تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     18-09-2014

شتر گربگی

اس لفظ کا مفہوم سمجھنے میں لغت نے میری اتنی مدد نہیں کی جتنی اہلِ سیاست اور رائے ساز خواتین و حضرات نے کی ہے۔ اس دوسرے طبقے کو ہم اہلِ دانش بھی کہتے ہیں، یہ خیال کیے بغیرکہ خود دانش اس نسبت سے کتنی پریشان ہے۔ 
جناب سراج الحق نواب زادہ نصراﷲ خان بننے چلے تھے مگر اپنی چال بھی بھول گئے۔ پیپلز پارٹی ایک تیر سے دو شکارکرنا چاہتی ہے۔ جناب الطاف حسین کے خطبات سنیے تو اس کے سوا کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوتا کہ ''کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔ جس پاکستان اور جس جمہوریت کا واویلا ہے، وہ ترجیحات میں تو ہے لیکن دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے۔ پروین شاکر برسوں پہلے نئی محبتوں کا چلن بتاچکیں ؎
عشق نے سیکھ لی ہے وقت کی تقسیم کہ اب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر 'کام‘ کے بعد
درپیش بحران میں اہلِ سیاست کا مؤقف کیا ہے؟ مذاکرات ؟ مذاکرات لائحہ عمل ہو سکتا ہے موقف نہیں۔ ایک فریق مذاکرات پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ عمران خان نے بغیر ابہام کے ارشاد فرمایا: مذاکراتی ٹیم جو کہتی رہے، میں استعفیٰ لیے بغیر نہیں جاؤںگا۔ اس کے بعد کون سے مذاکرات اور کیسے مذاکرات؟ مذاکرات کی دہائی دینے والوں نے جب حکومت اور انقلابیوں کوبرابر کے پلڑوں میں رکھا تو کیا انہوں نے تحریکِ انصاف کی ٹیم سے اپنے قائد کے ارشادات کی وضاحت مانگی؟ اور دیکھیے! ان ثالثی حضرات کی تنقید کا ہدف صرف حکومت ہے۔ انقلابیوں کا ہر فساد گوارا ہے لیکن حکومت انہیں روکے تو باعث ملامت۔ حکومت نے شر پھیلانے والوں کو گرفتار کیا تو سراج الحق صاحب نے فرمایا: اس سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچے گا۔ حکومت لوگوں کو فوراً رہا کرے۔ گویا موصوف کے خیال میں قانون کی پامالی سے مذاکرات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔یہ کیا موقف ہے؟ کبھی شتر کبھی گربہ!
پیپلز پارٹی کی بھی سن لیجیے! کراچی میں ایک ڈیڑھ سو اساتذہ جمع ہو ئے کہ ان کی ملازمت کو مستقل کیا جائے۔ مظاہرین بلاول ہاؤس کی طرف بڑھنے لگے۔ پولیس حرکت میں آئی۔ لاٹھی چارج، پانی، ہر مروجہ طریقہ اختیار کر کے انہیں منتشر کر دیا گیا۔ دوسری طرف اسلام آباد میں لوگ قومی املاک کو برباد کریں، آئین شکنی کریں تو کائرہ صاحب کے نزدیک یہ ان کا آئینی حق ہے۔ حکومت تین ہفتے صبر کے بعد انہیں روکنا چاہے تو واویلا کہ تشدد ہو گیا۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ آپ کی صوبائی حکومت کو اساتذہ جیسے مہذب مظاہرین چند گھنٹوں کے لیے گوارا نہیں اور وفاقی حکومت آئین شکنی کے خلاف متحرک ہوتو قابلِ اعتراض؟ اعتزاز احسن فرماتے ہیں کہ حکومتی وزرا نے اب بھی نہیں سیکھا۔پیپلز پارٹی نے جو سیکھا وہ ہم نے کراچی میں دیکھ لیا۔ موصوف نے پارلیمنٹ میں شدومدکے ساتھ عمران خان کا مقدمہ پیش کیا۔ ساتھ ہی ایوان کے تقدس کے گیت بھی گائے۔وہی کبھی شتر کبھی گربہ۔ 
اہل دانش کا وتیرہ بھی ایسا ہی ہے۔ شتر کی مذمت سے پہلے وہ گربہ کُشی کو لازم سمجھتے ہیں۔ بصورت کالم جب خطبے کا آغاز ہوتا ہے تو سارا زور ِقلم یہ ثابت کرنے پر صرف ہوتا ہے کہ یہ حکومت ہماری تاریخ کی بد ترین حکومت ہے۔ نااہل بھی ہے اور کرپٹ بھی۔ جب یہ مقدمہ مستحکم ہو جاتا ہے تو پھر عمران خان کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مستحکم مقدمے کے بعد تو یہ دوسرا مقدمہ پوری طرح غیر موثر ہوتا ہے۔ یہی صورت ٹی وی چینلز پر دکھائی دیتی ہے۔ میری طرح کا عامی اس شتر گربگی میں الجھ جاتا ہے۔ اگرکالم کاپہلا حصہ درست ہے تو یہی عمران خان بھی کہہ رہے ہیں۔ پھر دوسرے حصے کی افادیت کیا ہے؟ لائحہ عمل کی خرابی کیا اتنی بڑی برائی ہے کہ اس بنیادپر ان کے درست موقف کو بھی مسترد کردیا جائے؟
مجھے کوئی ابہام نہیں کہ اہل سیاست کی پہلی ترجیح آج بھی گروہی اور جماعتی مفاد ہے۔ وہ پہلے اس کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان، آئین اور جمہوریت دوسری ترجیح ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ سندھ میں مرکزی مداخلت بھی اسے پسند نہیں۔ پہلے کام کے لیے لازم ہے کہ تحریک انصاف برباد ہو۔ دوسرے مقصد کے لیے حکومت کا کمزور ہونا ضروری ہے تا کہ وہ اس کی حمایت کی محتاج ہو۔ ایک تیر سے دو شکار۔ ' شتر‘ کو نقصان پہنچانے کے لیے 'گربہ‘ کے ساتھ اور 'گربہ‘ سے دو ہاتھ کرنے کے لیے 'شتر‘ کے ساتھ۔ جماعت اسلامی سیاسی خلا میں اپنے لیے جگہ تلاش کر رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا متبادل اور مرکز میں ن لیگ کی امکانی انتخابی حلیف۔ یہ مقصد حاصل ہو جائے تو آئین اور جمہوریت پر بھی بات ہوسکتی ہے۔
رائے سازوں کو فی الجملہ ساکھ کے بحران کا سامنا ہے۔ ایک کالم دوسرے سے مختلف اور آج کی رائے ، کل کے موقف سے متصادم۔ لوگ اس شترگربگی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ پھر خبریں آتی ہیں کہ وزارت اطلاعات نے اتنے کروڑ تقسیم کر دیے۔ اس تاثر کی نفی کے لیے ضروری ہے کہ کالموں میں حکومت کو برا بھلا کہا جائے۔ عمران خان کے حق میںچونکہ کوئی دلیل موجود نہیں ، اس لیے اپنی دانش کی سلامتی کے لیے اس کی مذمت بھی لازم ہے۔ یہ کام پہلے بھی کیا گیا جب طالبان اور ریاست متصادم تھے۔اس وقت بھی توازن کی تلاش میں دونوں کو ایک سطح پر رکھا گیا۔ یہی کام جماعت اسلامی جیسی سیاسی جماعتوں نے کیا اور یہی کچھ کالم نگاروں نے کیا۔ ان کی غیر جانبداری معلوم نہیں ثابت ہوئی یا نہیں ہوئی، قوم مسلسل ابہام میں رہی۔ ان کی موجودہ روش کا حاصل بھی یہی ابہام ہے۔ اہلِ صحافت اپنی ذات پر کب اعتماد کریں گے؟ وہ دیانت داری کے 
ساتھ اپنی رائے دینے سے کیوں گریزاں ہیں؟کیا ہرصورت میںحکومت کی مخالفت ہی پاک دامنی کی دلیل ہے؟
آج ہم غیرمعمولی حالات سے گزر رہے ہیں۔قوم کوراہنمائی چاہیے کہ مثبت تبدیلی کیسے آئے گی؟آئین سے یا ماورائے آئین؟ جو یہ نہیں کر سکتا اسے رضاکارانہ طور پراس کام سے دست بردار ہو جانا چاہیے۔ موقف غلط ہونے میں برائی نہیں، مبہم ہونے میں خرابی ہے۔ آج جو لکھنے والے عمران خان اور طاہرالقادری کے حق میں ہیں وہ پوری طرح یک سو ہیں۔ وہ اپنے ہر کالم اور ہر موقف میں ان کے مقدمے کے حق میں دلائل تراشتے ہیں۔ کبھی عمران خان قادری صاحب کی برائی نہیں کرتے۔ اگر کرتے ہیں تو محض زیبِ داستاں کے لیے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ انہیں معصوم سمجھتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ ان کی خرابیوں کا اِس وقت تذکرہ ان کے موقف کو کمزور کر سکتا ہے۔ آج قوم کوانقلاب کے لیے یک سو ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کی خرابیوں کا تذکرہ بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ 
میرا کہنا یہ ہے کہ جو اہلِ سیاست یا اہلِ صحافت، یہ سمجھتے ہیں کہ عمران اور قادری صاحب کا مؤقف غیر آئینی اور کسی کے اشارے پر ہے، انہیں پوری یک سوئی کے ساتھ اپنی بات کہنی چاہیے۔ ان کے لیے مناسب یہی ہے کہ غیر جانبداری کا لبادہ کچھ وقت کے لیے اتار دیں۔وہ قوم کو یکسو کریں کہ تبدیلی کا ہر غیر آئینی راستہ پاکستان کی یک جہتی اور استحکام کے لیے خطرناک ہے۔ نواز شریف اور حکومت پر تنقید کے لیے بہت وقت پڑا ہے۔ اس باب میں حکومت کم فیاض نہیں۔ انہیں اکثر اس کا موقع دیتی رہے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved