ایک عام آدمی فلک شگاف آواز میں ''امریکہ مردہ باد‘‘کا نعرہ لگا سکتاہے ۔ سول اور فوج میں جن لوگوں کو اختیارات ملتے ہیں ، رفتہ رفتہ انہیں زمینی حقائق معلوم ہوتے اور ساتھ ہی اپنے پائوں میں بیڑیاں نظر آتی ہیں۔ تیسری دنیا کے ایک غریب ملک کے باسی ، جن کے پڑوس میں عالمی اسٹیبلشمنٹ حملہ آور ہوتی اورپھر غلطیوں پہ غلطیاں کرتی چلی جاتی ہے ‘اپنی حماقتوں کاملبہ وہ اپنے کمزور اتحادی پر ڈالنے میں ہچکچاتی کبھی نہیں ۔ اس کے جلو میں بلند آہنگ رکھنے والے عالمی نشریاتی ادارے ہوتے ہیں ، جو اقوامِ عالم کے سامنے آپ کو مجرم بناڈالنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔
حالات کا جبر اس کمزور ملک کے با اختیار لوگوں کو خون کے گھونٹ پینے پر مجبور کر دیتاہے ، بالخصوص ان کو، جو آزاد زندگی اور آزاد فیصلوں کے عادی ہوتے ہیں ۔ بالخصوص ان کو ،جو شروع ہی سے صاف ستھری زندگی جینے اور اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دینے کے عادی نہیں ہوتے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ کمزور بلکہ لڑکھڑاتی ہوئی معیشت والے یہ ممالک عام طور پر سیاسی عدم استحکام کا شکار رہتے ہیں۔ اقتدار کی جنگ میں متحارب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا لہو پینے کی آرزومند ہوتی ہیں۔ ایسے میں قوم وردی والوں کو امید بھری نظروں سے دیکھنے لگتی ہے ۔ وہ
انہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کو للکارتا ہوا دیکھنا چاہتی ہے ۔ جنرل صاحبان کی سوچ بچار کا تمام تر ہدف یہ ہوتاہے کہ 28ممالک پہ مشتمل دنیا کے طاقتور ترین عسکری اتحاد نیٹو کے ساتھ اپنے معاملات کس انداز میں آگے بڑھا ئے جائیں کہ قومی نقصان کم از کم ہو ۔ ایسے میں ملکی میڈیا میں ذاتی ایجنڈے پہ کام کرنے والے بعض افراد زخموں پہ نمک چھڑکنے لگتے ہیں ۔ایسے حالات میں کہ جب مشرقی سرحدوں کے بعد اب مغرب میں بھی بھارتی سول اور عسکری اثر ور سوخ اپنی انتہا پر ہے ، وہ طنزیہ انداز میں ''سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘کا ورد کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
ڈرون حملوں کی مثال لیجیے ۔ کوئی شک نہیں کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کی مرگ ہے لیکن گزرے برسوں میں ایک سفید جھوٹ بڑے تسلسل سے بولا جاتا رہا۔ یہ کہ ڈرون طیاروں کے زیادہ تر ہدف بے گناہ اور معصوم لوگ ہیں۔ حقیقت بالکل برعکس تھی ۔ ا س دوران انٹر نیٹ پر متحرک نوجوان پوری دنیا میں بمباری سے ہلاک ہونے والے بچوں اور عورتوں کی تصاویر ڈھونڈتے اور انہیں ڈرون حملہ کا شکار قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا پہ جاری کر دیتے ۔اب اسے کیا کہیں؟
شمالی وزیرستان آپریشن کی مثال لیجیے ۔ سو فیصد یہ ملک و قوم کے مفاد میں تھا ۔ یہاں دہشت گردوں کی متوازی حکومت قائم تھی ۔ عام شہری کجا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی اس کا رخ نہ کر سکتے تھے ۔ یہ علاقہ افغان سرحد سے منسلک ہے ۔دونوں طرف سے جنگجو بلاروک ٹوک سرحد پار کرتے ۔ گزرے برسوں میں امریکیوں سمیت، عالمی برادری بار بار شمالی وزیرستان میں کارروائی کا مطالبہ کرتی رہی۔ میں حلفاً آپ سے یہ کہتا ہوں کہ ایک یا دو برس قبل اچانک وہاں آپریشن کیا جاتا تو دہشت گردوں کا جانی نقصان کئی گنا زیادہ ہوتا۔ سیاسی اشرافیہ اور با خبر صحافتی حلقوں کے ایک ایک فرد، حتیٰ کہ صرف اخبار ات پہ ذرا سی نگاہ رکھنے والوں کو بھی پہلے دن سے معلوم تھا کہ فوج کو ایک دن وہاں جانا ہوگا۔ اس کے باوجود پوری سیاسی قیادت ان مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں یرغمال بن کے رہ گئی ، جن کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں انہی جنگجوئوں سے جا کر ملتے ہیں ۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے ،وہ اس معاملے کو سمجھ ہی نہ پائے اور جہاں تک وزیراعظم نواز شریف کا تعلق ہے ، وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ کرنے کو تیار نہ تھے ، جس سے ان کی مقبولیت میں کمی اور کپتان کو فائدہ ہوتا۔
اگر ہمیں آگے بڑھنا اور حالات بدلنے ہیں تو سچ بولنا سیکھئے۔ سچ بولیے ، چاہے وہ کتنا ہی تکلیف دہ ہو ۔ سچ یہ ہے کہ آج ہم ایک مجبور قوم ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ سالانہ بجٹ کیلئے اگر تین سوروپے درکار ہیں تواپنے ذرائع سے ہم دو سو ہی جمع کر پاتے ہیں۔ باقی رقم کیلئے پھر قرض اور امداد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عالمی مالیاتی اداروں پہ انہی کی اجارہ داری ہے، جن کی افواج گزشتہ بار ہ برس سے ہمارے مغرب میں معرکہ زن ہیں۔
سچ بولیے ۔ اسی میں نجات ہے ۔سچ یہ ہے کہ حکمران خاندان کو کارِ حکومت کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کرنا ہے ۔سچ یہ ہے کہ نون لیگ اور بالخصوص تحریکِ انصاف سمیت، سبھی جماعتوں کے کارکن اپنے اپنے لیڈر کی غلط کاریوں اور غلط فیصلوں پہ احتجاج کجا، ہر صورت ان کے دفاع پر تلے رہتے ہیں ۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں اور صفِ اوّل کے لیڈروں کو کپتان سے یہ کہنا چاہیے کہ دہشت گردی کے بارے میں بالعموم اور شمالی وزیرستان آپریشن پر بالخصوص اس کا نقطہ نظر بالکل غلط تھا۔ قوم کو اس سے بے حد نقصان ہوا۔ جماعتِ اسلامی والوں کو اپنے امیر سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ تحریکِ انصاف اورڈاکٹر طاہر القادری کے لوگ جب معاہدہ توڑ کر ریڈ زون میں داخل ہوئے تو بطور ضامن انہوں نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ نون لیگ والے اپنے لیڈروں کو تجارت چھوڑ کر کل وقتی حکمران بننے کا مشورہ دیں ۔
پاکستانی سیاست ، پاکستانی معاشرے کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن سے نہیں سوچتے ۔ ہم سچ تلاش نہیں کرتے ؛ لہٰذا متعصب ہیں ۔ سوچیے اور بلند آہنگ سے بولیے ، اس سے پہلے کہ ہمارے تعصب ہمیں کھا جائیں۔