تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-09-2014

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

فرمایا: نرمی ہر چیز کوخوبصورت بنا دیتی ہے ۔ فرمایا: جس میں نرمی نہیں، اس میں کوئی خیر نہیں ۔ ارشاد کیا : اعتدال پر رہو ، اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کے قریب تر ۔ یہ بھی مگر سرکار ؐ ہی کا ارشاد ہے : مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ 
یہ ایک اذیت ناک دن تھا، جب ایک معروف لکھنے والے نے لکھا کہ دہشت گردی اصل میں دہشت گردی نہیں جہاد ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے ۔ آدمی اس قدر سفاک کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جیسے طالبان ہو سکتے ہیں۔ پاگلوں کی طرح قاتلوں کے سینگ بھی نہیں ہوتے ۔ 
شام ڈھلی تو خبر آئی کہ تحریکِ طالبان پنجاب نے ہتھیار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ '' اسلام اور پاکستان کے مفاد میں‘‘۔ اور ''علما کے مشورے پر‘‘۔ کون سا اسلام اور کون سا پاکستان ؟ کیا گزرے ہوئے کل میں غارت گری اسلام اور پاکستان کے مفاد میں تھی؟ کون سے علما؟ کیا قبل ازیں ان کا مشورہ یہ تھا کہ مساجد اور مارکیٹوں، مزارات اور گلیوں بازاروں میں بے گناہ اور غیر متعلق انسانوں کو درندگی کا ہدف کرنا شریعتِ مطہرہ کا تقاضا ہے ؟ 
ہمیشہ عرض کیا کہ زندگی کے دو اہم ترین شعبوں ، دین اور سیاست کو ہم نے ادنیٰ لوگوں کے حوالے کر دیا ۔ خود کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مولوی صاحب کو یہ تو معلوم نہیں کہ بازار میں اشیائِ صرف کے دام کیا ہیں ۔ پوچھتے ہم ان سے یہ ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا علیؓ ابن ابی طالب ترجیحات کیسے متعین فرمایا کرتے؟ تھر میں قحط نے قیامت اٹھائی تو دوسرے اخبار نویسوں کی طرح یہ ناچیز بھی صحرا میں پہنچا ، دو ہزار برس پہلے جہاں زندگی 
پوٹھوہار کی طرح سرسبز و شاداب تھی۔ ایک چھوٹے سے گائوں میں، جہاں مکھیا سمیت درجن بھر لوگ جمع تھے ، سرخ داڑھی والے ایک صاحب آگے بڑھے اور شیریں لہجے میں اپنا تعارف کرایا۔ میں گائوں کی مسجد کا امام ہوں او ربچوں کو دینی تعلیم دیتا ہوں ۔ خوشی ہوئی کہ اس ویرانے میں ایک خواندہ شخص کی زیارت نصیب ہوئی ۔ اندازہ لگانے کی اس آرزو میں کہ موصوف کی ذہنی سطح کیا ہے، ان سے سوال کیا کہ خود انہوں نے کس ادارے میں تعلیم پائی ہے ۔ ارشاد فرمایا: مدرسے کا نام میں بھول چکا ہوں ۔ ناظرہ قرآن مجید پڑھا ہے۔ پھر ایک آدھ کتاب کا حوالہ دیا ، مسافر جس سے ناواقف تھا۔ 
جو چیز اس عالمِ دین نے ازبر کی تھی ، مقدس آواز کے سوا وہ کچھ نہ تھی ۔ حدیثِ رسولؐ ، سیرتِ پاک تو کیا، قرآنِ کریم کے مفہوم و معانی سے وہ یکسر ناواقف تھا۔ اس امر کا سوال ہی کیا کہ کائنات اور زندگی ، انسان اور اس کے خالق کو وہ جانتا ہو۔ 
ظاہر ہے کہ سب علماء ایسے گئے گزرے بھی نہیں ۔کچھ اس سے بلند ہیں مگر کچھ ہی ۔ ترجمے پر بعض قادر ہیں اور کچھ نے حدیث کا مطالعہ بھی یقینا کیا ہوگا۔ یہ مگر میںپورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ملک کے دو ممتاز ترین علماء نے درسِ نظامی تک کی تکمیل نہیں کی۔ ان میں سے ایک ممتاز ترین نظریاتی ادارے کے سربراہ ہیں ۔ دوسرے ملک کی معروف دینی جماعتوںمیں سے ایک کے قائد۔ دونوں کی ڈگریاں جعلی ہیں ۔ درسِ نظامی کی تکمیل طالبِ علم کو اس قابل ہرگز نہیں بنادیتی کہ وہ مفتی کے منصب پر فائز ہو جائے ۔ جس طرح کہ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے والا کسی مضمون کا ماہر نہیں گردانا جاتا۔ اکثر مدارس میں عربی تدریس اس قدر ناقص ہے کہ فاضل طالب علم ایک جملہ بھی روانی سے بول نہیں سکتے ۔ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ نے ارشاد کیاتھا: تمام علوم سے کم از کم اتنا تو حاصل کر لو کہ خد اکو پہچان سکو۔ 
اللہ اور اس کے رسولؐ کو نہیں ، وہ اپنے اساتذہ کوپہچانتے ہیں ۔ شاید ہی کوئی مدرسہ ہو ، جہاں غور و فکر کی اہمیت اجاگرکی جاتی ہو ۔ دراں حالیکہ اللہ کی کتاب سب سے زیادہ زور اس پر دیتی ہے ۔ جو لوگ اپنے ذہن سے کام نہیں لیتے ، اللہ کی آخری کتاب انہیں جانور ہی نہیں بلکہ بدترین جانور کہتی ہے ۔ شاید ہی کوئی مدرسہ ہو ، جہاں کسی خاص مسلک او رمکتبِ فکر کی عظمت پر سب سے زیادہ زور نہ دیا جاتا ہو ۔ ایک شام ایک مشہور مبلّغ میرے ہاں تشریف لائے ۔ کھانے کی میز پر ادھر ادھر کی گفتگو کے دوران ناچیز نے عرض کیا : علماء کو ادراک کرنا چاہیے کہ مسواک نہیں بلکہ اصل سنّت دانتوں کی صفائی ہے ، سرکارؐ کو جس کا بہت خیال رہا کرتا۔ بولے : کمال کرتے ہیں آپ۔ یہ حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری کا فتویٰ ہے ۔ عرض کیا: کمال تو آپ کرتے ہیں ۔ حضرت انور شاہ کاشمیری مدظلہ العالی کے زمانے میں ٹوتھ پیسٹ کارواج ہی کب تھا۔ 
پڑھے لکھے، باخبراور باشعور لوگوں کو جب آدمی ان پڑھ ''علما‘‘ کے سامنے مجسم سوال پاتا ہے تو حیرت زدہ رہ جاتاہے ۔ انہیں کوئی بتاتا کیوں نہیں کہ اللہ نے اپنی کتاب کو آسان بنایا ہے۔ کوئی انہیں سمجھاتا کیو ںنہیں کہ سیرتِ رسولؐ کا مطالعہ کرنے کے لیے چند ماہ سے زیادہ مطلوب نہیں‘ اور زیادہ فہم کے لیے تعلیم اورتدبر کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ انہیں خبر کیوں نہیں کہ صحیح بخاری سے لے کر سنن نسائی تک کے تراجم آسانی سے دستیاب ہیں ۔ پھر یہ کہ عربی کی ابتدائی نوشت و خواند کے لیے سال بھر کا وقت کافی ہوا کرتا ہے۔ بظاہر یہ عالم فاضل لوگ، جن کے گلوں میں یونیورسٹیوں کی ڈگریاں لٹکی ہیں ، اس آشکار سچائی سے بے خبر کیوں ہیںکہ مذہب جب واقعی نافذ ہوتومذہبی طبقے کا وجود نہیں ہوتا۔ مذہبی طبقات اگر طاقتور ہوں تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ دین کی روح اس معاشرے کو خیرباد کہہ چکی ۔
سرکارؐ نے انہیں اپنا وارث کہا تھا،مسلم معاشرے میں علماء کی اہمیت غیر معمولی ہے ، بہت غیر معمولی مگر کون سے علما؟ فرقہ پرست؟ اجتہاداور عصری تقاضوں سے نابلد مفتیانِ کرام؟ اپنے عصر سے نا آشنا ، اپنے ماضی سے بے خبراور اپنے مستقبل سے بے نیاز؟ 
بے شک طالبان کی نمود کے ذمہ دار فقط وہ علماء ہی نہیں ، جنہیں اقبالؔ نے دو رکعت کے امام کہاتھا ۔ ریاست بھی ذمہ دار ہے ۔ نظامِ عدل سے محرومی اور سیاست میں گلو بٹوں کا راج بھی ۔ اس کا مطلب یہ مگر کیسے ہوا کہ زندگی کے اہم ترین شعبے کو اس بے دردی ، اس بے حسی سے نظر انداز کر دیاجائے ؟ پھر یہ کہ تمام دوسرے مسلم ممالک کے برعکس، وہ ہر طرح کے قواعد و ضوابط سے فی سبیل اللہ فساد کے لیے آزاد کیوں ہیں ؟ اتنے آزاد کہ بیرونِ ملک سے کھلے عام عطیات وصول کریں ۔ اتنے آزاد کہ مخالف مکاتبِ فکر کے وابستگان کا قتل جائز قرار دیتے پھریں ؟ 
جی ہاں ، تمام طالبا ن کو قتل نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر یہ ممکن ہوتا تب بھی یہ درندگی ہوتی ۔ ذہن بگڑ جائیں اور کردار مسّخ ہو جائیں تو اس کا علاج تعلیم ہے ، داروگیر نہیں ۔ مولانا عصمت اللہ معاویہ اور ان کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ اگر پیمان پر وہ پورے اتریں تو انہیں رعایت دی جانی چاہیے۔ ان کے زیرِ اثر نوجوانوں کو ذہنی اور فکری طور پر بحال کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ خود فریبی کا شکار البتہ نہ ہونا چاہیے۔ اسلام اور پاکستان اگر واقعی انہیں عزیز ہوتے‘ علماء کا مشورہ ان کے لیے اگر واقعی صائب ہوتا تو ان کا ضمیر، ہزاروں بے گناہوں کو خاک و خون میں تڑپانے کے بعد نہ جاگتا۔ 
فرمایا: نرمی ہر چیز کوخوبصورت بنا دیتی ہے ۔ فرمایا: جس میں نرمی نہیں، اس میں کوئی خیر نہیں ۔ ارشاد کیا : اعتدال پر رہو ، اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کے قریب تر ۔ یہ بھی مگر سرکار ؐ ہی کا ارشاد ہے : مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved