برطانوی افسر سر والٹرلارنس نے اپنی کتاب The Valley of Kashmir میں لکھا ہے کہ 1893ء میں سری نگر میںسیلاب آیا، تو مہاراجہ پرتاپ سنگھ کی حکومت کی ریاستی انتظامیہ بے خبری کی نیند سوئی رہی۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سانحہ سے آج تک کوئی سبق نہیں لیا گیا۔اس سانحہ کے ٹھیک 121 برس بعد وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی حکومت میں بھی صورت حال کم و بیش ویسی ہی ہے۔ موجودہ حکومت کا رویہ تاریخ میں ایسی کلاسیک مثال کے طور پر درج ہوگا کہ کس طرح ایک بے حس اور نااہل انتظامیہ مشکلات میں کئی گنا اضافہ کا سبب بن جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بارش شروع ہونے سے صر ف دو روز قبل عمر عبداللہ کی حکومت ریاست کو خشک سالی سے متاثرہ قراردینے کے لئے کابینہ کے لئے ایک نوٹ تیار کررہی تھی۔ دو ہفتے بعد ان کے وزراء، وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرکے سیلاب کی تباہ کاریوںسے نمٹنے کے لئے قومی راحت (ریلیف) فنڈ جاری کرنے کی اپیل کررہے ہیں۔ اُترکھنڈ کی طرح کشمیر میں سیلاب اچانک نہیں آئے یا بادلوں کے پھٹنے کا واقعہ یکدم پیش نہیں آیا۔ بارش کا سلسلہ یکم ستمبر سے شروع ہوا اور چند دنوں بعد جنوبی کشمیر میں بارش کا پانی بھرنے لگا۔ سری نگر میں یہ پانی سات ستمبر کو پہنچا۔ اس دوران لوگوں کو وہاں سے نکالنے یا محفوظ مقامات پر بندوں کو توڑنے کے لئے کافی وقت تھا۔ جس دن صورت حال پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت تھی اس روز ریاستی انتظامیہ‘ وزیراعظم نریندر مودی کا، جو صورت حال کا فضائی جائزہ لینے کے لئے آئے تھے، استقبال کرنے اور ان کی خاطرداری میں مصروف رہی۔
تکلیف د ہ بات یہ ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں بھی قوم پرستی کے نام پر کشمیریوں کو ان کی ''اوقات‘‘ بتانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی۔ کشمیریوں کے جانی اور مالی نقصان پر جس طرح ''اظہار طمانیت‘‘ کیا جارہا ہے وہ دلدوز ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارتی فوج کے جوانوں نے لوگوں کو بچانے میں شاندار او رقابل تعریف کام کیا۔ لیکن ان کے اس کارنامے کو ایک دوسرے ہی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مجھے ایک نیوز چینل سے فون ملا کہ وہ (چینل والے) چاہتے ہیں کہ فوج کے ذریعہ جے کے ایل ایف کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو بچانے کے Visual انہیں فراہم کروں۔ اسی طرح جموں و کشمیر انفارمیشن کے ایک سابق ڈائریکٹر نے مجھے میسج کیا کہ فوج نے ایک دیگرآزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کو بچا لیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یاسین ملک‘ مائسمہ میں اپنے گھر میں موجود تھے اور شہر کے مرکزی مقام لال چوک میں پھنسے ہوئے سیاح اور مزدور‘ صحافیوں کواس حقیقت سے روشناس کرارہے تھے کہ یہی وہ واحد شخص ہے جو پچھلے سات دنوں سے ہمیں بسکٹ اور پینے کا پانی فراہم کررہا ہے۔جہاں تک گیلانی صاحب کی بات ہے تو پانی ان کے گھر تک پہنچا ہی نہیں تھا، لہٰذا انہیں بچانے کی کسی کارروائی کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اگر ایسا ہوا بھی ہوتا تو کیا یہ فوج کی ذمہ داری نہیں۔ کیا جنیوا کنونشن کے تحت مصیبت کی گھڑی میں دشمنوں کو بھی راحت فراہم کرنے کی بات نہیں کہی گئی؟
جس روز سری نگر سیلاب میں ڈوب رہا تھا، وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کو پاکستانی (آزاد) کشمیر اور پاکستانی پنجاب میں راحت سرگرمیوں میں تعاون کی پیش کش کی ۔انہوں نے کہا کہ ''انہیں بتایا گیا ہے کہ کنٹرول لائن کے دوسری طرف بھی جان و مال کا یکساں نقصان ہوا ہے‘‘۔ مودی نے کہا کہ ''میرا دل متاثرین کے لئے غمزدہ ہے اور میری انتہائی ہمدردیاں ان کے اور ان کے گھر والوں کے ساتھ ہیں ۔ مصیبت کی اس گھڑی میں حکومت پاکستان کی طرف سے جو بھی راحتی اقدامات کئے جارہے ہیں‘ میں ان میںہر طرح کی مدد کی پیش کش کرتا ہوں۔ ہمارے تمام وسائل آپ کی ضرورت کے لئے موجود ہیں۔‘‘نریندر مودی کی اس پیش کش کے چند گھنٹے کے اندر ہی حکومت پاکستان نے بھی کہا کہ اسلام آباد بھی راحت اور بچائو کی کارروائی میں بھارت کی ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہے۔
گوکہ اس وقت ساری توجہ بچائو اور احت کی کارروائیوں پر مرکوز رہنی چاہئے تاہم یہاں یہ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ملک مل بیٹھ کر ماحولیات اور پانی سے متعلق اپنے مسائل حل کرلیں۔ جموں و کشمیر کو چھوڑ کر بھارت کی تمام ریاستوں میں سنٹرل واٹر کمیشن نے تمام ندیوں پر سیلاب کی مانیٹرنگ کا سسٹم نصب کررکھا ہے۔ چونکہ پاکستان کو جانے والی کشمیر کی تمام ندیوں کا بندوبست سند ھ آبی معاہدہ کے تحت ہوتا ہے اس لئے جموں و کشمیر‘ سنٹرل واٹر کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
جہلم میں پانی جمع کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے اور چناب میں بھی اس کا نظم کافی محدود ہے۔ پاکستان میں اس پانی کو آب پاشی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ غالباً اسی لئے سیلاب کی مانیٹرنگ کا میکانزم قائم کرنے یا ندیوںسے متعلق کسی دیگر امور میں سنٹرل واٹر کمیشن کو کوئی دلچسپی نہیں۔ 2010ء میں جب ریاستی حکومت نے سیلاب سے بچانے کے لئے 2200 کروڑ روپے کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس وقت مرکزی بیوروکریسی نے اسے حکم دیا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار کیوسک پانی سے سری نگر میں سیلاب آسکتا ہے۔قدرت کے بے رحم حالات نے بہرحال اس بات کو اب ثابت کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کی ندیوں میں پانی کا ذریعہ یعنی سندھ خطے کے تمام گلیشیئر، پگھل رہے ہیں اور دیگر ہمالیائی گلیشیئروں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک تیزی سے گھٹتے جارہے ہیں۔والٹر لارنس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ صرف بارش کی وجہ سے کشمیر میں سیلاب نہیں آسکتا تاوقتیکہ برف نہ پگھلنے لگے۔
ڈاکٹر نتیش سین گپتا نے 1996ء میں جو رپورٹ پیش کی تھی، سیاسی اسباب کی بنا پر اور مذہبی جذبات کو ہوا دینے کے لئے مرکزی حکومتیں اسے اب تک نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔مسٹر گپتانے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اگر خطے کے ماحولیاتی توازن کو درست اور محفوظ رکھنا ہے تو یاترائوں کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اترکھنڈ میں بی جے پی حکومت نے گنگوتری کے سلسلے میں ڈاکٹر سین گپتا کی رپورٹ کو نافذ کردیا ہے اور 2008ء میں ہی نوٹیفیکیشن جاری کرکے دریائے گنگا کے منبع گومکھ تک جانے کے لئے یاتریوں کی تعداد یومیہ 150تک محدود کردی۔ متعدد ممالک نے بھی پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی تعداد کو ریگولیٹ کررکھا ہے۔ بھارت کی قومی ماحولیاتی پالیسی میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی تعداد کو ریگولیٹ کیا جائے تاکہ پہاڑی علاقوں کے ماحولیات کو برقرار رکھا جاسکے۔کشمیر میں حالیہ برسوں میں جو ماحولیاتی تبدیلیاں آئی ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ تقریباََ تمام گلیشیئرز کی اونچائی میں بھاری کمی آگئی ہے۔پچاس سال قبل چناب کے طاس کا تقریباََ8000 مربع کلومیٹر کا علاقہ برف سے ڈھکا رہتا تھا وہ آج گھٹ کر صرف 4000 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پیرپنجال رینج میں تو شاید ہی کوئی گلیشیئر باقی بچا ہے۔
اس خطے میں بے گناہ لوگوں کے لئے دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ ہوسکتا ہے لیکن حالیہ سیلاب نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے اور کسی دوسرے خطرے کے مقابلے میں انسانی جانوں کا کہیں زیادہ زیاں ہوتا ہے۔ اس لئے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے اہم معاملے پر بھارت اور پاکستان کے سفارتی حلقوں میں خاطر خواہ دلچسپی کیوں نہیں لی جارہی۔ دونوں پڑوسیوں کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ سندھ طاس آبی معاہدہ سے آگے بڑھ کر کوئی پائیدار میکانزم وضع کریں تاکہ کنٹرول لائن کے دونوں طرف رہنے والوں کی جان و مال کو ایسی آفات سے بچایا جاسکے۔