تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     15-09-2014

سرخیاں‘ متن اور نوید ملک کی نظم

حکومت سیلاب متاثرین کے ساتھ
قدم سے قدم ملا کر چلے گی... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''حکومت سیلاب زدگان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے گی‘‘ اگرچہ اتنے پانی میں چلنا ان کے لیے کافی مشکل ہوگا اس لیے انہیں چاہیے کہ میری طرح ربڑ کے بوٹ خرید کر اس مسئلے کو حل کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ ''مشکل وقت میں حکومت متاثرین کے ساتھ ہے‘‘ کیونکہ یہ مشکل وقت بھی اتفاق سے ہمارا ہی لایا ہوا ہے کیونکہ دیگر نمایاں مصروفیات کی وجہ سے ہم سیلاب کی وارننگ پر توجہ نہیں دے سکے تھے ،نہ ہی سابقہ سیلاب پر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ہماری سمجھ میں آئی جس میں معصوم لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا اور جن کی دل آزاری دور کرنے کے لیے انہیں ترقیاں دینا پڑیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کی دولت عوام کی ملکیت ہے‘‘ اسی لیے اسے سنبھال کر بیرون ملک بھجوایا گیا ہے تاکہ وہاں اچھی طرح محفوظ رہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نقصانات پورے کریں گے‘‘ اور اس کا ہمیں کافی تجربہ بھی حاصل ہے کیونکہ ہم سعودی عرب میں اپنی غیر حاضری کے دوران ہونے والے اپنے سارے نقصانات اچھی طرح سے پورے کر چکے ہیں۔ آپ اگلے روز سرگودھا میں سیلاب متاثرین سے خطاب کر رہے تھے۔ 
افسران میرے دائیں بائیں نظر آنے
کی بجائے کام کریں... شہباز شریف 
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''افسران میرے دائیں بائیں نظر آنے کی بجائے کام کریں‘‘ اور اگر انہیں نظر آنا ہی ہے تو میرے آگے پیچھے نظر آ سکتے ہیں جبکہ کام تو اپنے آپ ہی ہوتے رہتے ہیں کیونکہ یہ سارا ملک ہی آٹو میٹک ہے اور روزِ اول سے اپنے آپ ہی چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''رقص و سرود کی محفلیں افسوسناک ہیں‘‘ کیونکہ یہ سب کچھ تو شادی کے موقع پر ہی اچھا لگتا ہے خواہ وہ دوسری‘ تیسری یا چوتھی شادی ہو‘ ویسے بھی شرعی تعداد حتی الامکان پوری کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنے والے سیلاب متاثرین کی امداد کو جائیں‘‘ کہ سیلاب زدگان کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں کھچوانے کا کچھ اور ہی مزہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم آزمائش کی اس گھڑی میں دھرنا دینے والوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی‘‘ کیونکہ قوم نے اگر بالآخر ہمیں بھی معاف نہیں کرنا تو دھرنا دینے والے کیا چیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''لوگ عمران خان سے پہلے ہی متنفر ہو چکے ہیں‘‘ اور صرف ہمارے صدقے واری جا رہے ہیں کیونکہ ہمیں پہچاننے میں انہیں ابھی کافی دیر لگے گی۔ آپ اگلے روز سیلاب زدگان سے خطاب کر رہے تھے۔ 
آرمی چیف میرے سمیت سب کے
کان پکڑوا دیں... چودھری شجاعت 
ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''آرمی چیف میرے سمیت سب کے کان پکڑوا دیں‘‘ کیونکہ اگر امپائر انگلی کھڑی نہیں کر رہا تو کم از کم اتنا تو کیاجاسکتا ہے کہ کبھی میرے کان پکڑوا دیں،کبھی پرویزالٰہی کے اور کبھی صوفی کے ، البتہ اس عمر میں مرغا بننا میرے لیے ذرا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنے والوں کا حکومت پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے‘‘ حتیٰ کہ وہ آپس میں بھی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے اور ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہتے ہیں کہ پہلے کون دھرنا چھوڑ کر گھر کی راہ لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف کو استعفیٰ دینا ہی پڑے گا‘‘ بے شک وہ اپنی میعاد پوری کر کے ہی ایسا کریں کیونکہ استعفیٰ استعفیٰ ہی ہوتا ہے ،وہ کسی کے مطالبے پر دیا جائے یا اپنی میعاد پوری کر کے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت مذاکرات اور معاملے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے‘‘ حالانکہ ہم نے جن جن حضرات سے امید لگائی ہوئی تھی‘ اس میں پوری طرح سنجیدہ تھے لیکن افسوس کہ اسے محض مذاق سمجھا گیا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ 
مذاکرات ختم‘ حکمران خونی انقلاب
سے ڈریں... طاہرالقادری 
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ''مذاکرات ختم‘ حکمران خونی انقلاب سے ڈریں ‘‘کیونکہ میں میں نے جو کہا ہے کہ اگر پولیس والے آگے بڑھیں تو کارکن ان کی ٹانگیں توڑ دیں تو آخر وہاں بھی کچھ نہ کچھ خون تو گرے گا ہی؛ تاہم میں نے انہیں یہ بھی کہا ہے کہ ٹانگیں نہایت پُرامن طور پر توڑی جائیں کیونکہ ہم پُرامن لوگ ہیں اور جو کچھ بھی کرتے ہیں‘ پُرامن طریقے سے ہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''بپھرے شیر میرے کنٹرول سے نکلے تو نہ دیوان رہے گا نہ ایوان‘‘ بلکہ میں تو خود کافی حد تک ان کے کنٹرول سے نکل چکا ہوں اور کسی وقت کسی بھی طرف کو منہ کر سکتا ہوں کیونکہ دھرنے کو پُرامن بناتے بناتے اب تو تنگ آ چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''پنجاب میں کارکنوں کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے‘‘ حالانکہ ہماری طرف بھی توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے کہ درویش کنٹینر میں آخر کب تک قیام کیا جا سکتا ہے اور اب تک مسئلہ حل ہو چکا تھا لیکن جاوید ہاشمی صاحب نے عین چوراہے میں بھانڈا پھوڑ دیا اور امپائر نے آخر ہمیں مایوس کرنے ہی میں بہتری سمجھی۔ آپ اگلے روز دھرنے سے خطاب کر رہے تھے۔ 
نظم 
قفس میں دن بھی نئے نئے تھے 
اور اونچی پرواز کا نشہ بھی 
پروں سے پوری طرح نہ اُترا تھا 
میری آنکھوں میں جب فلک کا 
ہر ایک منظر ابھرتا جاتا 
تو میرے سینے میں لاکھوں پنہاں نحیف شعلے 
فنا دریچے سے جھانکتے تھے 
میں پھڑپھڑا کر نئی رُتوں کے گمان گنبد خروشتا تھا 
نہ بھوک لگتی ،نہ پیاس اُگتی 
میں بند پنجرے سے سر پٹختا 
تو آب و دانے کی بھیک ملتی 
جو نیلے سائے مری نگاہوں میں تیرتے تھے 
تو چیخ اٹھتا‘ 
برہنہ یادیں مرے لہو میں مچل رہی تھیں 
وہ حبس جس نے مری صدائوں کا خوں کیا تھا 
نئے جنم کی وہ پہلی منزل تھی 
جس میں اپنا ضمیر دفنا کے رو پڑا تھا 
میں اب تماشوں میں جی رہا ہوں 
آج کا مطلع 
صبر کر رہا ہوں، انتظار کر رہا ہوں میں 
عشق اور وہ بھی یادگار کر رہا ہوں میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved