور خارجہ پالیسی اب وردی والوں کے ہاتھ میں ہے ۔ امریکہ، افغانستان اور انڈیا سے تعلقات۔ الیکشن جیت جانے کے بعد جناب نواز شریف نے غیر معمولی تیز رفتاری سے انڈیا سے مراسم خوشگوار بنانے ، بالخصوص تجارت بڑھانے کی کوشش کی ۔ ادھر آرمی چیف بننے کے کچھ عرصہ بعد جنرل راحیل شریف نے ایک دن فلک شگاف آواز میں یہ کہا: کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے ، حکومتی صحافی اور سیکولر حلقے سٹریٹجک ڈیپتھ کا آوازہ کستے ہوئے طنزیہ اپنے دانت نکوستے ہیں ۔ ادھر زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہمارے مغرب میں انڈین سول اور ملٹری اثر و رسوخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے ۔ ایسے میں نیٹو انخلا کے بعد پاک فوج ہاتھ جھاڑکے اٹھ جانے پر کسی صورت تیار نہیں ۔
جہاں تک نون لیگ کی حکومت کا تعلق ہے ، فی الحال تو مصیبت سے وہ نکلنے والی ہے لیکن اکیسویں صدی میں انیسویں صدی کی پھٹی پرانی سیاست اب اور کتنے سال چل سکے گی؟ حکمرانی اور کاروبار کے دو الگ الگ مشغلے کب تک ایک ساتھ نبھ سکیں گے ؟ اس نظام ِ حکومت کے سارے ستون ہی تو گرنے کو ہیں ۔ مثلاً شیر شاہ سوری ون مین سٹائل آف گورننس۔ مثلاً جمہوریت کے لاشے میں رشتے داروں کا حقِ حکمرانی ۔ مثلاً بچے کھچے حکومتی ڈھانچے میں اپنی ہی برادری کے وفادار وزیر مشیر۔ وزیر بھی ایسے کہ نیزے پکڑا کر کسی ویرانے میں چھوڑ دیے جائیں تو ایک دوسرے ہی کو نوچ کھائیں ۔
حکمران ٹولے کے ہر فرد کونہ صرف اپنے قبیلے کے شہسواروں بلکہ اپنے ہی باطن سے سخت خطرات لاحق ہیں ۔ خدا خیر کرے ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved