سب جگہ سکرپٹ کا ذکر ہورہا ہے۔ ہر کوئی سمجھنے سے قاصر ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری کے دھرنوں کا سکرپٹ کس نے لکھا ہے؟ اس ملک کی تاریخ کو غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ ہر دور میں ایسے ایسے سکرپٹ لکھے گئے ہیں کہ آج تک عوام کو سمجھ نہیں آئی ان کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔
سکندر مرزا کو پتہ نہ چلا کہ کب ان کا سکرپٹ لکھا گیا اور وہ زبردستی لندن کی فلائٹ پر بٹھا دیے گئے اور ناہید مرزا انتظار کرتی رہ گئی کہ شاید اچھے دنوں کا کوئی ساتھی ایئرپورٹ پر خداحافظ کہنے آئے گا‘ مگر کوئی نہ آیا کہ ڈوبتے سورج کو دیکھنے کا ہمارے ہاں رواج نہیں ہے۔
جنرل ایوب خان تاشقند معاہدے پر دستخط کرتے وقت تک نہ جان سکے کہ آخر بھٹو نے کس کے کہنے پر انہیں بھارت سے جنگ میں دھکیلا تھا۔ یا پھر یہ بھٹو کا اپنا سکرپٹ تھا کہ اس کو بنیاد بنا کر جنرل ایوب کو اقتدار سے نکلنے پر مجبور کیا جائے۔
بھٹو صاحب نے کبھی کسی کو نہ بتایا کہ وہ امریکی صدر نکسن اور ہنری کسنجر کو انٹرویو دینے کے بعد ہی پاکستان لوٹے تھے اور کلیرنس کے بعد ہی ملک ان کے حوالے کیا گیا۔ اس کے بدلے انہوں نے گوادر امریکیوں کو دینے کی کوشش کی تو امریکیوں نے انکار کردیا۔ اس سکرپٹ کا انکشاف بروس ریڈل نے اپنی حالیہ کتاب میں کیا ہے۔
جب امریکیوں نے دیکھا کہ بھٹو اب پر پرزے نکالنے لگ گیا ہے تو ایک اور سکرپٹ تیار کر کے جنرل ضیا کو دیا گیا جس نے کامیاب مذاکرات کے باوجود ملک میں مارشل لا لگایا۔ جنرل ضیا نے ایک اور سکرپٹ لکھا اور اعلیٰ عدلیہ کے حوالے کیا اور بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔
جنرل ضیا کو افغانستان کا سکرپٹ بچاگیا لیکن بھٹو کی طرح وہ بھی اپنے آقائوں سے پنگا لے بیٹھے اور پھر کسی اور نے ان کا سکرپٹ لکھ دیا۔ اور پھر ایک طویل داستان ہے کہ کیسے قیادتوں نے اپنے کٹھ پتلی صدر ایوان صدر میںبٹھا کر ایسے ایسے سکرپٹ لکھے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
بینظیر بھٹو کے لیے جو سکرپٹ لکھا گیا‘ وہ مختصر تھا۔ وہ خود بھی جلدی میں تھیں ۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے باپ نے امریکہ سے پنگا لے کر اپنا نقصان کیا تھا‘ چنانچہ وہی جماعت اسلامی اور مذہبی جماعتیں جن کو خوش کرنے کے لیے وہ امریکہ کے خلاف ہیرو بننے کی کوشش کررہے تھے ان کو پھانسی لگوانے میں پیش پیش تھیں اور انہوں نے جنرل اور امریکہ کے ساتھ مل کر ڈالرں کی بارش میں رقص کیا تھا؛ تاہم امریکی بھی انہیں اس سکرپٹ سے نہ بچاسکے جو جنرل بیگ اور غلام اسحاق لکھ چکے تھے۔
پاکستانی تاریخ کا بڑا سکرپٹ اس وقت لکھا گیا جب ایوان صدر میں غلام اسحاق خان کے کہنے پر ایک سیل کھولا گیا ۔ اس میں دو ریٹائرڈ بابوئوں کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ ہر صورت بینظیر بھٹو کا راستہ روکیں اور پھر ایجنسیوں نے یونس حبیب کے ساتھ مل کر چودہ کروڑ روپے اکٹھے کیے اور یہ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔کون کون سا معزز سیاستدان پیسے لینے والوں کی اس فہرست میں نہیں تھا جو سپریم کورٹ میں پیش کی گئی۔سب نے اس سکرپٹ پر کام کیا اور سب جیت گئے اور بینظیر بھٹو کو راستہ رک گیا ۔ آج تک اس سکرپٹ کے رائٹر جنرل حمید گل اس کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ انہوں نے آئی جے آئی بنوائی تھی۔
نواز شریف کو پہلی دفعہ ایسے سازشی سکرپٹ کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب انہیں غلام اسحاق خان نے راہ راست پر لانے کی کوشش کی ۔ نواز شریف ابھی تک نہیںجان سکے تھے کہ سکرپٹ کون لکھتے ہیں اور لکھ کر کون انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ وہ ایک دفعہ پھر بینظیر بھٹو کے خلاف سکرپٹ لکھوانے کی کوششوں میں جُت گئے۔ اب کی دفعہ سکرپٹ لغاری کو دیا گیا اور بینظیر حکومت کو نواز شریف سے ڈیل کے بعد برطرف کردیا گیا ۔
نوازشریف کو ایک اور سکرپٹ ملا اور لغاری کو گھربھیج دیا گیا کیونکہ سکرپٹ پر عمل کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا تھا۔ ان کا دل رکھنے کے لیے کہا گیا تھا کہ پریشان نہ ہوں انہیں دوبارہ وزیراعظم بنایا جائے گا اور وہ اسے سنجیدہ لے بیٹھے۔ یہی وجہ تھی موصوف 2002ء کی اسمبلی میں ایم این اے بن کر لوٹے کہ شاید چانس بن جائے۔ وہ بھول گئے کہ وہ سکرپٹ پانچ برس پرانا تھا۔ نئے تقاضوں میں نیا سکرپٹ چاہیے تھا۔
اس سے پہلے نواز شریف کو ایک اور سکرپٹ کا سامنا کرنا پڑا جب جنرل مشرف کو وہ برطرف کر بیٹھے اور برسوں بعد جنرل شاہد عزیز نے اس خفیہ سکرپٹ کا پردہ اپنی کتاب میں چاک کیا کہ کیسے سب کچھ پلان کیا گیا تھا کہ اگر نواز شریف نے جنرل مشرف کو برطرف کیا تو وہ ان کا کیا حشر کریں گے۔
نواز شریف کو احساس ہوا کہ واقعی اس ملک میں سکرپٹ کے بغیر چلنا اور سیاست کرنا مشکل کام ہے‘ لہٰذا انہوں نے جنرل مشرف سے اٹک قلعہ میں قید کے دوران خفیہ سکرپٹ پر مذاکرات شروع کیے۔ پرانے بیرونی دوستوں کو اس کام میں شامل کیا گیا۔ یہ سکرپٹ اتنا خفیہ تھا کہ ساتھ والی کوٹھڑی میں قید بے چارے غوث علی شاہ تک کو بھی پتہ نہ چلا کہ پرندہ اڑنے والا ہے۔ لندن میں برسوں بعد میں نے غوث علی شاہ کو ڈیوک اسٹریٹ پر واقع آفس میں، نوازشریف کے منہ پر گلہ کرتے خود سنا کہ میاں صاحب اتنا بھروسہ بھی نہ کیا اور کیا اتنے بڑے جہاز میں میرے لیے ایک سیٹ نہ تھی؟
بدلتے حالات میں بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کو امریکیوں نے ایک سکرپٹ لکھ کر دیا جس کی تفصیلات کونڈالیزا رائس نے اپنی کتاب میں کھل کر بیان کی ہیں۔ نواز شریف کو علم تھا کہ انہیں نیا سکرپٹ نہیں مل سکتا کیونکہ ان کے حصے کا سکرپٹ بل کلنٹن مارچ 2000ء میں پاکستان کے پانچ گھنٹے کے دورے میں جنرل مشرف کے حوالے کر گئے تھے اور کہا تھا کہ اسے پھانسی نہیں دینی۔ اس لیے جب بغیر سکرپٹ کے نواز شریف نے ستمبر 2007ء میں لندن سے اسلام آباد لوٹنے کی کوشش کی تو جنرل مشرف کے وزیرداخلہ آفتاب شیرپائو نے نواز لیگ کے ورکرز کا مار مار کر بھرکس نکال دیا اور خود نوازشریف کو ایئرپورٹ کے باتھ روم میں بند کرادیا اور پھر واپس سعودی عرب بھیج دیا؛ تاہم نوازشریف کو دوست ملک نے دوبارہ نیا سکرپٹ لے کر دیا اور کچھ دنوں بعد وہ بلٹ پروف گاڑیوں کے ساتھ لاہور اترے اور پروٹوکول ملا۔ یہ ہے پاکستان میں سکرپٹ کی طاقت ۔
اگرچہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں طے ہوا تھا کہ اب کی دفعہ سرونگ جنرل سے کوئی سیاستدان ملاقات نہیں کرے گا؛ تاہم نواز شریف کو سات برس جلاوطنی کے بعد نئے سرے سے سکرپٹ کی ضرورت تھی اور یوں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان رات گئے خفیہ ملاقاتوںکے کئی نتائج نکلے۔ کچھ مقاصد کے تحت پیپلز پارٹی کو کمزور کر
کے رکھنا طے پایا تھااور یوں پیپلز پارٹی کے لیے ایک کے بعد ایک بحران پیدا ہوتا چلا گیا اور سب سے بڑا سکرپٹ اس وقت لکھا گیا جب میمو سکینڈل کو سامنے لایا گیا ۔ یہ واحد سکینڈل تھا جس کا ایک کاغذ کا پرزہ تک ریکارڈ پر نہیں تھا ۔ تاہم جنہوں نے سکرپٹ لکھا تھا انہوں نے نوازشریف اور شہباز شریف کو سپریم کورٹ بھیجا کہ جائیں اور افتخار چوہدری سے میمو کمشن بنوائیں اور دونوں نے سکرپٹ کے مطابق ہی عدالت میں جاکر اپنے دوستوں کو خوش کیا اور کمشن بن گیا۔ عمران خان کے پاس بھی میمو سکینڈل کا سکرپٹ تھا اور یوں تینوں نواز شریف، شہباز شریف اور عمران خان مل کر ایک تحریر کردہ سکرپٹ پر کام کررہے تھے اورجب مقصد حل ہوگیا تو پھر کسی کو یاد نہ رہا کہ میمو اورمیمو کمشن کہاں گیا۔ اب فیصلہ کرنا تھا عمران خان اور نواز شریف میں سے کس کو سکرپٹ پر عمل کرنے کا انعام دیا جائے تو جنرل کیانی کا کام اس وقت آسان ہوگیا جب عمران خان نے نادانی میں کہہ دیا کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو ڈرون گرائیں گے۔ سمجھا گیا کہ یہ تو نیا ملا عمر اور صدام پیدا ہوگیا‘ یوں قرعہ فال نواز شریف کے نام نکلا۔
عمران کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا اور وہ کھل کر جنرل کیانی کا نام لیتے ہیں کہ اسے استعمال کر کے نواز شریف کو وزیراعظم بنادیا گیا اور اب وہ ہر شے گرانے پر تل گئے ہیں؛ تاہم سوال یہ ہے کہ اب اگر عمران خان اور طاہرالقادری کو سکرپٹ دے کر اسلام آباد بھیجا گیا ہے تو پھر نواز شریف کیوں گلہ کرتے ہیں ؟
نواز شریف، شہباز شریف، چوہدری نثار سے بہتر کون جانتا ہے کہ ایسے سکرپٹ کون، کیوں اور کب لکھتا ہے اور اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ دیکھیں ناں یہ تو زیادتی ہے کہ وہ جنرل پاشا کا تحریر کردہ سکرپٹ لے کر سپریم کورٹ جا کر میمو کمشن بنوائیں تو قومی خدمت اور اگر عمران خان اور ڈاکٹر قادری کو سکرپٹ ملے تو غداری؟
کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں!