جب لااینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوا ‘ تو فوج نے حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ سیاسی معاملات کو سیاسی طور پر ہی حل کیا جائے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ فوج سے سیاسی معاملے میں ملوث ہونے کی امید نہ رکھی جائے۔ جب احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہونے والا امن و امان کا مسئلہ زیربحث آیا‘ تو حسب روایت فوج سے بھی مشاورت کی گئی۔ اس نے وہی پوزیشن برقرار رکھی کہ سیاسی بحران حل کرنا فوج کا کام نہیں۔ البتہ جب امن و امان برقرار رکھنا سول انتظامیہ کے اختیار میں نہ رہے‘ تو فوج اپنی محدود ذمہ داریاں ادا کرنے کو تیار ہے۔ یہ انتظام‘ اتفاق رائے سے طے ہوا کہ مظاہرین کا سامنا کرنے کے لئے پہلی صف پولیس کی ہو گی۔ پولیس ناکام ہوئی‘ تو اگلی صف میں رینجرز ہو گی اور جب رینجرز کے اختیار میں کچھ نہ رہا‘ تو تیسری صف میں فوج ہو گی۔ اس واضح انڈرسٹینڈنگ کے بعد‘ 4 عمارتوں کی حفاظت کی ذمہ داری فوج کے سپرد کی گئی۔ فوج نے اپنی ڈیوٹی آخری دن تک ذمہ داری اور کامیابی سے ادا کی۔ اس دوران اپوزیشن کے دبائو میں آ کر جب چیف آف آرمی سٹاف سے‘ سہولت کاری کے سوال پر بات کی گئی‘ تو انہوں نے غیرجانبدارانہ کردار ادا کر کے‘ وزیراعظم کے لئے مسائل کے حل میں‘ آسانی پیدا کرنے کی پیش کش کر دی۔ لیکن جب ان کے بارے میں خلاف واقعہ بیانات سامنے آئے‘ تو وہ بلاتاخیر اپنا دامن جھاڑ کے سیاسی معاملات سے الگ ہو گئے۔ فوج کی آج بھی یہی پوزیشن ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجرجنرل عاصم باجوہ نے‘ اپنی پریس کانفرنس میں یہ بات پھر دہرائی ہے کہ سیاسی بحران سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ معاملہ سیاسی طریقے ہی سے حل کیا جائے۔سوال یہ ہے کہ فوج کو بار بار ایسا کیوں کرنا پڑا؟تفصیل میں جا کر دیکھنے پر ہر محب وطن کوبہت افسوس ہو گا۔ ہمارا سیاسی کلچر اتنا بگڑ چکا ہے کہ اب کوئی بھی حکومت ‘اپنی سیاسی مشکلات کے وقت‘ فوج سے مدد کی طلب گار ہو جاتی ہے۔ اس میں کسی کا قصور بھی نہیں۔ آج جتنے سیاستدان بھی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں‘ انہیں جب بھی حکومت ملی‘ اسے آزادی و خودمختاری کے ساتھ چلانے کا ‘انہیں موقع نہیں ملا اور اگر ملا بھی‘ تو وہ سہل پسندی کے تحت یا آسانی کے لئے‘ اس کا فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے۔ اگر ڈھیلا ڈھالا جائزہ لے کر دیکھا جائے‘ تو آج ہمارے سیاسی منظر پر جتنے سیاستدان بھی نظر آتے ہیں‘ وہ یا تو کسی نہ کسی فوجی حکومت کا حصہ رہے ہیںیا انہوں نے جنرلوں کی سرپرستی میں حکومتیں چلائی ہیں اور یا براہ راست جنرلوں کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ انہیں آزادانہ سیاسی حکومتیں چلانے کا ہی تجربہ نہیں ہوا، ورنہ انہیں پتہ ہوتا کہ منتخب حکومت کتنی بااختیار ہوتی ہے؟ اس کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں؟ اور سیاسی بحرانوں کو حل کیسے کیا جاتا ہے؟ کوئی بھی منتخب سیاسی حکومت‘ اپنے معاملات میں فوج سے مدد مانگنا باعث شرم سمجھتی ہے۔ اس کا مطلب نا اہلی کا اعتراف ہے اور دنیا میں وہ کون سا شخص ہے؟ جسے عوام نے حکمرانی کے لئے منتخب کیا ہو اور وہ اپنی سیاسی ذمہ داریاں ادا کرنے میں فوج سے سہارا مانگے؟ بھارت سے دشمنی اپنی جگہ لیکن اگر ہمیں جمہوری نظام قائم رکھنا ہے‘ تو اس کے تجربات سے فائدہ اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بھارتی سیاستدان کتنے بھی برے رہے ہوں لیکن وہ امور مملکت چلانے میں انتہائی ماہر ‘ باوقار اور خوددار ثابت ہوئے ہیں۔ وہاں بھی حکومتوں پر مختلف بحران آئے۔ حکومتیں ٹوٹیں، حکومتیں بنیں، احتجاجی تحریکیں چلیں، عدم اعتماد کی قراردادیں آئیں، جوڑ توڑ ہوتے رہے، لیکن آج تک وہاں کی کسی حکومت نے‘ نازک سے نازک موڑ پر بھی سیاسی معاملات میں فوج سے مدد نہیں مانگی۔ وہاں بھی اگر کسی منتخب حکومت نے‘ سیاسی معاملات میں فوج سے مدد لی ہوتی‘ توسیاستدانوں کا وہی حشر ہوتا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔بھارت کی فوج ہم سے کئی گنا بڑی ہے، لیکن وہاں کے کسی فوجی سربراہ کو براہ راست وزیراعظم سے ملاقات مانگنے کا حق نہیں۔ اس کی سینئر اتھارٹی سیکرٹری دفاع ہے۔ اگر اسے پیشہ ورانہ معاملے میں ہائیراتھارٹی سے‘ رابطے کی ضرورت پڑے‘ تو وہ تھروپراپرچینل یعنی بذریعہ سیکرٹری‘ وزیر سے ملاقات کی درخواست کرتا ہے۔ دفتری معاملات میں وہ‘ روز روز سیکرٹری سے بھی نہیں مل سکتا۔ اس کام کے لئے ایک جوائنٹ سیکرٹری ہوتا ہے‘ جو روزمرہ کے امور میں چیف آف آرمی سٹاف کی مدد کرنے پر مامور ہوتا ہے۔ بھارتی افواج کے کسی بھی سربراہ کے وزیراعظم سے روز روز ملاقات کرنے کا رواج ہی نہیں۔ بھارت کے سابقہ چیف آف آرمی سٹاف کو اپنی سروس کے معاملات میں محکمے کی طرف سے مشکلات پیش آئیں‘ تو اس کی کوششوں کے باوجود وزیرمملکت برائے دفاع نے ملاقات کا وقت نہیں دیا۔ یہی جواب ملا کہ سیکرٹری ڈیفنس سے بات کر لیں۔ وہ بے چارہ اپنی سروس میں مزید ایک سال کا جو حق لینا چاہتا تھا‘اس سے محروم رہا اور ریٹائر ہو گیا۔
ایسا نہیں کہ بھارتی سیاستدان کرپشن سے پاک ہوں۔ اخلاقی طور پر بھی انہیں خاص برتری حاصل نہیں ہوتی۔ انہیں بھی احتجاجی تحریکوں سے واستہ پڑتا ہے۔ ہمارے احتجاجی دھرنے تو دس دس پندرہ پندرہ ہزار کے رہے، بھارت میں تھوڑا ہی عرصہ پہلے اناہزارے نے پورے ملک میں دھرنوں کا طوفان کھڑا کر دیا تھا اور دلی کے رام لیلا گرائونڈ میں‘ جو دھرنا اس نے خود دیا‘ اس میں لاکھوں لوگ شریک تھے اور وہ کئی دن اور رات جاری رہا۔ ناچار بھارتی حکومت نے‘ اناہزارے سے مذاکرات کئے۔ اس کے مطالبات ایسے تھے کہ انہیں تسلیم کرنے کی صورت میں آئینی ترامیم کرنا پڑتیں اور بھارت میں آئینی ترمیم کو یوں سمجھا جاتا ہے ‘ جیسے ان کی کسی مذہبی کتاب میں ردوبدل کیا جائے۔ وہاں پر ایسی ایسی آئینی ترامیم کے بل محروم توجہ پڑے ہیں‘ جن پر ملک کی تمام بڑی جماعتوں کا اتفاق ہے۔ مثلاً قریباً 30 سال پہلے‘ تمام جماعتوں میں اتفاق ہو گیا تھا کہ خواتین کے لئے نشستیں مخصوص کر دی جائیں اور ان کا یہ حق آئین میں شامل کیا جائے۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، بل ابھی تک پاس نہیں ہو سکا۔ ہم ہیں کہ چھوٹی چھوٹی بات پر آئینی ترامیم کرڈالتے ہیں۔ مثال بری ہے مگر کیا کروں؟ کچھ لوگ ہوتے ہیں‘ جو اپنی عزت کے لئے جان تک دے دیتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں‘ جو عزت پر سمجھوتے کر لیتے ہیں اورپھر ان کے لئے عزت پر سمجھوتا کرنا روزمرہ کا معمول بن جاتا ہے۔ ہمارے پارلیمینٹیرینز کی حالت بھی یہی ہے۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر آئینی ترمیم کر ڈالتے ہیں۔ جس آئین میں بار بار ترمیم کر کے‘ اس کی بے حرمتی کی جاتی ہو‘ اس کا تقدس کیسے برقرار رہ سکتا ہے؟ اگر ہمیں جمہوری نظام کو مستحکم کرنا ہے‘ تو ہمیں امورحکومت چلانے کے لئے‘ عوامی فیصلوں کا احترام سیکھنا پڑے گا۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کا ہر رکن‘ عوام کا منتخب نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کی رائے کو اکثریت کے بل پر مسترد کرنا بھی‘ جمہوریت کی توہین ہے۔ اسی لئے پارلیمنٹ میں ہر کارروائی پر‘ ہر ممبر کو رائے دینے کا حق ہوتا ہے اور اس کی رائے کو اس بنیاد پر قابل احترام سمجھا جاتا ہے کہ اسے یہ حق عوام نے دیا ہے اور یہاں روز تماشا لگا رہتا ہے۔ جو اکثریت حاصل کر لیتا ہے‘ وہ اپوزیشن کو جوتے کی نوک پہ رکھتا ہے۔حکومتی ارکان‘ اپوزیشن والوں کی تضحیک کرتے ہوئے‘ یہ نہیں سوچتے کہ وہ ان کو‘ووٹ دینے والے عوام کی توہین کر رہے ہیں۔
جمہوریت میں عوام کسی کو حکمرانی کا حق نہیں دیتے۔ وہ امور مملکت چلانے کی ذمہ داریاں دیتے ہیں‘ جو وہ پارلیمنٹ کے احکامات کی روشنی میں پوری کرتے ہیں۔ وزیراعظم بادشاہ نہیں‘ پارلیمنٹ کے احکامات کے تابع ہوتا ہے۔ جب بھی عوامی اہمیت کا کوئی بل زیربحث آتا ہے‘ تو اس پر بحث کو سننا وزیراعظم کی ذمہ داری کا حصہ ہے۔ میں نے مدعا بیان کرنے کی غرض سے‘ چند سرسری سی مثالیں دی ہیں۔ ورنہ جمہوریت کے پورے نظام کو سمجھنے کے لئے درجنوں کتابوں اور برسوں کے تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر ہمیں مسلسل انتخابات کے نتیجے میں‘ وجود پذیر ہونے والی اسمبلیوں کے اندر عوامی مینڈیٹ کو اعلیٰ ترین اتھارٹی سمجھتے ہوئے‘ پارلیمنٹ چلانے کے مواقع ملتے، انتہائی اہمیت کی حامل لیجسلیشن کے لئے‘ بلاامتیاز جماعت ‘پارلیمنٹ کے برگزیدہ اراکین کی رائے لی جاتی، وزیراعظم دونوں ایوانوں میں حاضری دینا ‘ اپنے فرائض کا حصہ تصور کرتا اور سیاسی اختلافات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی صورت میں‘ کابینہ کی مشاورت اور رہنمائی میں کام کرتا‘ تو اسے سسٹم سے باہر کسی سہارے کی ضرورت نہ پڑتی۔ کبھی آپ کے سننے میں آیا ہے کہ کسی منتخب وزیراعظم نے‘ سیاسی بحران میں پھنس کے‘ اپنی فوج کے سربراہ سے سہولت کاری کی خدمات مانگی ہوں؟ وہ وزیراعظم کیا ہوا‘ جوسیاسی مسائل اور معاملات میں‘ سول اور ڈیفنس سروسز کے اعلیٰ افسروں سے مدد کا طلب گار ہو؟ اور وہ مرضی کے مطابق عمل نہ کرے‘ تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کے‘ طاقت کا مظاہرہ کرے؟ یہ وزارت عظمیٰ ہے یا گلی محلے کی لڑائی؟ جس میں حریف قابو نہ آئے‘ تو اپنے حواریوں کو جمع کر کے‘ طاقت کا مظاہرہ کیا جائے؟ ہم نے 1958ء سے جمہوریت کو تماشا بنا رکھا ہے۔ اب اس تماشا گری سے نکلنے کا موقع مل رہا ہے اور ہم اس کا فائدہ اٹھانے کو تیار نہیں۔ فوج نے پچھلے چند روز میں بار بار کہا ہے کہ ہمیں سیاسی معاملات میں مت گھسیٹو۔ ہمیں سیاست سے بچائو اور ہم اس پر اعتبار ہی نہیں کر رہے۔ فوجی ترجمان نے چند روز میں‘ تین مرتبہ دہائی دی ہے کہ ہمیں سیاست سے بچائو۔ یہ جنرل راحیل شریف کی آواز ہے۔ ہمارے حکمران پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کی دی ہوئی طاقت کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ جمہوری اقدار و روایات پر عمل نہیں کریں گے‘ توہمیں جمہوری نظام چلانا کون سکھائے گا؟فوج؟ وہ تو کہہ رہی ہے‘ ہمیں سیاست سے بچائو اور آپ پارلیمنٹ سے کہلوا رہے ہیں ‘ ہمیں سیاسی بحران سے نکالو۔ جب آپ اپنا کام دوسروں سے کرائیں گے‘ تو دوسرا آگے بڑھ کے خود کیوں نہ کر لے؟ اور وہ بھی حکومت؟ کس کا دل چاہتاہے‘ آسانی سے ہاتھ آئے تو اسے چھوڑ دے؟