ریلا سمندر میں گرنے تک سیلاب زدگان کے ساتھ رہوں گا... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ریلا سمندر میں گرنے تک سیلاب زدگان کے ساتھ رہوں گا‘‘ اور جو سندھ میں تو داخل ہو چکا ہے اور ایک دو روز میں سمندر میں جا گرے گا‘ اس کے بعد میری طرف سے معذرت ہے کیونکہ عدم توجہی کی وجہ سے میرا اب تک ذاتی نقصان بھی کافی ہو چکا ہے‘ البتہ جو لوگ سیلاب میں بہہ گئے ہیں وہ بھی ریلے کے ساتھ ساتھ ہی سمندر میں جا گریں گے کیونکہ یہ اُن کی قسمت میں لکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''مصیبت کی گھڑی میں سیلاب زدگان کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ جو پتہ نہیں آنا‘‘ فاناً کہاں سے آ گیا ہے اگرچہ کوئی ایک ڈیڑھ ماہ پہلے اس سے خبردار کردیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''میں اور شہباز شریف بحالی کے کاموں کی خود نگرانی کریں گے‘‘ جبکہ ہماری نگرانی دھرنے والے کر رہے ہیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''سیلاب زدگان کو گھر بنا کر دیں گے‘‘ جیسے کہ گزشتہ سیلاب متاثرین کو بنا کر دیے تھے‘ یہ اور بات ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور اس کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں اور مجبوری کے عالم میں بڑی سے بڑی غلطی بھی معاف ہو جاتی ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں خطاب کر رہے تھے۔
آخری متاثرہ شخص کی بحالی تک چین
سے نہیں بیٹھوں گا... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''آخری متاثرہ شخص کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھوں گا‘‘ چنانچہ اس آخری متاثرہ شخص کا جلد از جلد کھوج لگانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اسے بحال کر کے چین سے بیٹھ سکوں۔ اگرچہ دھرنے والوں نے الگ سے پریشان کر رکھا ہے جو اب کہتے ہیں کہ اگر شریف برادران اپنے اور اپنے بچوں کے اثاثے ڈکلیئر کردیں تو وہ دھرنا ختم کردیں گے لیکن کسی کا پردہ فاش کرنا بہت معیوب بات ہے اور ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ علاوہ ازیں ہمارے نزدیک اثاثے ہرگز کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ آخر سب کچھ یہیں پڑا رہ جائے گا یعنی کچھ ملک کے اندر اور زیادہ تر ملک کے باہر۔ انہوں نے کہا کہ '' اصلی پورا پنجاب پانی میں ڈوبا ہے‘‘ جس سے ہمیں باہر نکل کر لوگوں کے احوال جاننے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اربوں کی معیشت تباہ ہو گئی‘‘ جس سے ہمیں اپنے اربوں کھربوں کے اثاثے یاد آ گئے ہیں جو اللہ کے فضل سے بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور بڑھنے والی چیزوں کو کون روک سکتا ہے۔ آپ اگلے روز مظفر گڑھ اور اوچ شریف میں گفتگو کر رہے تھے۔
اصلی پٹھان ہوں اور اسلام آباد کی
حفاظت کرنے آیا ہوں... طاہر عالم
آئی جی اسلام آباد طاہر عالم نے کہا ہے کہ ''اصلی پٹھان ہوں
اور اسلام آباد کی حفاظت کرنے آیا ہوں‘‘ اسی لیے حملہ آوروں کو پکڑ پکڑ کر حوالاتوں اور جیلوں میں ٹھونس رہا ہوں اور ان میں جو زیادہ خطرناک ہیں‘ ان کا الگ بندوبست کیا جا رہا ہے کیونکہ اصلی پٹھان ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اسلام آباد کے اصلی دشمنوں کا قلع قمع کر سکوں۔ انہوں نے کہا کہ ''میرا نام طاہر عالم خان ہے اور مجھے میرے اصلی نام سے پکارا جائے‘‘ تاکہ مجھے خود بھی یاد رہے کہ میں اصلی پٹھان ہوں اور میرا اصل نام کیا ہے‘ کیونکہ دھرنے والوں نے ویسے بھی مت مار رکھی ہے اور یادداشت کمزور ہو کر رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' اصلی پولیس افسران مارنا جانتے ہیں‘ مار کھانا نہیں‘‘ جبکہ جونیجو صاحب نے مار کھا کر ثابت کردیا کہ وہ نہ خود اصلی ہیں اور نہ ان کا نام اصلی ہے بلکہ اس پھینٹی کے بعد انہیں اپنا موجودہ نام بھی تبدیل کر لینا چاہیے‘ پیشتر اس کے کہ ان کے ساتھ دوبارہ یہی سلوک کیا جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
رُستم نامیؔ کی ''لہٰذا‘‘
کہیں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں تبصرہ کرتا ہوں نہ کر سکتا ہوں کہ یہ سکہ بند نقادوں ہی کا کام ہے‘ چنانچہ عموماً میں بس اطلاع ہی دیتا ہوں کہ فلاں کتاب شائع ہو چکی ہے اور مجھے کیسی لگی ہے۔ علاوہ ازیں چونکہ یہ تحسین باہمی ہی کا معاشرہ ہے اس لیے اگر کسی کتاب کی تعریف نہ کروں تو صاحبِ کتاب یا اس کے دوستوں کے طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اس لیے تبصرے کے طلب گار حضرات کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ مجھے کتاب بھیجنے کا تکلف ہی نہ کیا کریں۔ کتاب چونکہ اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے‘ اس لیے بعض کتابیں پڑھ بھی نہیں سکتا۔ صرف سونگھنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔
خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ یہ کتاب پچھلے سال شائع ہوئی تھی اور مجھے موصول بھی ہو گئی تھی لیکن کتابوں کے انبار میں کہیں دبی رہی۔ رستم نامیؔ ملنگ آدمی ہے‘ اس نے بھی یاد نہ دلایا۔ بہرحال اس کے کچھ شعر دیکھیے:
اس پار وہ مجبور ہے، بے چین اِدھر ہم
دونوں کا ہے ٹوٹے ہوئے اک پُل پہ گزارہ
ایسے مٹتا نہیں احساس جوانی نامیؔ
ہم نے دیکھا ہے لپٹ کر درو دیوار کے ساتھ
مدت سے تیرے پائوں کی ٹھوکر نہیں لگی
اُکتا گیا ہے راہ کا پتھر پڑے پڑے
کسی سے پوچھ لیں گے راستہ ہم
ہمارے شہر میں اندھے بہت ہیں
آ کسی کام پر لگا مجھ کو
مری فرصت خراب کرنے آ
آ مجھے ٹھیک ٹھاک کرنے کو
درحقیقت خراب کرنے آ
ہم یہاں برباد ہیں اور تم وہاں آباد ہو
ہم اِدھر اچھی طرح ہیں، تم اُدھر اچھی طرح
زمین کم ہے یہاں، آسمان تھوڑا ہے
توقعات سے تیرا جہان تھوڑا ہے
اس چاند کی ضو کوچۂ جہاں تک نہیں آتی
کرتا ہوں فقط شام کے تارے پہ گزارہ
باقی‘ تو ٹھیک ٹھاک تھے حالات شہر میں
تھوڑا سا قتلِ عام زیادہ کیا گیا
میری تو کوئی بات سنی ہی نہیں گئی
مجھ سے مگر کلام زیادہ کیا گیا
کتاب سیوا پبلی کیشنز لاہور نے چھاپی ہے اور قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے۔
آج کا مطلع
اس کے سفر میں رختِ سفر دیکھنا نہیں
ہو خود بھی سامنے تو اُدھر دیکھنا نہیں