تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     19-09-2014

جمہوریت یا خاندانی حکومت؟

اگلے انتخابات میں سیاسی افق پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوگا جس کا نام بلاول زرداری ہے۔ وہ دو مرتبہ وزیر ِ اعظم منتخب ہونے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے جبکہ اس کے والد صاحب بطور صدر ِ پاکستان اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرچکے ہیں۔ کیا اس سے زیادہ متاثر کن سیاسی اثاثے کسی اور کے پاس ہوسکتے ہیں؟آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ اس نوجوان ، جو ایک مخصوص لہجے میں اردو بولتا ہے، کو سیاسی میدان میںکون چیلنج کرسکتا ہے۔ چونکہ اُنہوں نے انگلینڈ میں تعلیم حاصل کی ہے، اس لیے ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہونے کے علاوہ برطانوی پاسپورٹ بھی ہوگا۔ یو ای اے کا پاسپورٹ بھی یقینی طور پر ہوگا کیونکہ وہاں ان کا عالیشان گھرموجود ہے۔ سیاست میں کامیابی کا یقینی نسخہ۔ 
اس تمام وراثت کے باوجود یہ نوجوان پاکستانی سیاست کے اکھاڑے میں نووارد ہے ، تاہم یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان کے والد صاحب نہایت زیرک سیاست دان ہیں۔ بلاول صاحب نے تعلیم تو آکسفورڈ سے حاصل کی لیکن سیاسی دائو پیچ یقینا اپنے والد سے سیکھے ہیں ۔ بلاول جیسے ایک ہونہار نوجوان کو ایک چانس ضرور ملنا چاہیے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جب ان کے نام کے ساتھ بھٹو بھی ہے اور زرداری بھی اور اربوں روپوںکے اثاثے جیب میں تو کیا وہ لاڑکانہ سے رکن ِ پارلیمنٹ بننے پر ہی اکتفا کریں گے یا پھر وہ 2018ء کی پارلیمنٹ میںایک نئے وزیر ِ اعظم پاکستان کے طور پر داخل ہوںگے؟
ایوانِ وزیرِاعظم اور قصرِ صدارت اس وقت تک دو خاندانوں کی ملکیت ہی دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ بھٹو، زرداری اور نواز شریف۔ ہر دو میں سے کوئی نہ کوئی انتخابات میں اپنے پرستاروں کی حمایت سے حکومت سازی کرلیتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیںکہ ہماری جمہوریت ان دونوں خاندانوں کی باریوں کی اسیر ہو چکی لیکن جب لوگ انہیں ہی ووٹ دیتے ہیں تو پھر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ یہ حسنِ انتظام ملک میں جمہوریت کا بھر م قائم رکھے ہوئے ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ملک کے لیے بھی اچھا ہے؟
جب بھی ان دونوں خاندانوں میںسے کسی ایک کو حکومت سازی کا موقع ملتا ہے تو ان کے وفادار وں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ یہ بھی اچھا حسن ِ انتظام ہے کیونکہ نوے کی دہائی میں ہونے والے تجربات نے انہیں سکھا دیا کہ خود کو ایک طرف رکھیں اور اپنے وفاداروں کو آگے کریں کیونکہ ۔۔۔ ''الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا۔‘‘اگر ضیا دور کے بعد کے بیس سالوں پر نظر دوڑائی جائے تو آپ کو میری بات سمجھ میں آجائے گی۔ چاہے یہ پی پی پی کی حکومت ہو یا نواز شریف کی، چاہے یہ فاروق لغاری کی نگران حکومت ہو یا پرویز مشرف کی، نظام کو بہتر بنانے کے لیے افراد کو میرٹ کی بجائے وفاداری کی بنیاد پرچنا گیا تھا۔ چونکہ یہ لوگ حکمرانوںکے کسی نہ کسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے آئے تھے، اس لیے ان سے عوام کی فلاح کی توقع کرنا دیوانے کا خواب تھا۔ اگر کسی کو اس پر شک ہو تو وہ اُس دور کی میڈیا رپورٹ پڑھ لے۔ تاہم ا ب ماضی کو کھنگالنے کا کوئی فائدہ نہیں، میرا سوال یہ ہے کہ کیا 2018ء میں بھی یہی تاریخ دہرائی جائے گی اور ان دونوں میں سے کوئی ایک اپنی چوتھی اننگز کھیلنے جارہا ہے؟اگرچہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل ہے لیکن اس میں وہ شفافیت عنقا ہے جو اہل اور باصلاحیت افراد کو آگے لا سکے۔ اس لیے ان خاندانوں کو چھوڑ کر، جمہوریت اور ملک کا مستقبل تابناک نہیں دکھائی دے رہا ۔
اس وقت وزیراعظم نواز شریف کی حکومت پر غور کریں۔ یہ جمہوریت نہیں‘ ایک خاندان کی حکومت ہے۔ خاندان کا شاید ہی کوئی فرد ہوگا جو حکومت سے باہر ہو۔ اتنا خاندانی اتفاق و اتحاد چشمِ فلک نے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ پنجاب کے روایتی خاندانوں میں کچھ ''شریک ‘‘ ہوتے ہیں(ایسے افراد جو خاندان سے ہوں لیکن ان کی رقابت ہو) لیکن افسوس، اس دانا خاندان میں ایسا کچھ نہیں۔ وزیر ِ اعظم کے برادرِ خورد، بہنوئی، بیٹی کے داماد، بیٹی، بھتیجا، کزن اور دیگر احباب و رشتہ دار سب مل کو حکومت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔تاریخ نے کبھی اس محاورے کا اتنا مستند عملی ثبوت نہیں دیکھا تھا۔۔۔''اپنا اپنا ، غیر غیر۔‘‘عام پاکستانیوں کے ذہن میںیہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا پورے پاکستان میں ذہانت و فطانت صر ف ایک خاندان ہی کی میراث ہے؟ کیا باقی پاکستانی اس دسترخوان سے کچھ نہیں چکھ سکتے ؟ یا دوسرے لفظو ں میں، صرف اُس شخص کے سر پر ہی صلاحیت کا ہما بیٹھتا ہے جس کا وزیر ِ اعظم کے خاندان سے کوئی تعلق ہو؟عام پاکستانیوں کو وہ معتبر پرندہ گھاس بھی نہیں ڈالتا؟ گویا ہما بھی دیگر پاکستانیوں سے طوطا چشمی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ 
جہاں تک زرداری بھٹو خاندان کا تعلق ہے توعملی طور پر بھٹو نہیں بلکہ زرداری خاندان میدان میں ہے۔ یہ بات ماننے کی ہے کہ زرداری صاحب کی سیاسی دنیا بہت عجیب ہے۔ وہ ہمیشہ میڈیا کی نظر میں رہتے ہیں اور شاید وہ واحد پاکستانی سیاست دان ہیں جن سے بات کرتے ہوئے صحافی مرعوب ہوجاتے ہیں۔ ان کے ارد گرد مطلب پرست سیاست دان، نیم وفادار، آدھی بات بتانے والے اور ایجنسیوں کے پروردہ سازشی عناصر موجود رہتے ہیں لیکن زرداری صاحب ان سب سے کھیلنا جانتے ہیں۔۔۔ اور وہ بھی بدمزگی پیدا کیے بغیر۔ اب یہ والد صاحب اپنے بیٹے کو کچھ سکھا کر سیاسی میدان میں اتار رہے ہیں۔ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ نوجوان کے سامنے وہ ملک ہے جس پر بدعنوانی، اقربا پروری، چوربازاری اور سرکاری وسائل کی لوٹ مار نے سیاسی پوشاک پہن کر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ اس میں سیاسی حلیف بھی ہوتے ہیں اور لوٹے بھی، اس میدان میں بال ٹمپرنگ بھی ہوتی ہے اور سپاٹ فکسنگ بھی ۔ اور کبھی کبھار تو کھلاڑی میچ کھیلنے کے لیے اپنااپنا امپائر ساتھ لاتے ہیں(کم از کم تاثر یہی دیا جاتا ہے)۔ یہاں پارلیمنٹ پر چڑھائی بھی کی جاتی ہے اور اسے اپنا سیاسی قبلہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں ملازمتیں ہی نہیں وزارتیں بھی بکتی ہیں۔ یہاں اہم اداروں کے سربراہ لینڈمافیا میں بھی اپنا حصہ رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ سوچتے ہوئے نوجوان بلاول سے ہمدردی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے، تاہم پھر خیال آتا ہے کہ کوئی نہیں، خیر ہے،ان کے والد صاحب ہیں نا۔ 
کیا میرے تخیل کی غلطی ہے کہ میں بلاول بھٹو زرداری کواگلا وزیر ِ اعظم دیکھ رہی ہوں؟پھر خیال آتا ہے کہ اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟ اگر ان کی والدہ ہماری تاریخ کی سب سے کم عمر وزیر ِ اعظم بن سکتی ہیںتو بیٹا کیوں نہیں؟چلیں 2018ء تو بلاول کے نام رہا لیکن 2023ء کے بارے میں کیا خیال ہے؟ پھر نواز شریف خاندان؟مریم نواز کے وزیر ِ اعظم بننے میں بظاہر کوئی قباحت دکھائی دیتی ہے نہ رکاوٹ۔ تو پھر بسم اﷲ‘ اگلے کئی سالوں تک کا پروگرام پکا ۔ اتنا صاف راستہ شاید ہی کسی اور ملک کی جمہوریت کے سامنے ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران بنے بنائے ہیں۔ اُنہیں حکومت میں آنے سے پہلے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہوئے حکومتی امور ازبر ہوجاتے ہیں۔ یہ سوچ کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کہ فطرت ہم پر کس قدرمہربان ہے۔ پہلے تو آمر لوگ جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیتے تھے۔ اب جب اس کا سلسلہ چل نکلا ہے تو اندازہ ہوا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کس قدرپختہ روایات رکھتی ہے۔ مجال ہے کوئی اس میں رخنہ ڈال سکے ۔ لیکن ٹھہریں،یہ عمران اور قادری کو تو اسلام آبادسے اٹھائیںکہ کہیں ایسا نہ ہو‘ یہ ایک تیسری قوت بن کر جمہوریت کا سارا مزہ کرکرا کردیں۔ ہمارے ہاں پہلے تو شک ہوتا تھا کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ اب الحمدﷲ یہ شک تو رفع ہوچکا ، اب بس یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ان دونوں میںسے کس کی حکومت بنے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved