قدرت نے عمران خان کو دھرنے سے جان چھڑانے کا موقع دیا... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''قدرت نے عمران خان کو دھرنے سے جان چھڑانے کا موقع دیا‘‘ اور یہ سیلاب ہی تھا جس نے ہمیں بھی دھرنوں کی تقاریر سے جان چھڑانے کا موقع دیا جس کی اطلاع حکومت کو متعلقہ محکمے کی طرف سے یکم اگست کو ہی دی جا چکی تھی لیکن ہم نے اسے مذاق ہی سمجھا کیونکہ ملک میں کافی عرصے سے ایک مخولیہ سی صورت حال ہی چل رہی ہے جس سے پیٹ میں ہنستے ہنستے بل پڑ پڑ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان نے یہ موقع ضائع کردیا‘‘ حالانکہ وہ مجھ سے ربڑ کے لانگ بوٹوں کا جوڑا اُدھار لے کر سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کر سکتے تھے جن کا ایک فالتو جوڑا بھی میں نے رکھا ہوا ہے اور جسے پہن کر پانی میں کھڑا ہو کر تصویر بنوانے کا ایک الگ ہی مزا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''لوگ ڈوب رہے ہیں‘ اس لیے عمران خان جشن منانے کا فیصلہ واپس لیں‘‘ جس طرح ہم نے سانحہ ماڈل ٹائون کی رپورٹ پر عمل کرنے کا فیصلہ واپس لے رکھا ہے۔ آپ اگلے روز سیلاب زدہ علاقے سے میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے لوگوں کو متحرک کردیا ہے اور انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر بھی صاف نظر آ رہی ہے لیکن
زمینی حقائق کے مطابق ملک میں 'سٹیٹس کو‘ کی قوتیں اس قدر منظم اور طاقتور ہیں کہ وہ موصوف کا راستہ روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں؛ تاہم عمران خان کی اصل کامیابی یہ ہے کہ اس نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل کر لوگوں کو نہ صرف گھروں سے باہر نکل کر اپنے چھینے ہوئے حقوق واپس مانگنے کا حوصلہ دیا ہے بلکہ اس کی ایک زبردست روایت بھی قائم کردی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک عوام دونوں پارٹیوں کو آنکھیں بند کر کے باری باری اقتدار میں لانے کی حماقت ترک نہیں کریں گے، ان کے احوال کبھی بہتر نہیں ہو سکیں گے۔ اس لیے اگر یہ کام فی الوقت کسی طرح خدانخواستہ منقطع بھی ہو جاتا ہے تو اس کی جگہ کوئی دوسرا آ کر یہ جھنڈا اُٹھا لے گا کیونکہ بات اگر ایک بار شروع ہو جائے تو اپنے منطقی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم نہیں ہو سکتی کہ قانون قدرت بھی یہی ہے۔
صحیفہ
مجلس ترقی ادب لاہور سے ڈاکٹر تحسین فراقی کی زیر ادارت شائع ہونے والے سہ ماہی جریدے ''صحیفہ‘‘ کے دو شمارے موصول ہوئے ہیں جو ایک تحقیقی رسالہ ہے اور اپنی بیش قیمت تحریروں کی وجہ سے اہلِ ادب میں اپنا مقام حاصل کر چکا ہے۔ ان میں معتبر ادیبوں کی وقیع تحریروں کے علاوہ رفتارِ ادب کے عنوان سے حال ہی میں شائع ہونے والی کتابوں پر تبصرہ بھی شامل ہوتا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بہت عرصے کے تعطل اور بے قاعدگی کے بعد اب یہ رسالہ باقاعدگی سے چھپنے لگا ہے۔ قیمت 150روپے ہے۔
بیاض
خالد احمد مرحوم نے اس رسالے کی بنیاد رکھی تھی جو اب تک بڑی باقاعدگی سے عمران منظور اور دیگران کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے۔ اس کے تازہ شمارے میں ہمارے دوست اور بہت عمدہ شاعر امجد اسلام امجد کے لیے ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے اور ٹائٹل پر موصوف کی تصویر بھی۔ مضمون نگاروں میں جلیل عالی‘ رشید امجد‘ تسلیم الٰہی زلفی‘ حسن عسکری کاظمی اور امجد طفیل و دیگران شامل ہیں۔ جبکہ جمیل یوسف کا ''شعر کیا ہے‘‘ کے عنوان سے خصوصی مضمون ہے۔ اس کے علاوہ شوکت علی شاہ کی قسط وار آپ بیتی ہے اور بشریٰ رحمان کا ''سفر نامہ‘‘ ۔ اس کے علاوہ شاعری ہے اور قیمت 100روپے۔
نمود
یہ ماہنامہ ہمارے دیرینہ دوست اور ممتاز شاعر قائم نقوی نے لاہور سے نکالا ہے۔ موجودہ شمارہ جنوری‘ فروری اور مارچ 2014ء کو محیط ہے۔ لطیف ساحل‘ ڈاکٹر تقدیس زہرا اور مظہر سلیم مجوکہ کے مضامین ہیں اور ''فنون لطیفہ‘‘ کے عنوان کے تحت پروفیسر سلیم الرحمن نے پاکستان کی پہلی فلم کے ڈائریکٹر ماسٹر ناتھ پر مضمون باندھا ہے جبکہ افسانہ نگاروں میں محمود احمد قاضی‘ مسرت کلانچوی اور فرخندہ شمیم کی کہانیاں ہیں جبکہ حصہ شعر میں مشکور حسین یاد‘ صفدر سلیم سیال‘ شفیق سلیمی‘ شاہین مفتی‘ اوریا مقبول جان اور دیگران کی منظومات ہیں جبکہ کتابوں پر تبصرہ بھی شامل ہے۔ رسالے کی قیمت 50 روپے ہے۔
سہ ماہی کہکشاں انٹرنیشنل
فرزانہ جاناں اور اسد علی بیگ نے یہ رسالہ راولپنڈی سے شائع کیا ہے۔ یہ کتابی سلسلہ ہے جس کا یہ د وسرا شمارہ ہے۔ حصہ مضامین میں شاکر کنڈان‘ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک‘ خالد فتح محمد و دیگران کی تحریریں ہیں جبکہ چار افسانے شامل ہیں۔ ایک حمد اور چار نعتیں ہیں۔ حصہ شعر میں احمد صغیر صدیقی‘ بسمل صابری‘ ناصر زیدی‘ کرشن کمار طور‘ طالب انصاری و دیگران شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کرنل سید مقبول حسین کا رپورتاثرہے اور ''کہکشاں‘‘ کے عنوان کے تحت احباب کے خطوط ہیں۔ پرچے کی قیمت 100 روپے رکھی گئی ہے۔
سہ ماہی خیال و فن
لاہور اور دوحہ سے بیک وقت شائع ہونے والا یہ رسالہ ممتاز شاعر محمد ممتاز راشد کی ادارت میں شائع ہوتا ہے جو زیادہ تر نابینا دانشور اور شاعر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے بارے میں تعارفی تحریروں پر مشتمل ہے۔ موصوف واقعتاً ایک باکمال آدمی ہیں جو بچپن ہی میں بصارت کی نعمت سے محروم ہو گئے تھے لیکن اپنی دیگر خداداد صلاحیتوں کی بنا پر ڈبل ایم اے کیا‘ تدریس اور مضمون نویسی میں قدم رکھا اور شعرو سخن سے وابستگی اختیار کی‘ ان کا مجموعۂ شعر ''اس کے نام‘‘ بھی موصول ہوا ہے۔ رسالہ میں شائع ہونے والے مضامین میں ابن انشاء ‘عطاالحق قاسمی‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر طاہر تونسوی اور دیگران شامل ہیں۔ رسالے میں پروفیسر شیخ اقبال موصوف کے مضامین اور شاعری کا انتخاب بھی شامل کیا گیا ہے۔ کتاب میں شامل غزلیں روایتی انداز کی حامل ہیں۔ کتاب کی قیمت 300 اور رسالے کی 40 روپے ہے۔ کتاب کا خوبصورت ٹائٹل اسلم کمال نے بنایا ہے۔
آج کا مقطع
رنگ، ظفرؔ، پہلے تو نہیں تھے
اتنے صاف اور اتنے روشن