ہم لٹ رہے ہیں۔ ہماری متاع ِ عمرکو لوٹنے والا راہزن کوئی اور نہیں بلکہ سیاست ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں، آپ ان تمام اوقات کا شمار کریں جو آپ نے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سیاست پرباتیں کرنے یا ٹی وی پر سیاسی مباحثے سننے میں گزار دیے تو آپ کو احساس ہوگا کہ وقت کے کتنے قیمتی گوہر ہم نے اس اتھاہ سمندر میں کھو دیے اور حاصل کچھ بھی نہ کیا۔
جمہوریت اور آمریت کی کئی عشروں کی آویزش، بلکہ آمیزش، کے دوران پروان چڑھنے والے سیاست دان، جیسا کہ نواز شریف ، بے نظیر بھٹو، الطاف حسین، آصف زرداری اورچوہدری برادران ہمارے سیاسی تھیٹر کے اہم ترین کردار بن چکے ہیں۔ یہ رہنما جدا جدا سیاسی رجحانات اور راہوں کا تعین کرتے ہیں اور اسی طرح کچھ آمرحکمران اور ان کی باقیات بھی۔ اب دو نئے رہنما، عمران خان اور ڈاکٹر قادری( جو عمر کے اعتبار سے تو نہیں لیکن رجحان کے اعتبار سے نئے ضرور ہیں) بھی اس میدان میں اپنی موجودگی کا توانا احساس دلارہے ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا فضل الرحمن، رحمن ملک، اعتزاز احسن، اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی کے بیانات بھی سیاسی کورس کا حصہ ہیں۔ کچھ نیم سیاسی شخصیات، جیسا کہ عاصمہ جہانگیر، بھی بوجوہ چپ رہنے میں قباحت سمجھتی ہیں۔ دنیا کے شاید ہی کسی ملک میں بیک وقت اتنے سیاست دان ہوں جن کے بیانات بریکنگ نیوز بن کر عوام کی کمر توڑتے رہتے ہوں۔ اس پر یہی کہا جاسکتا ہے۔۔۔''ایں سعادت بزور ِ بازو نیست‘‘۔
ہر ساعت بہتے سیاسی سیلاب میں ہماری عمر ِعزیز غرق ہورہی ہے۔ سیاست دانوں کی تو مجبور ی ہے کہ اُنہوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہوتا ہے، ہمیں کیا مجبوری ہے؟ان سیاست دانوں میں کچھ اچھے ہیں، کچھ اس کے برعکس، لیکن ہم ان کی ریٹنگ کیسے کرسکتے ہیں۔ فی الحال ٹی وی پروگراموں میں ان کی برتری کا معیار زیادہ چیخ کربے ہنگم انداز میں بولنا اور بولتے ہی چلے جانا ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ سیاسی مکالمے میں دلائل گئے بھاڑ میں، مضبوط سانس ہونا ضروری ہے۔ان کی بسیار گوئی سامعین کی سماعت اور صبر کے لیول سے کہیں ماورا ہوتی ہے۔ ان رہنمائوں نے ہمیں اس قدر خواب دکھائے ہیں کہ اب جاگنا عذاب لگتا ہے ۔ خوشنما التباسات کی دنیا سے نکل کر حقائق کا سامنا درست حکمت ِ عملی ہے ، لیکن، بقول مولانا حالی۔۔۔''مگراس میں پڑتی ہے محنت زیادہ‘‘۔ ان خوابوںنے حقیقت سے دور کرتے ہوئے ہمیں اپنے گردو پیش، اپنی دھرتی اور اپنے ماحول سے اجنبی بنادیا ہے۔ اس کی وجہ سے شناخت کا سنگین بحران بھی سراٹھارہا ہے۔ اب معاملہ اس حدتک بڑھ چکا ہے کہ اگر ہم نے جلدی اپنی عادات تبدیل نہ کیں اورسیاسی نشے سے جان نہ چھڑائی ، تو ہم اوہام کی دنیا سے باہر آکرزندگی کے حقائق کا سامنا نہیں کرسکیںگے۔
عوام کوباتوں میں لگا کر سیاست دان خود کسی نہ کسی فارمولے پر کام کررہے ہوتے ہیں کہ کس طرح اپنی دولت اور طاقت میں اضافہ کرنا ہے۔ مہذب دنیا کے افرادانتخابات کے ایام کے دوران بہت کم سیاسی معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ ووٹ دے کر اپنی حکومت کو مینڈیٹ دیتے ہیں اور پھر وطن کی تعمیر و ترقی میں لگ جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کبھی انتخابی موسم ختم ہی نہیں ہوتا۔وہاں سیاست دان بھی اتنی سیاست نہیں کرتے جتنی یہاں ہمارے عوام۔ امریکی عوام خوشی اور سہولیات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ مصائب اور بیماریو ں پر قابو پانے کے لیے کام کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کینسر جیسے موذی اور اذیت ناک مرض پر قابوپانے کے جتن کررہے ہیں۔ آج کل یہاں ایک مختلف قسم کے کینسر کا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے جس کا نام آئی ایس آئی ایس ہے۔ نائن الیون کے سانحے کی یاد میں منائی جانے والی تقریب میں صدر اوباما نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے کہا کہ ہم آئی ایس آئی ایس کے انتہا پسندوں کا خاتمہ کردیں گے۔ اُنہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کی انتہا پسندی کا کینسر ختم کرنے میں وقت اور وسائل صرف ہوںگے ، تاہم امریکہ اور باقی دنیا کو اس خطرے سے بچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔
اپنے خطاب میں امریکی صدر نے پاکستان کا بھی ذکر کیا جہاںان کے کمانڈوز نے بن لادن کو تلاش کرکے ہلاک کیا تھا۔صدر اوباما نے زور دے کر کہا۔۔۔''ہم ان دہشت گردوں کا پیچھا کریںگے اور وہ جہاںبھی ہوں گے، ہم اُن کا صفایا کردیںگے۔بطور صدر یہ میرا اصول ہے کہ اگر کوئی امریکہ کے لیے خطرہ بنے گا تو اس کو دنیا کے کسی کونے میں پناہ نہیں مل پائے گی۔‘‘سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری پہلے ہی مشرق ِ وسطیٰ میں ہیں۔ وہ آئی ایس آئی ایس کے خلاف لڑنے کے لیے اسلامی ممالک کا کولیشن قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مسٹر کیری سعودی عرب کا دورہ بھی کریںگے ، تاہم سعودی عرب امریکہ کا حامی ہونے کے باوجودآئی ایس آئی ایس کے خلاف کسی فوجی کارروائی کا حصہ بننے میں تامل سے کام لے رہا ہے کیونکہ وہ بھی ایک سنی ملک ہے اور اگر اس کی افواج کسی سنی انتہا پسند گروہ کے خلاف کارروائی میں حصہ لیتی ہیں تو اس کو بہت سے داخلی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آنے والے ہفتوں میں صدر اوباما عالمی رہنمائوں کے سامنے اپنی رپورٹ رکھیں گے‘ جب وہ رہنما یواین کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میںشرکت کے لیے نیویارک آئیںگے۔ اُنہیں یقین ہے کہ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں موجود اپنے اتحادیوں کے ساتھ سیاسی اور عسکری الحاق کرتے ہوئے سنی انتہا پسندی کو کچل دیںگے۔ اس وقت تک امریکہ کے علاوہ نو ممالک، جن میں برطانیہ، کینیڈا، آسڑیلیا بھی شامل ہیں، آئی ایس آئی ایس کے خلا ف کارروائی میں شمولیت کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کہاںکھڑ اہے؟ اگر اسے دن رات سیاسی مباحث سے فرصت ملے تو اسے علم ہوگا کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں آئی ایس آئی ایس کا لٹریچر تقسیم ہورہا ہے۔ ملک میں جمہوریت کا بستر گول کرکے خلافت قائم کرنے کی خواہشمند تنظیموں کی کمی نہیں۔ ان تنظیموں کے پاس بے پناہ وسائل بھی ہیں اور ان کی پہنچ بہت سے اہم اداروں تک بھی ہے۔ جہاںتک ہمارے ذہنی انفراسٹرکچر کا تعلق ہے تو ہماری درس گاہوں میں ایسے افراد سرائیت کرچکے ہیںجو نوجوان نسل کو جمہوریت سے بیزار کرکے ایک مثالی اسلامی نظام، یعنی خلافت، کے قیام پر ذہنی طور پر راضی کررہے ہیں۔ اگر شک ہو تو کسی بھی ایک درجن کے قریب یونیورسٹی کے طلبہ سے بات کرکے دیکھ لیں‘ اندازہ ہوجائے گا کہ اُن کی کس طرح کی برین واشنگ کی جارہی ہے۔ یہ یونیورسٹیاں فاٹا میں نہیں اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں واقع ہیں۔ تاہم ان باتوں پر توجہ دینے کے لیے ضروری ہے کہ بے معنی سیاسی مباحث سے جان چھڑائی جائے اور اس خطرے کا سامنا کیا جائے جو ہمارے سر پر کھڑا ہے۔
ہمارے بہادر فوجی شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں کے خلاف لڑرہے ہیں لیکن یہ لڑائی دہشت گردی کے End Users کے خلاف ہے اور یقینا بہت کامیابی سے جاری ہے۔ فوج کے ساتھ سیاست دانوں اور معاشرے کے تمام طبقوںکو بھی فکری ضرب ِ عضب شروع کرنے کی ضرورت ہے۔