چلیں مان لیتے ہیں‘ رحمن ملک درست فرماتے ہیں۔ فلائٹ لیٹ تھی ۔وہ گھر سے لیٹ ہی روانہ ہوئے۔ جہاز کو جو دیر ہوئی‘ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا ۔ ایم این اے رمیش کمار بھی درست فرماتے ہوں گے کہ وہ تو لائونج میں انتظار کررہے تھے کہ انہیں کب اطلاع دی جائے جہاز روانہ ہونے والا ہے‘ لہٰذا ان کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔
پھر عوام کیوں بپھر گئے؟ ہمارے حکمرانوں کو دیوار پر لکھا کیوں نظر نہیں آتا؟ وہ سمجھتے ہیں ابھی بھی کچھ نہیں بدلا؟ عمران خان کے ساتھ چند چھوکرے اور چھوکریاں ہیں جو شام کو گپ شپ کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں اور نعرے اور رقص کرنے کے بعد کسی کامیڈی فلم کی طرح سب ہیپی اینڈنگ دیکھ کر خوش خوش گھر لوٹ جاتے ہیں ۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئوں کا خیال ہے کہ سب کچھ پرانا ہے۔ وہی پرانے لیڈر اور وہی پرانے عوام ۔
دو ہفتے سے قومی اسمبلی میں تقریروں کا قومی مقابلہ جاری ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک مقرر تقریر کے جوہر دکھا رہا ہے۔ سب غصے میں ہیں کہ ان کی بے حرمتی ہورہی ہے۔ ان کی شان میں گستاخی ہورہی ہے۔ ان کی تقریر کا دوسرا حصہ اپنے پارٹی لیڈروں کے بارے میں ہوتا ہے اور وہ اپنے لیڈر کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں اور ان کی ایسی ایسی خوبیاں گنواتے ہیں‘ جن کے بارے میں وہ لیڈر خود بھی نہیں جانتے۔ ان کی ''جمہوریت‘‘ اپنے لیڈر کی خوشامد سے شروع ہوکر خوشامد پر ختم ہوتی ہے۔ عوام سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کے خرچے پر چلنے والے اجلاس میں کیا گفتگو ہورہی ہے۔ روزانہ ایک ایم این اے اور سینیٹر کو پانچ ہزار روپے کے قریب الائونس ماہانہ تنخواہ کے علاوہ مل رہا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ سیشن میں جو ایک ہفتے کی چھٹیاں کی گئی تھیں‘ ان کا الائونس بھی انہیں ملے گا ۔ چالیس ہزار روپے فی ایم این اے۔
یہ سب اپنا نقصان نہیں ہونے دیں گے اور رونا عوام کا روئیں گے۔
انہیں کیوں احساس نہیں ہورہا کہ دنیا بدل چکی ہے؟ پاکستان میں تبدیلی کی ہوا‘ ہو سکتا ہے‘ سیاسی طور پر نظر نہ آرہی ہو اور وہی پرانے چہرے اوپر سے نیچے تک ٹی وی پر نظر آتے ہوں لیکن عوام بہت کچھ جان گئے ہیں۔ اب میڈیا بھی عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتا جس کے بل بوتے پر کسی دور میں سب اچھا ہے کہ رپورٹ اُچھالی جاتی تھی۔
کب تک لیڈروں کی عظمت اور قربانیوں کی کہانیاں سنائی جاتی رہیں گی اور ہم سنتے رہیں گے ۔ کیا انہیں احساس ہے کہ نوجوان نسل ان سے نفرت کرنا شروع کرچکی ہے؟ اعتزاز اور نثار کے کرپشن کے ایک دوسرے پر الزامات پر بھی کمپرومائز عوام کے سامنے کھل کر کیے جاتے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کو بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ جناب‘ نفرت بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔
نیا نیا ٹی وی میڈیا آیا تو پہلے لوگ حیران ہوتے تھے کہ اچھے سیاستدان اور بیوروکریٹس یہ کام بھی کرتے ہیں ۔ پھر انہیں حیرت سے بڑھ کر رنج ہونے لگا‘ کیونکہ وہ یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ ان کے تنخواہ دار ملازم سیاستدان اس طرح کی کرپشن اور غلط کاریوں میں ملوث بھی ہوسکتے ہیں۔بارہ برس بعد اب رنج غصے میں بدل رہا ہے اور اس کا پہلا مظاہرہ ہم سب نے کراچی فلائٹ میں دیکھ لیا۔ یہ آغاز عشق ہے۔ میرا خیال تھا کہ رحمن ملک جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں کھڑے ہوں گے تو وہ ان وجوہ پر بھی روشنی ڈالیں گے‘ جن کی بدولت ان کو کسی نے جہاز میں داخل نہ ہونے دیا اور معاشرے میں یہ جو رجحان جنم لے رہا ہے‘ اس میں خود ان کا اور ان کے ساتھیوں کا کتنا قصور ہے۔ مان لیتے ہیں کہ عوام غلط ہیں‘ لیکن تحقیق تو ہونی چاہیے کہ سیاستدان ایسا کیا کر بیٹھے ہیں کہ لوگ ان سے نفرت کرنا شروع ہوگئے ہیں اور بات اب مار کٹائی پر آگئی ہے۔
کیا اس دن کسی ایم این اے یا سینیٹر کا فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ اٹھ کر بات کرتا کہ ہمارے ساتھ کیا پرابلم ہے۔ کیا بیس کروڑ عوام پاگل ہوگئے ہیں یا پھر ہم اپنی اوقات بھول گئے ہیں؟ کہ عوام سے ہر ماہ تنخواہ لیتے ہیں اور جیسے اپنے گھر یا دفتر کے ملازم کو تنخواہ دینے کے بعد ہر کوئی اس سے ایمانداری اور محنت کی توقع رکھتا ہے، اسی طرح عوام سیاستدانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ جب انہیں دیگر مراعات کے علاوہ ہر ماہ تقریبا ایک لاکھ روپے تنخواہ اور الائونس ملتا ہے تو وہ عوام کی فلاح کے منصوبے کیوں نہ بنائیں اور اپنا فرض دیانتداری سے کیوں نہ ادا کریں؟
سیاستدان کہتے ہیں کہ وہ اگر کاروبار کرتے ہیں تو کون سا غلط کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کتنے سیاستدان اپنے گھر یا کارخانے کے کسی جنرل منیجر کو ایک لاکھ روپے ماہوار تنخواہ دے کر اسے یہ اجازت دیں گے کہ وہ اپنا ذاتی کاروباربھی کرے یا ان کا خانساماں کسی دوسرے گھر میں بھی کھانا پکا آئے۔ کیا کوئی سیاستدان اپنے جنرل منیجر کو ایک لاکھ روپے کا فراڈ کرنے دے گا؟ اور اگر اس نے فراڈ کیا تو کیا اسے معاف کردے گا؟ اور اگر معاف کر بھی دے تو کیا اسے نوکری پر رکھے گا؟ اور اگر نوکری پر رکھ بھی لیا تو کیا اس پر دوبارہ اعتماد کرے گا؟ اگر اعتماد کر بھی لے تو کیا اس کی دوبارہ عزت کرے گا؟
جب وہ خود اپنے فیکٹری اور گھر کے ملازم کو یہ سب رعایتیں نہیں دیتے جو وہ عوام سے مانگتے ہیں تو عوام ان پر کیوں اعتبار کریں یا ان کی عزت کریں‘ جب عوام کو علم بھی ہو کہ چینی کے کارخانے ہوں، ملیں ہوں، ایل پی جی، ٹیکسٹائل، دودھ ، دہی، انڈے، مرغی، ایئرلائن، جننگ فیکٹریاں، سی این جی پمپ سٹیشن، پٹرول پمپ یا پھر اب آئی پی پیز میں شیئرز ہوں، سب کچھ سیاستدانوں‘ ان کے اہل خاندان اور بچوں کا ہے اور جو بھی چیز بکتی ہے اس کا ریٹ وہ طے کرتے ہیں اور سارا منافع ان کی جیب میں جاتا ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ جب ایک ایم این اے اور سینیٹر ہر ماہ عوام سے ایک لاکھ روپے تنخواہ کے علاوہ بے شمار مراعات لیتا ہے تو پھر وہ کیسے اپنا ذاتی کاروبار کر رہا ہے؟ اگر وہ کاروبار کرتا ہے تو پھر وہ ہم سے تنخواہ کیوں لے رہا ہے؟ ہمارے خرچے پر اندرون اور بیرون ملک دورے کیسے کرتا ہے، ہمارے پیسوں پر وہ میڈیکل بل کیسے لیتا ہے، اسے وی آئی پی پروٹوکول کیسے ملتا ہے؟
جو ٹیکس دیتے ہیں‘ انہیں یہ سب کچھ کیوں نہیں ملتا ؟
میں سن رہا تھا ۔ سینیٹر مندوخیل جمہوریت کے حق میں رطب اللسان تھے۔ ہم سب بھی جمہوریت پسند ہیں‘ لیکن وہ اس وقت جمہوریت کو خطرے میں کیوں نہیں پاتے جب نواب رئیسانی کے دور میں وفاقی حکومت سے بلوچستان اسمبلی کے ہر ایم پی اے کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر پچیس کروڑ روپے ملتے ہیں‘ جس کا اصل مطلب یہ تھا کہ یہ آپ کا جیب خرچ ہے۔ کیا جمہوریت چلانے کے لیے ہر ایم پی اے کو بھتہ ہمیں اپنی جیب سے دینا ہوگا وگرنہ مارشل لاء کے لیے تیار رہیں؟ کیا اپنے لیڈروں کی شان میں قصیدے پڑھنے والے سیاستدان ہمیں بلیک میل کررہے ہیں کہ اگر جمہوریت چاہتے ہو تو پھر چپ چاپ گھر بیٹھو اور لوٹ مار ہونے دو‘ وگرنہ جمہوریت نہ رہی تو ملک بھی نہیں رہے گا؟
دوسری طرف سیاستدانوں کے بچے یہ کہتے ہیں کہ کاروبار اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جب کاروبار اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو پھر چوہدری نثار کو کہنا پڑتا ہے کہ اعتزاز احسن نے ساری عمر سیاست کو اپنے کاروبار کے لیے استعمال کیا ہے یا پھر چوہدری اعتزاز کو جواباً کہنا پڑتا ہے کہ چوہدری نثار کی سیاست پپو پٹواری چلاتا ہے...
جو سیاستدان کاروبار اور سیاست کرتے ہیں‘ ان کے لیے عرض ہے کہ بھارتی کے مایہ ناز صحافی کلدیپ نائر اپنی آٹوبائیوگرافی میں لکھتے ہیں کہ وہ 1990ء میں جب برطانیہ میں بھارت کے ہائی کمشنر بنے تو وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے ملے۔ وہ کچھ اداس سی لگ رہی تھیں۔ وجہ پوچھی تو بولیں کہ وہ اپنے پوتے پوتیوں کو مس کررہی ہیں۔ پوچھا‘ وہ کہاں ہیں تو وہ بولیں کہ وہ جب سے وزیراعظم بنی ہیں‘ اپنے بیٹے کو امریکہ بھیج دیا ہے کیونکہ وہ کاروبار کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتیں کہ اس کے کاروبار کی وجہ سے انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔ جب تک وہ وزیراعظم ہیں‘ ان کا بیٹا لندن میں کاروبار نہیں کر سکتا۔
میرے سیاستدان دوستو! عزت پارلیمنٹ میں اپنے لیڈروں کی شان میں قصیدے پڑھنے اور ایک دوسرے کی کرپشن پر پردہ ڈالنے سے نہیں ملے گی ۔ عزت، نروان اور محبت کی تلاش میں تو سدھارتھ شہزادے کی طرح گھر چھوڑنا پڑتا ہے، سات دریا اورجنگل عبور کرنے پڑتے ہیں، کسی برگد کے ہزاروں برس پرانے درخت کی چھائوں میں عمر گزارنی پڑتی ہے، بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے، گوتم بدھ کے بھکشوئوں کی طرح شہزادے ہوتے ہوئے بھی گائوں گائوں کشکول لے کر بھیک مانگنی پڑتی ہے... پھر شاید وہ محبت، نروان اور عزت مل جائے جس کی آپ کو آج کل پارلیمنٹ کے چمکتے دمکتے ایوان میں تلاش ہے۔ وہ عزت جو آپ بہت پہلے کھو چکے ہیں لیکن آپ کو پتہ اب چلا ہے!