تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-09-2014

صحبتِ سعید

رنگ آمیزی؟ منطق اور دلیل کے اس حقیقت پسند آدمی کو اسی سے چڑ ہے۔ سیاست سے بھی شاید اسی لیے کراہت رکھتا ہے۔ کتنی ہی داستانیں ان کہی رہ جاتی ہیں ۔ جنرل کی کہانی بھی شاید انہی میں سے ایک ہو۔ مکمل طور پر شاید کبھی وہ بیان نہ کی جائے ؎ 
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی 
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے 
کل شب جنرل اپنی پسند کے کالم بروقت نہ پڑھ سکا۔ اس وقت وہ ملاقاتیوں کے ساتھ مصروف تھا۔ ان میں سے دو تین کے سوا سب کا تعلق روزنامہ ''دنیا‘‘ سے واقع ہوا ہے۔ ان کا سب سے پسندیدہ صحافی البتہ رحیم اللہ یوسف زئی ہے ۔ اچانک انہوں نے سوال کیا: اندازہ لگائیے ،کب سے میں انہیں جانتا ہوں ۔ایسی کسی چیز پر قیاس آرائی کا فائدہ کیا، جس میں حتمی نتیجہ اخذ نہ کیا جا سکتا ہو۔''اندازہ لگائیے‘‘ ایک بار پھر انہوں نے کہا اور میں خاموش رہا۔ 
ہمیشہ کی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ جنرل اشفاق پرویز کیانی بولے‘ ''انچاس برس سے۔ 1965ء سے، جب ہم ملٹری کالج جہلم میں پڑھا کرتے تھے‘‘۔ حیرت سے میں نے سوچا: اگر یہ آدمی اپنی روداد لکھ ڈالے توچھوٹی بڑی کتنی ہی کہانیاں منظرِ عام پر آئیں، مدّتوں جن کے ذکر سے زمانہ گونجتا رہے ۔ رکاوٹ بھی یہی ہے ۔ وہ عافیت پسند آدمی ہیں۔ بغداد کا صوفی یاد آتا ہے، جس نے کہا تھا: 
عافیت گمنامی میں ہوتی ہے 
گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں 
تنہائی نہیں تو خاموشی میں... اور 
خاموشی نہیں تو صحبتِ سعیدمیں۔
جنرل صاحب کی صحبتِ سعید جنرل عبد الوحید کاکڑ ایسے لوگ ہیں ۔ وہ آدمی ، امریکیوں نے جس سے چاہا تھا کہ چاہے تو وہ اقتدار سنبھال لے۔ منصوبہ بندی اور عمل درآمد تو کجا، سرے سے اس نے مگر سنی ان سنی کر دی۔ زیادہ دلکش رفاقت اڑھائی سالہ پوتے کی ہے ، جس کی کئی تصویریں ان کی لائبریری میں آویزاں ہیں۔ اکلوتے فرزند سروش کا صاحبزادہ۔ ''دو اڑھائی گھنٹے میں اس کے ساتھ گزارتا ہوں‘‘ انہوں نے کہا اور مجھے وہ بھارتی ارب پتی یاد آیا، جس نے کہا تھا "If there had been a choice, I would have grand children only"
والدِ گرامی کے برعکس اکلوتے صاحبزادے سروش کیانی کے لیے یہ آرام کا وقت تھا؛چنانچہ دو وقفوں میں، زیادہ سے زیادہ 40منٹ ہی وہ گفتگو میں شریک رہا، جو پانچ گھنٹے جاری رہی؛ حتیٰ کہ تہجد پڑھنے والے اپنی عبادت سے فارغ ہو چکے ۔ ان عبادت گزاروں میں سے ایک کے لیے ، جو میرے اور ان کے مشترکہ مہربان ہیں ، انہوں نے ایک پیغام دیا : لندن جانا ضروری نہیں ۔ اس سے قبل وہ راولپنڈی کے فلاں معالج سے بات کر لیں۔ پیغام پہلے ہی پہنچا یا جا چکا تھا۔ دو دن قبل انہوں نے اس پر ایک واضح دلیل دی تھی۔ 
رحیم اللہ یوسف زئی کی جنرل نے اس قدر تعریف کی کہ اگر میں ان سے واقف نہ ہوتا تو تعجب کرتا۔ ''بے حد نفیس آدمی‘‘ کئی بار انہوں نے کہا۔ جی ہاں ، مگر وہ ان کے تنہا محبوب قلمکار نہیں ۔ چار پانچ اور بھی ہیں ۔ خالد مسعود خان، طلعت حسین ، اظہار الحق اور حیرتوں کی حیرت یہ کہ بلال الرشید بھی ، جو انہیں انکل کہتا اور ایسے سوالات کرتا ہے ، جس کے جواب میں جنرل ہمیشہ ہنس پڑتاہے ۔ اب کی بار اس کا استفسار یہ تھا ''وہ پانچ آدمی کون ہیں؟‘‘ جنرل نے ایک ذرا سا قہقہہ لگایا اور کہا ''غلط یا صحیح، بچّے بچّے کی زبان پر ان کا نام ہے ۔ آپ مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں؟‘‘ 
خالد مسعود خان کو وہ کم کم پڑھا کرتے ۔ گزشتہ ملاقات میں ، جو چار ماہ قبل ہوئی ، میں نے ان سے کہا: آپ کو اسے باقاعدگی سے پڑھنا چاہیے۔ ممکن ہے سیاسی حرکیات کے ادراک میں کبھی وہ غلطی بھی کرتا ہو ، غلط بیانی مگر کبھی نہیں ۔ پھر سوال کیا: کیا آپ اظہار الحق کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ ان کا جواب نفی میں تھا ۔ میں نے کہا : وہ سب سے زیادہ خوبصورت زبان لکھنے والوں میں سے ایک ہے ۔ بلا کا شاعر، ادیب، تاریخ اور دینیات کاایک کہنہ مشق طالبِ علم۔قاری اس سے بے نیاز کیسے ہو سکتا ہے ۔ کمال بشاشت سے انہوں نے بتایا کہ اب وہ پابندی کے ساتھ شاعر کی نثر پڑھا کرتے ہیں ۔ ان کے بارے میں ناچیز کی رائے سے اتفاق بھی کیا۔ نامور شاعر افتخار عارف کے علاوہ کچھ اور اہلِ قلم کا تذکرہ بھی رہا۔ ہمیشہ کی طرح ان کے مثبت پہلوئوں پر جنرل کا زور زیادہ تھا۔ اگر کسی کاکوئی منفی پہلو تھا تو کم ہی اس پر بات کی۔ رئوف کلاسرا پر البتہ انہوں نے سیر حاصل گفتگو کی۔ گزشتہ ملاقاتوں کی طرح اس کے سب محاسن کا حوالہ دیا لیکن پھر دو واقعات کی نشان دہی کی، جن میں ان کے مطابق برق رفتار آدمی سہو کا شکار ہوا تھا۔ جنر ل صاحب کو مشورہ دیا کہ سیاسی حرکیات کے شناور طلعت حسین کے علاوہ نصرت جاوید کو بھی پڑھا کریں‘ جو مقبولیت کی پروا نہیں کرتا۔ افتخار عارف کو آج انہوں نے معمول سے بڑھ کر یاد کیا۔ پوچھا: کیاوہ ایران سے لوٹ آئے ہیں؟ میرا تاثر یہ تھا کہ افتخار عارف واپس آنا پسند نہ کریں گے ۔ تہران کی لطافت اور شائستگی اس لکھنوی کو سازگار ہے۔ ''جی نہیں‘‘ جنرل نے کہا: وہ اپنے وطن کو یاد کرتے اور لوٹ آنے کے آرزومند ہیں ۔ ان سے میری بات ہوئی تھی... بالمشافہ!
بحیثیتِ مجموعی بھی میڈیا کا کردار زیرِ بحث آیا۔ آغاز ہی میں ، انہوں نے کہہ دیا تھا: آج میں سننے کے موڈ میں ہوں ۔ اکثر یہی ہوتاہے مگر آج کچھ زیادہ ۔ پچیس تیس منٹ تک اس موضوع پر ملاقاتی نے اپناموقف بیان کیا۔ اس پر جنرل کو وہ واقعہ یاد آیا، جب دو ممتاز اخبار نویسوں نے اس سوال سے بحث کی تھی کہ صحافت کو آزادی سے ہمکنار کرنے میں صحافیوں کی جدوجہد کا عمل دخل کتنا ہے اور جنرل مشرف کے از خود فیصلے کا کس قدر؟ مزے لے لے کر انہوں نے انگریزی کے ساحر ایاز امیر کا جملہ دہرایا ''ہر روز کم از کم ایک بار ہمیں جنرل کو سلیوٹ کرنا چاہیے‘‘ ذاتی رائے سے جنرل نے زیادہ تر گریز ہی کیا؛اگرچہ میری بعض معروضات سے انہیں اتفاق تھا۔ ایک دلچسپ انکشاف یہ تھا کہ جنرل صاحب پاکستان کے کسی بھی قاری سے پہلے اخباری تحریروں کا مطالعہ کر چکے ہوتے ہیں... صبح سویرے‘ لیپ ٹاپ پر۔ 
روزنامہ دنیا کی ویب سائٹ کو انہوں نے سراہا اور ایک سے زیادہ بار۔ ایک ایسے آدمی کی ستائش سے مسرّت ہوئی ، جو ریاکاری سے پاک ہے ۔ جس کامزاج یہ ہے کہ ناراض کبھی نہیں کرنا چاہتا مگر کسی کو خوش کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔
پوچھا: کیا ابھی تک ٹاک شوز سے پرہیز کے عہد پر وہ قائم ہیں؟ بتایا: اب خلاف ورزی کے وہ مرتکب ہوتے ہیں ، جب سے موجودہ بحران کا آغاز ہوا ہے ۔ پھر فوراً ہی اضافہ کیا: ابھی ابھی جس مذاکرے میں تم شریک تھے ، وہ میں نے سنا ہے ۔ غالباً اسی کی بنا پر آپ کو میرے ہاں پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔ 
اپنی لائبریری انہوں نے دکھائی اور پھر زیادہ وقت وہیں صرف ہوا۔ خاص طور پر بنائے گئے سموسے اور کباب منگوائے، جن میں گھی برائے نام تھا۔ سموسے کھانے سے ڈرے ہوئے ملاقاتی نے معذرت کر لی ، کباب کی البتہ دوسری بار بھی فرمائش کی۔ بہت بعد میں خیال آیا فیصلہ فقط اندیشے پر نہیں کرنا چاہیے۔ جنرل صاحب! انشاء اللہ سموسے اگلی بار۔ 
ابھی کچھ اور انکشافات باقی تھے ۔ مثلاً یہ کہ گھر کا نقشہ بنانے میں آرکی ٹیکٹ کا عمل دخل برائے نام رہا ۔ اسی طرح فرنیچر ڈیزائن کرنے میں بھی ۔ اس پر تعجب کا اظہار کیا تو بتایا کہ وہ ڈرائنگ کے طالب علم ہیں اور اشارہ کیا کہ اس میں انہوں نے جی لگایا ہے۔ مکان کی سب سے بڑی خصوصیت رنگوں کاانتخاب ہے ۔ سفید کے سوا، دوسرا کوئی رنگ جہاں کہیں لگا بھی ہے، صاف نظر آیا کہ تنوّع سے سفیدی کو اور زیادہ اُجالنے کے لیے۔ 
ہر آدمی کی ایک کہانی ہوتی ہے ۔ ہر کہانی لکھی جا سکتی ہے ۔ شرط یہ ہے کہ وہ جی کو جا لگے ۔ جی میں آیا : ایک عدد ناول اس زندگی پر لکھا جا سکتاہے ۔ پھر دوسرا خیال ، فکشن کی اپنی جمالیات ہوتی ہے۔ رنگ آمیزی کے بغیر افسانہ دلکش نہیں ہوتا۔ 
رنگ آمیزی ؟منطق اور دلیل کے ا س حقیقت پسند آدمی کو اسی سے چڑ ہے۔ سیاست سے بھی شاید اسی لیے کراہت رکھتا ہے۔ کتنی ہی داستانیں ان کہی رہ جاتی ہیں ۔ جنرل کی کہانی بھی شاید انہی میں سے ایک ہو۔ مکمل طور پر شاید کبھی وہ بیان نہ کی جائے ؎ 
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی 
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved