تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     15-09-2014

بابا رحمت اور وریام

چنیوٹ سے جھنگ کے راستے میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جسے بھوانہ کہتے ہیں۔یہاں سے نکلنے والی ایک نئی سڑک اس قصبے کو سابق وفاقی وزیر سید فیصل صالح حیات کے علاقے شاہ جیونہ سے ملانے کے لیے تعمیر کی جارہی ہے۔یہ سڑک مکمل ہوجائے تو بھوانہ کے لوگوں کو سرگودھا تک جانے کے لیے چنیوٹ نہیں جانا پڑے گا اور ان کا سفر بھی تیس کلومیٹر کم ہوجائے گا۔ اسی نئی سڑک پر 'دپڑکا‘ نام کی ایک بستی ہے جہاں تین دن پہلے میری ملاقات بابا رحمت خان سے ہوئی۔ دریائے چناب میں آنے والے حالیہ سیلاب سے اس بستی کے سارے گھر ڈھے چکے ہیں۔ میں عصر کے وقت اس بستی میں پہنچا تو بابا رحمت کیچڑ میں سے اینٹیں ڈھونڈکر ایک طرف جوڑ رہاتھا کہ آئندہ مکان بنانے کے لیے کام آئیں گی۔ اس کے گھر کے دو پکے کمرے تو مکمل طور پر گر چکے تھے لیکن حیرت انگیز طور پرمویشیوں کے لیے بنایا گیا کچا کمرہ ابھی تک اپنی بنیادوں پرکھڑا تھا۔ سیلاب گزرجانے کے بعد اب بابے کا سارا خاندان اپنی ایک گائے سمیت اسی ایک کمرے میں مقیم تھا۔ ملبے کی اس ڈھیر پر دنیا ٹی وی کے جھنگ کے رپورٹر لیاقت شام اور میں ایک دوسرے کودیکھ کرسوچ رہے تھے کہ ایک خانماںبرباد سے اس کی کہانی سنانے کی فرمائش کریں تو کیسے ؟ لیاقت شام بہادر آدمی ہے، اس نے بابے سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں اور بابے نے اپنی کہانی ٹی وی کیمرے کے سامنے سنانے پر آمادگی ظاہر کردی۔ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ اسے قدرت، حکومت ، زمانے اور دریا کا کوئی شکوہ نہیں تھا ۔ وہ بڑے سکون سے بتا رہا تھا کہ 
1973ء میں بھی اتنا ہی بڑا سیلاب آیا تھا مگر اس کا مکان محفوظ رہا تھا۔ اب کی بار سیلاب تو شاید اتنا ہی تھا لیکن شاہ جیونہ جانے والی سڑک نے سیلابی پانی کو پھیلنے نہیں دیا اوربستی تباہ ہوگئی۔ بابے کاکہنا تھا کہ اگر سڑک میں مناسب وقفوں پر پانی گزرنے کے راستے بن جاتے تو یقیناً دپڑکا کی بستی بھی بچ جاتی اور اس کا گھر بھی، جو اب نجانے کب تعمیر ہوں گے۔ سڑک کے بارے میں بابا کی بات سن کر میں نے پوچھا کہ کیا سڑک بناتے ہوئے یہ بات آپ لوگوں نے کسی کو نہیں سمجھائی تو بابا کی بجائے بستی کے نمبردار شاہد عباس نے جواب دیا کہ وہ اس سڑک کی تعمیر کے پہلے دن سے اربابِ اختیار کے پاس جاجا کر منتیں کرتار ہا ہے کہ اس میں پانی کے راستے بنا دیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب سڑک مکمل اوراس کے ارد گرد کی بستیاں تباہ ہونے کو ہیں، لیکن اس علاقے سے ناواقف نالائق انجینئر اب بھی اس سڑک کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنے پر تیار نہیں۔ 
لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے شہ دماغوں کی ایک کارستانی مجھے کوٹ خیرا میں وریام نے سنائی تھی۔ وہ مجھے جھنگ کے حفاظتی بند پر اپنے مویشیوں کو باندھنے کے لیے زمین میں کلے (میخیں) گاڑتا ہوا ملا تھا۔ یہ وہی دن تھا جب ٹی وی پر یہ خبر چل رہی تھی کہ جھنگ شہر سیلاب کی نذر ہونے والا ہے۔ میں شہر کے باسیوں کے ساتھ کوٹ خیرا میں بند پر کھڑا پانی کی سطح مسلسل بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ وریام اس فکرمند ہجوم سے بے نیازعین بند کے اوپر کلے ٹھونکنے میں مصروف تھا۔ اس کی بے نیازی دیکھ کر میں اس کے قریب چلا گیا اور اس سے باتیں شروع کردیں۔ اس ان پڑھ شخص نے مجھے کہا کہ صاحب فکر نہ کرو، جھنگ نہیں ڈوبتا، پانی تھوڑا سا بھی بڑھا تو اٹھارہ ہزاری والا بند توڑ دیا جائے گا۔ اس نے شکوے کے انداز میں کہا کہ جب یہ پتا چل گیا تھا کہ پانی زیادہ ہے اور بند لازمی توڑنا پڑے گا تویہ کام اڑتالیس گھنٹے پہلے کیوں نہ ہوا؟ اگر بروقت یہ بند توڑ دیا جاتا توہزاروں ایکڑ پرکھڑی کماد اور چاول کی فصل بچ جاتی کیونکہ پانی پھیل کر اتنا گہرا نہیں ہوتا کہ فصلوں کے اوپر سے گزر جائے۔ اب ہماری فصلوں کے ساتھ ساتھ اٹھارہ ہزاری والوں کے کھیت بھی ویران ہوجائیں گے۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ اٹھارہ ہزاری کا بند اس لیے توڑا گیا کہ وہاں کا ممبر صوبائی اسمبلی اپنی سیاست چمکانے کے لیے اس خالص تکنیکی معاملے کو ایک بڑے فساد میں تبدیل کرنا چاہ رہا تھا۔ وریام کو بھی بابے رحمت کی طرح کسی سے کوئی گلہ نہیں تھا بس اٹھارہ ہزاری بند توڑنے میں تاخیر اس کی سمجھ سے باہر تھی۔ وریام نے جو بتایا تھا اس کے عین مطابق چند گھنٹوں بعد اٹھارہ ہزار ی کا بند توڑ دیا گیا اور اس علاقے کے لوگ بھی افراتفری میں اپنے گھربار چھوڑ کر نسبتاً بلند مقامات پر منتقل ہوگئے جہاں سے یہ اپنے گھروں کو پانی میں ڈوبتا ہوا دیکھ سکتے تھے۔ 
دپڑکا کے بابا رحمت اور کوٹ خیرا کا وریام دونوں چٹے ان پڑھ ہیں لیکن مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ اپنے علاقے کی ضروریات سے کسی بھی پھنے خان بیوروکریٹ یا انجینئرسے زیادہ آگاہ ہیں۔ لاہور یا اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بابو انٹرنیٹ سے منصوبے چُرا چُرا کر جس انداز میں زمین پر ' تھپ ‘ دیتے ہیں اس سے کہیں بہتر منصوبے یہ ان پڑھ لوگ خود بنا سکتے ہیں جو سستے بھی ہوں گے اور ان کے علاقے کی ضروریات سے ہم آہنگ بھی۔ ہماری قومی تباہی کی کئی وجوہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم بابے رحمت اور وریام کو کسی منصوبے کے متعلق رائے دینے کا اہل ہی نہیں سمجھتے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ہر غلطی کی سزا جن لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی لٹا کربھگتنی ہے،انہیں اتنا حق بھی نہیں کہ سڑک کے نییچے پانی گزارنے یا اٹھارہ ہزاری بند توڑنے کے فیصلے کے لیے مشورہ بھی دے سکیں۔ ان لوگوں کی دانش کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ دیکھ لیں کہ جھنگ میں بند توڑنے فیصلہ اس وقت کیا گیا جب سب کچھ بہہ گیا، سڑک کے ڈیزائن میں معمولی ترمیم نہیں کی گئی لیکن دپڑکا کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا۔مقامی حکومتوں کا جونظام بابے رحمت اور وریام کی دانش کو استعمال میں لاسکتا ہے اسے اس لیے برباد کردیاگیا کہ اس سے لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بیٹھے حکمرانوں کے اختیار پر زد پڑتی ہے۔ ان حکمرانوں کا المیہ ہے کہ یہ نیک نیتی سے بھی عوام کی بھلائی چاہیں تو اس میں تباہی کی کوئی صورت ان کی لاعلمی یا نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے۔ کوئی نیا منصوبہ بنانا ہو یا سیلاب جیسی آفت میں لوگوں تک امداد پہنچانی ہو، ''اپنے ہاتھ سے کرنے ‘‘ کے شوقِ فضول میں یہ کچھ بھی ڈھنگ سے نہیں کرپاتے۔ یوں ملک غلط منصوبہ بندی کی انسانی آفات کا بھی شکار ہورہا ہے۔ 
مقامی حکومتوں کی افادیت محض منصوبہ بندی تک ہی نہیں بلکہ خود معاشرے کی شیرازہ بندی کے لیے بھی ان اداروں کا کردار غیر معمولی طور پر اہم ہے۔ میںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جھنگ میں سیلاب زدگان میں امداد تقسیم کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ڈھونڈ ڈھونڈ کر سابق بلدیاتی نمائندوں کو لا رہے تھے تاکہ امداد کی تقسیم کے وقت لوگوں میں بد نظمی نہ پیدا ہو۔ جہاں کوئی ایسا نمائندہ مل جاتا وہاں ہرشخص تک امدادی سامان پہنچ جاتا اور جہاں ایسا کوئی شخص نہ ملتا وہاں ایسی ہڑبونگ مچتی کہ الامان ، الحفیظ۔ مجھے ایک ہزار فیصد یقین ہے کہ ضلع جھنگ میں اگر بلدیاتی ادارے اپنا کام کررہے ہوتے تو وہ سیلاب تو نہ روک پاتے لیکن ایک تہائی ضلعے کی بربادی میں ضرور کچھ کمی کر لیتے۔ یہاں کے لوگوں کے پاس سر رکھ کر رونے کے کچھ کندھے تو ہوتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved