پندرہ ستمبر والے کالم میںفیس بک پر چلنے والے بک بکٹ چیلنج کا ذکر کیا تھا،جس میں اپنی پسندیدہ دس کتابیں بتانی ہیں، جنہوں نے زندگی کو متاثر کیا۔یہ فہرست بناناآسان کام نہیں، اس لئے کہ مختلف ادوار میں پسند ناپسند بدلتی رہتی ہے۔ شاید نوجوانی کی محبتوں میں جذبات کی بلاخیزی زیادہ ہوتی ہے، وقت بیت گیا،بالوں میں سپیدی اترآئی توپسند بھی پہلے جیسی نہ رہی۔ ایک زمانے میںفرانسیسی شارٹ سٹوری رائٹر موپساں کے عشق میں گرفتار ہوئے، موپساں کی تحریر میں غضب کی ڈرامائیت اور جھنجھوڑ دینے والی کاٹ ہے، ...آج وہی اس کا عیب محسوس ہوتا ہے۔ سمر سٹ ماہم، اوہنری اور ان سب سے بڑھ کر وہ روسی جادوگر چیخوف ... یہ ایسے رائٹر ہیں کہ انہیں ہرا یک کو پڑھنا چاہیے۔ چیخوف خاص کر لازمی مطالعہ کی فہرست میں آتا ہے۔عمر کے چار عشرے ڈھل جائیں، پھر یہ رائٹر اتنے پرکشش نہ لگیں تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ وقت کا تیز رفتار ریلا بہت کچھ بدل دیتا ہے،سوچ، خیالات اور گاہے محبوب بھی۔مولانا آزاد البتہ اس تخصیص سے مستثنیٰ لگے، غبار خاطر اور تذکرہ وغیرہ کو پڑھ کر جو حظ بیس سال پہلے اٹھایا، آج بھی لطف کی وہی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ گزشتہ کالم میں نسیم حجازی کا نام رہ گیا، ہمارے لبرل رائیٹرز کو نسیم حجازی کا نام زہر لگتا ہے، ان میں سے بہت سے حالیہ شدت پسندی کے محرکات میں سے ایک حجازی صاحب کے ناول بھی دیکھتے ہیں۔ ہم نے تو سکول کے زمانے میں یہ ناول شوق سے پڑھے ،یہ وہ دور ہے جب سپر ہیروز اچھے لگتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں تو اپنی اگلی نسل کو یہ ضرور پڑھنے کی ترغیب دوں گا۔
اپنی زندگی پر اثر ڈالنے والی کتابوں کی فہرست میں قرآن مجید کا پہلا نمبر آتا ہے، ایسا رسماً نہیں کہا جارہا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ آدمی چاہے سینکڑوں ہزارو ں کتابیں پڑھ ڈالے،اسے قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھنے کا موقعہ ملے تو فرق خود معلوم ہوجائے گا۔ جو عظمت، شان و شوکت اور اثر آفرینی اللہ کے کلام میں ہے، انسان اس کا تصور تک نہیں کر سکتا۔ قرآن کی حقانیت کا اندازہ لگانے کے لئے کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں، جو بھی اس کلام کو پڑھ لے ، اسے اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں، رب کائنات ہی اس کا مصنف ہے۔ سیرت مبارکہ ﷺ پر بہت سی اچھی کتابیں ہیں، مجھے سیرت ابن اسحاق اچھی لگی، اس کا اندازبڑا پراثر ہے، الرحیق المختوم اس حوالے سے مکمل کتاب ہے کہ اس میں جامع معلومات کے ساتھ متاثر کن اسلوب بھی موجود ہے۔
فکشن میں ٹالسٹائی کے '' وار اینڈ پیس‘‘ کو میں کبھی نہیں بھلا سکتا، مجھے اگر دس کتابیں چننے کا موقعہ ملے تو یہ ان میں سے ایک ہوگی، پانچ یا تین چننے کا کہا جائے، تب بھی میرا جواب یہی ہوگا۔ واراینڈ پیس یا جنگ اور امن کو پڑھنا ایک شاندار تجربہ ہے، یہ ایک سمندر کی مانند ہے، آپ اس میں اپنی کشتی اتار دیں تو پھر شام ڈھلے گھر لوٹنا ممکن نہیں رہتا، کئی دنوں تک بیچ سمندرکیمپنگ کرنا تب آپ کا مقدر بن جاتا ہے۔ اردو کی خوش نصیبی ہے کہ تاریخ انسانی کے دو عظیم ترین ناولوں ٹالسٹائی کے ''وار اینڈ پیس ‘‘اور دوستئوفسکی کے ''برادرز کرامازوف‘‘کو شاہد حمید جیسا مترجم نصیب ہوا ۔ انہوںنے ایسا شاندار ترجمہ کیا کہ شاید ہی کوئی اور کبھی کر سکے۔ویسے ٹالسٹائی کے اینا کرینینا کی طرح دوستئو فسکی کا ناول کرائم اینڈ پنشمنٹ(جرم وسزا)بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ دنیا کی شاہکار کتابوں سے متعارف کرانے والی ایک کتاب بھی میری پسندیدہ دس کتابوں میں شامل ہے۔ یہ ستار طاہر کی ''دنیا کی سو عظیم کتابیں‘‘ہے۔ میں ہر نوجوان کو یہ کتاب ضرور پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔اس میں مذہب، تاریخ، سیاسیات، فلسفہ، شاعری، ناول، ڈرامہ، شارٹ سٹوری، معیشت، سائنس جیسے موضوعات پر تاریخ انسانی کی شاہکار کتابوں اور ان کے مصنفین پر دلچسپ اور جامع مضامین شامل ہیں۔ یہ کتاب جہاں سے ملے ، آنکھیں بند کر کے لے لیں ۔
کافکا کو پڑھنا بھی ایک اچھوتا تجربہ ہے، کافکا کاشاہکار ناولٹ میٹامارفسس( کایاکلپ)پڑھے بغیر فکشن کا مطالعہ مکمل نہیںہوتا۔ عاصم بٹ نے کافکا کہانیوں کے نام سے کافکا کے افسانوں، ڈراموںاور اس کے حیرت انگیز خوابوں کو اکٹھا کیا ہے۔ علامتی لکھنے والوں میں سارتر، کامیو جیسے نابغہ روزگار ادیب شامل ہیں۔یہ ایک پورا سکول آف رائٹنگ ہے، جس کے دروازے پر دستک ضرور دینی چاہیے۔ میلول کا ناول موبی ڈک پڑھ نہیں سکتے تو اس پر بنی فلم ہی دیکھ لیں۔ پچھلے چند برسوں سے میں لاطینی امریکہ کے ادیبوں کی محبت میں گرفتارہوا۔ گارشیا مارکیز ان میں سرفہرست ہے۔ مارکیز کے'' تنہائی کے سو سال‘‘ اور ''وبا کے دنوں میں محبت ‘‘
غیرمعمولی ناول ہیں۔ ان کا عجب ذائقہ ہے، پڑھے بغیر اندازہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ مارکیز کی مختصر کہانیاں اور اس کا ناولٹ ایک پیش گفتہ موت کی روداد بھی کمال کا ہے ۔ کتابی سلسلہ آج نے مارکیز پر شاندار نمبر نکال رکھا ہے۔ میلان کنڈیرا کو پڑھے بغیر جدید ادب کا مطالعہ مکمل ہی نہیںہوتا۔ حوزے ساراگوما کا ناول اندھے لوگ مشہور شاعر احمد مشتاق نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ ناول حقیقی معنوں میں دنگ کر دینے والا ہے، ساراگوما کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پائلو کوہیلو سے قاری کا ایک خاص رشتہ قائم ہوجاتا ہے، ان کا اسراریت لئے انداز تحریر اور مثبت باتوں کو نمایاں کرتا بلاگ اس رشتے کو مضبوط کرتا ہے۔ میری فہرست میں مگر ان کا ایک ہی ناول ''الکیمسٹ‘‘ آ سکتا ہے۔ ترک ناول نگاراورحان پاموک کوکچھ عرصہ پہلے پڑھنے کا موقعہ ملا۔ پاموک حیران کر دینے والے ناول نگار ہیں۔ ابھی تک ان کے دو ہی ناول پڑھ سکا، وائٹ کیسل(سفید قلعہ)اور مائی نیم از ریڈ (سرخ میرا نام)۔ مائی نیم از ریڈکا انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں ترجمہ شدہ ناول پڑھے۔اردو ناول فرخ سہیل گوئندی نے ترجمہ کرایا ہے۔ یہ خاصے کی چیز ہے، اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ اردو کے بڑے ناولوں میں میری پسند عبداللہ حسین کا '' اداس نسلیں‘‘، قراۃ العین حیدر کا ''آخری شب کے ہمسفر‘‘،شمس الرحمن فاروقی کا ''کئی چاند تھے سر آسمان‘‘، جمیلہ ہاشمی کا'' دشت سوس‘‘اور قرۃ العین طاہرہ پر لکھا چھوٹا سا ناول جو بہت ہی برے پرنٹ میں ہے، پڑھنے کوملا، جدید ناولوں میں مرزا اطہر بیگ کا'' غلام باغ‘‘، عاصم بٹ کا دائرہ(اس
کے چند مناظر ایڈٹ ہونے چاہئیں)شامل ہیں۔ تارڑ صاحب کے ناولوں کا پچھلے کالم میں ذکر کر چکا ہوں۔
نان فکشن میں ٹائن بی کی اے سٹڈی آف ہسٹری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، ابن خلدون کی مقدمہ، الفخری،گبن کی ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن امپائرز، رسول حمزہ توف کی میرا داغستان(یہ بار بار پڑھے جانیوالی کتاب ہے)، گاندھی کی آپ بیتی ، نہرو کی تاریخ عالم پر ایک نظر، روئیداد خان کی دلچسپ آپ بیتی(اسے مصنف کی وجہ سے نظر انداز نہ کیا جائے)، ڈاکٹرعائشہ جلال کی کتابیں، کلدیپ نائر کی آپ بیتی،ایڈورڈ سعید کی اورنٹیل ازم، نوم چومسکی اور اروندھتی رائے کا کام قابل ذکر ہے ۔ہمارے محترم سجاد میر صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ برصغیر کی فکری تاریخ سید علی ہجویریؒ کی کشف المحجوب، حضرت مجدد الف ثانی ؒکے مکتوبات، شاہ ولی اللہ کی حجتہ البالغہ اور اقبال کے خطبات پڑھے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ میں اس میں مکتوبات صدی(از حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیریؒ)کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ تصوف کے حوالے سے لاہور کے مشہور صوفی بزرگ سید سرفراز اے شاہ صاحب کی چاروں کتابیں (کہے فقیر، فقیر نگری، فقیر رنگ اور لوح فقیر)قابل ذکر ہیں۔ تصوف کو اتنے آسان اور قابل فہم انداز میں بیان کرنے کی سعادت کم ہی لوگوں کو نصیب ہوئی۔ ابویحییٰ کا ناول ''جب زندگی شروع ہوئی‘‘اردو کی سب سے زیادہ چھپنے والی کتابوں میں شامل ہوچکا ہے۔ اس ناول نے حقیقی معنوں میں مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اسے پڑھنے کے بعد زندگی کو دیکھنے کا زاویہ نظر ہی بدل گیا۔ کم ہی کتابیں اتنی پراثر دیکھیں۔ بہت سی کتابیں اب یاد آ رہی ہیں، جن کا ذکر بک بکٹ میں کرنا چاہیے، شاعری کی کتابیں بھی رہ گئیں،مگر کالم کی سپیس ختم ہوگئی۔ یار زندہ صبحت باقی۔