یہ ڈی جے بٹ کون ہے جس کی گرفتاری کو قومی مسئلہ بنایا جا رہا ہے؟
گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان کے کیپیٹل میں واقع جمہوری نظام اور عدل وانصاف کی نمائندہ عمارات کے دائیں بائیں لائی گئی ''تبدیلی اور انقلاب‘‘ کی کوریج کئی ماہ سے جاری ہے۔یہ شاید دنیا کا منفرد ریکارڈ ہے جو ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا نے قائم کیا ہے ۔اگست کے مہینے سے شروع ہونے والی تبدیلی اور انقلاب ستمبر کا پور امہینہ ہڑپ کرگیا مگر وہ کچھ نہیں ہوا جس کے دعوے کئے جارہے تھے۔نہ تبدیلی آئی اور نہ ہی قوم نے انقلاب کا رُخِ روشن دیکھا،مگر اتنا ضرور ہوا کہ روپے کی قیمت گرگئی، افراط ِ زر بڑھ گیا،نادرا، ایف بی آر اور دیگر اہم سرکاری ادارے بند رہے۔ بچوں کے سکولوں کے علاوہ کالجز اوریونیورسٹیوں پر بھی تالے لگانے پڑے ۔قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا اور پوری دنیا میں پاکستان کی وہ جگ ہنسائی ہوئی جسے روپے پیسے اورکرنسی کی زبان میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
لگ بھگ 31دن تک ملک کا معاشی نظام فالج زدہ ہوکر رہ گیا۔اس عرصہ میں اہل وطن نے چوبیس گھنٹوں میں جب بھی ٹی وی آن کیاکوئی نہ کوئی منحوس خبر ہی متھے لگی ۔ اسلام آبا د کے ڈی چوک اور ریڈزون میں تبدیلی رضاکاروں اور انقلابی حملہ آوروں کے بعد ملک میں سیلاب آگیا ۔آزادی سے لے کر اب تک ہمارے ہاں 2درجن بار سیلاب آچکا ہے لیکن مجال ہے جو ہم نے اس قدرتی آفت سے نبٹنے کی ممکنہ منصوبہ بندی کی ہو۔ سیلاب کے معاملہ میں بہتری تو مون سون کی بارشیں بند ہونے سے اوپر والا ہی لائے گا،تاہم سیاسی ژالہ باری قدرے تھم گئی ہے ۔تبدیلی اور انقلاب کے مشترکہ غبارے سے ہوا کیسے نکلی اور ابر آلود مطلع صاف کیسے ہوا ؟ اس سٹوری سے پہلے ڈی جے بٹ والی کہانی سن لیں!
مغربی دنیا میں (DeeJay) سے مراد ڈیسکو جوکی سے ہے۔ایسا شخص جو کاسینو (جوئے خانوں) اور ڈانسنگ کلبوں کا ایک رکن ہوتا ہے اوروہ خود گانے کے بجائے دوسروں کے گائے ہوئے سونگز(ریکارڈز) پلے کرتاہے۔مغرب کا ڈی جے ہمارے ہاں بیاہ شادیوں ،منگنی ،نکاح، عقیقہ ، گٹ ٹوگیدر اور لیٹ نائٹ ڈانس پارٹی میں لوگوں کو نچوانے کا اہتمام کرتاہے۔ دنیانیوز کے مقبول پروگرام ''مذاق رات ‘‘ کا ڈی جے جٹ (محسن عباس حیدر ) جیسا دوسرا DJآپ کو کہیں اور دکھائی نہیںدے گا ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ DJخاکسار کا تخلیق کیاہوا کردار ہے۔محسن عباس حیدر ڈی جے کا کردار بڑی مہارت سے پرفارم کررہاہے۔ ایک عرصہ سے پاکستان کے بڑے شہروں میں ایک عدد ڈی جے بمعہ سائونڈ اور دوسپیکرز کے ساڑھے تین سے چار ہزار میں مہیا ہوتاہے جس میں 500روپیہ سوزوکی پک اپ کا کرایہ بھی شامل ہوتاہے۔ ڈی جے کا کردار فنکارانہ سے زیادہ مشینی اور تکنیکی ہے جس کے باعث اسے فنکار وں کی فہرست میں شامل نہیں کیاجاسکتا مگر پی ٹی آئی کے ڈی جے کا کریکٹر کامریڈوں سے بھی زیادہ انقلابی بنا کرپیش کیاجارہاہے۔
12ستمبر کی دوپہر پی ٹی آئی کے کامریڈ ڈی جے بٹ کو گرفتار کرلیاگیا۔سارا مہینہ سٹیج سے جہاں عمران خان پنجابی فلموں کے معروف ہیرو سلطان راہی کے لب ولہجے میں حکمرانوں کو للکارتے رہے وہاں ڈی جے بٹ کا کریکٹر بھی مقبول ہوا۔ڈی جے کی گرفتاری پر تاثر یہ دیا گیا کہ ڈی جے بٹ کی اہمیت پی ٹی آئی میں ویسے ہی ہے جیسے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں عوامی شاعر حبیب جالب کی ہوا کرتی تھی۔محترمہ فاطمہ جناح نے 1965ء میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں اس وقت کے آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑا تھا۔جواں سال حبیب جالب محترمہ کے نظریاتی ساتھی تھے اور ان کے جلسوں میں اپنے انقلابی اور عوامی کلام سے ایک جوش بھر دیا کرتے تھے۔انہی دنوں حبیب جالب نے اپنی ایک نظم ''بیس گھرانے‘‘ جلسوں میں پڑھی، بڑے تو ایک طرف یہ نظم بچوں کوبھی ازبر ہوگئی تھی ۔
(بیس گھرانے ہیں آباد، اورکروڑوں ہیں ناشاد ، صدرایوب زندہ باد... بیس روپے من آٹا ، اس پر بھی ہے سناٹا، گوہر، سہگل، آدم جی، بنے ہیں برلا اورٹاٹا،ملک کے دشمن کہلاتے ہیں ،جب ہم کرتے ہیں فریاد ،صدر ایوب زندہ باد)
نئے پاکستان کے معماروںاور انقلابیوں کے لئے یہ اچنبھے کی بات ہوگی کہ آج سے نصف صدی پہلے حبیب جالب کی نظم ''بیس گھرانے‘‘ بڑوںکے ساتھ بچوں کو بھی ازبر کیسے ہوگئی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہوا ؟ تب تک تو ایمرجنسی اور ریسکیو ون ون ٹوٹو ٹائپ میڈیا بھی وطن عزیز کو دسیتاب نہیں ہوا تھاجس کی بدولت آج بیسیوں شیدے میدے پرائم ٹائم کے دانشور اسٹیبلش ہو چکے ہیں۔وطن عزیز کی سیاست سے وابستہ کارکن ، رضا کار اور ڈی جے کبھی حبیب جالب ہوا کرتے تھے آج کی اپوزیشن اور یوتھ کے پاس متاثر ہونے کے لئے ڈی جے بٹ ہے۔ اور حکمرانوں کی صفوں میں تو گلو بٹ بھی ہیں اورپومی بٹ بھی جس کا تعلق میرے شہر گجرانوالہ سے ہے۔ گجرانوالہ کو یہ ''اعزاز‘‘ حاصل ہے کہ یہاں کے سیاسی پہلوانوں نے بھٹو صاحب سے لے کر عمران خان تک پتھر برساکر ثابت کیاکہ وہ سیاست میں بھی پہلوانی دائو پیچ لڑانے پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی سے لے کر اسلامی جمہوری اتحاد ،تحریک خاکسار اور نون لیگ سے لے کر پی ٹی آئی تک اپنی اپنی سیاست اور برانڈ کے ڈی جے دستیاب رہے ہیں۔ بھٹو،نصرت بھٹو اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کو جیالا ساخت کے ڈی جے دستیاب رہے۔ان کے ہاں مولانا نصراللہ آف سیالکوٹ تھے جو مولوی ایٹم بم کے نام سے مشہور تھے ۔بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد معظم علی معظم آف شیخوپورہ محترمہ کی تقریر سے پہلے اپنی مشہور پنجابی نظم ''بھٹو دے نعرے وجن گے‘‘ سے سماں باندھا کرتے تھے۔ تحریک خاکسار کا لطیف بٹ ڈی جے کے معیار پر پورا اترتا تھا۔ موچی دروازہ میں جلسہ کے دوران لطیف بٹ نے وزیر اعظم بھٹو کو للکارتے ہوئے کہا تھاکہ ''بھٹو کیا سمجھتے ہیں ان کے پاس فوج ہے، ٹینک ہیں‘ توپیں ہیں اور اسلحہ ہے،اسلحہ میرے پاس بھی ہے‘‘ یہ کہنے کے بعد اس نے اپنی قمیض اٹھائی اور اِزاربند کے ساتھ چھپائے ہوئے پستول سے دوتین ہوائی فائر کردئیے۔ بس پھر کیا تھا‘ اگلے روز ایجنسی کے اہلکاروں نے لطیف بٹ کے ساتھ وہی کیا جو انقلابیوں نے نون لیگ کی حکومت کے ساتھ کیاہے۔ تحریک خاکسارکے سیاسی زوال اور پنجاب میں شریفوں کے سیاسی عروج کے باعث لطیف بٹ نے میاں نوازشریف کوجوائن کرلیا۔نظریاتی وابستگی کے ساتھ ساتھ اس تاریخی میلان کی وجہ تسمیہ لطیف کا بٹ ہونے کے علاوہ لوہے کے بزنس سے منسلک ہونا بھی تھا۔
قصہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ لطیف بٹ وزیر اعظم نوازشریف کے طیارے میں بیٹھ کر پورے پروٹوکول کے ساتھ کراچی گئے ۔یہ ان دنوں کی بات ہے‘ جب جام صادق علی وزیر اعلیٰ سندھ ہوا کرتے تھے۔ لطیف بٹ سے غیر دانستہ طور پر کوئی غلطی سرزد ہوگئی اور اس کی ''بٹ بختی ‘‘ آگئی ۔جام صادق علی کو غصہ آگیا‘ جس پر انہوں نے لطیف بٹ کو اریسٹ کروادیا ۔ اس واقعہ سے ثابت ہواکہ گلوبٹ اورپومی بٹ سے پہلے بھی '' بٹ تمیزیوں ‘‘ کا رواج تھا۔ کامریڈڈی جے کا تعلق لاہور کے علاقہ گورومانگٹ سے ہے۔ بعض لوگوں کا کہناہے کہ بٹ ہونے کے ناتے اسے پی ٹی آئی کے بجائے نون لیگ میں ہونا چاہیے۔ممکن ہے کہ کوئی حادثہ ڈی جے کے اندر کابٹ جگا دے او ر وہ اپنا فیصلہ بدل کر اپنے پیش رووں گلو بٹ اورپومی بٹ کی پارٹی سے وابستہ ہوجائے؟