تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     19-09-2014

جمہوریت اور قانون کی حکمرانی

اس وقت ملک میں جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی پر زوروشور سے بحث جاری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن مل کر پی ٹی آئی اور پاکستانی عوامی تحریک کے دہرے حملے کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہیں جبکہ ''حملہ آور‘‘ قوتوں کا الزام ہے کہ حکمران اور باریاں لینے والی اپوزیشن، دونوں بے دردی سے قومی دولت لوٹتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور آئین کا تحفظ کررہے ہیں جبکہ عمران اور ڈاکٹر قادری ان پرآئین اور قانون کی پامالی کا الزام لگار ہے ہیں۔ اس وقت ہماری سیاست انہی الزامات کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ 
پی ٹی آئی اورپاکستان عوامی تحریک کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر اراکین ِ پارلیمنٹ ٹیکس چور ہیں جبکہ پی ایم ایل (ن) کے میڈیا مین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے 82 فیصد ارکان ِ پارلیمنٹ، بشمول عمران خان، ٹیکس نادہندہ ہیں۔ ایف بی آر ، جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان الزامات کی تصدیق یا تردید کرے اور ٹیکس چوروں کے خلاف ضابطے کی کارروائی عمل میں لائے، سکوت کا مظہر ہے۔ ریاستی اداروں کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی وجہ سے آئین اور قانون کا نفاذ ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ سرکاری افسران ریاستی فرائض سرانجام دینے کی بجائے اپنے سیاسی آقائوں کی خدمت بجالاتے ہیں۔ چنانچہ یہ حیرانی کی بات نہیں کہ جمہوریت پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کا تصور مہمل ہے۔ دنیا کا کوئی ملک بھی جمہوریت کا دعویٰ نہیں کرسکتا اگر وہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو۔ پاکستان میں کئی عشروںسے ایسا ہی ہورہا ہے۔ 
چیئرمین ایف بی آر نے حال ہی میں تسلیم کیاتھا کہ کئی لاکھ افراد، جن پر ٹیکس ادا کرنا لازم ہے، ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ اُنھوں نے اعتراف کیا کہ پچیس لاکھ پرچون فروشوں میںسے صرف آٹھ ہزار سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یکے بعد دیگر قائم ہونے والی ہماری مختلف حکومتیں غریب عوام پر بھاری ٹیکس عائد کرکے دولت مند اور با اثر افراد کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ ٹیکس دہندگان کی رقم عیش وعشرت میں استعمال کی جاتی ہے۔ شہری اس بات پر سخت نالاں ہیں کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے اور دولت مند افراد کوٹیکس کے دائرے میں لانے کی بجائے ان پر مزید ٹیکسز کا بوجھ لادتی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی اور افراتفری بڑھ رہی ہے۔ 
قہریہ ہے کہ بھاری ٹیکسز عائد کرنے کے باوجود اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کے مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ مہنگائی اور افراط ِ زر سے غریب آدمی کی قوت ِ خرید دم توڑرہی ہے۔ 
درحقیقت ہمیں ٹیکس کے موجودہ نظام کو مکمل طور پر بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سابق وائس چانسلر اور پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق لکھتے ہیں۔۔۔''ریاست پر لازم ہے کہ وہ پہلے سماجی سہولیات، جیسا کہ قانون کی حکمرانی اور جان ومال کا تحفظ فراہم کرے۔ یہ طاقت ور افراد کو دولت کا ڈھیرلگانے سے روکے۔ بااثر افرادعام طور پر ان ذرائع سے مال کماتے ہیں۔۔۔ ریاست کی طرف سے دی جانے والی امدادی قیمت، لائسنس اور ریگولیشن، افسران کو عطا کردہ خصوصی مراعات، سرکاری اور فوجی افسران میں زمین کی تقسیم(یہ زمین غریب آدمی سے حاصل کی جاتی ہے)‘‘
انصاف کی فراہمی کی منزل حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ حکومت طاقت ور افراد پر بھاری ٹیکس عائد کرے اور سماجی اور معاشی ہمواری پیداکرنے کے لیے معاشی ترقی کے پروگرام شروع کرے۔ عوام کو صحت، تعلیم اور ہائوسنگ کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی مہربانی نہیں، بنیادی فرض ہے۔ جب ٹیکس کی ادائیگی کے فوائد واضح ہونا شروع ہوجائیںگے تو لوگ خود بخود ٹیکس ادا کرنے پر راضی ہو جائیںگے۔ حقائق پر نظر دوڑانے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ تمام ترسختی کے باوجود ایف بی آر ٹیکس جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس نافذ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اس کی شرح 2013-14ء میں کم ہوکر 8.2 فیصد رہ گئی جبکہ 2007-08ء میں یہ 9.2 فیصد تھی۔ اگرچہ 2013-14ء میں 2266 ارب روپے ٹیکس حاصل کیا گیا لیکن مالی خسارہ 1800 ارب روپے تھا۔ ا س سے پہلے 2009-10ء کے مالی سال کے دوران 1328 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کیے گئے لیکن اُس وقت خسارہ صرف 777 ارب روپے تھا۔ اب ہمارا کل قرضہ جی ڈی پی کا ستر فیصد ہے جبکہ قرضے اور سود کی قسط کی واپسی میں کل محصولات کا 79 فیصد صرف ہوجاتا ہے۔ 
اس عالم میں ہمارے رہنما جمہوریت کے گن گارہے ہیں جبکہ غریب افراد کے مصائب، ٹیکس چوروں کی چاندی اور سرکاری وسائل کی لوٹ کھسوٹ بلاروک ٹوک جاری ہے۔ ستم یہ ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کرکیا جارہا ہے۔ اشرافیہ طبقہ غریب افراد کے ٹیکس کی رقم پر پل کر مزید طاقت ور ہوتا جارہا ہے۔ دولت کے بل بوتے پر وہ حکمرانی قائم کرلیتے ہیں۔چونکہ بااثر افراد اپنے واجب محصولات ادا نہیں کرتے ، اس لیے حکومت کا خزانہ خالی رہتا ہے۔ اس کے علاوہ غیر پیداواری اخراجات پر بھی بھاری رقم ضائع کردی جاتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن، دونوںسے تعلق رکھنے والے اہم سیاست دانوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ِ ملک ہیں۔ وہ پاکستان میں معمولی ٹیکس ادا کرکے قوم پر احسان کرتے ہیں جو ان کے کل اثاثوںکے مقابلے میں مونگ پھلی کے چھلکے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ 
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا ہے کہ اگر جی ڈی پی کا سولہ فیصد ٹیکس ہو تو مزید قرضے لینے کی حاجت نہیں رہے گی۔ اسے مناسب فیصلوںسے پچیس فیصد تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ کیا چیئرمین موصوف قوم کو بتانا پسند کریںگے کہ سیاست دانوں کو مزید کتنی مہنگی گاڑیوں اور پرتعیش رہائش گاہوں کی ضرورت ہے؟کیا وہ یہ بتانا پسند کریںگے کتنے ڈاکٹر اور وکیل، جو ہوش ربا فیس وصول کرتے ہیں، اپنی دولت کے مطابق درست ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ایف بی آر ان ٹیکس چوروںکو قومی مجرم قرار دے کر ان سے آہنی ہاتھوںسے ٹیکس وصول کیوں نہیںکرتا؟ یادر رکھیں، ہماری جمہوریت کا دارومدار کسی دھرنے پر نہیں بلکہ اس حقیقت پر ہے کہ ایف بی آر دولت مند افراد سے ٹیکس وصول کرے تاکہ ریاست کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ عام آدمی کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکے۔ 
ٹیکس کی حاصل کردہ رقم بڑھانے کے لیے سنگل سٹیج سیلز ٹیکس کو سولہ فیصد کردیا جائے۔ اس سے غریب افراد کو فائدہ پہنچے گا ۔ ہر قسم کی ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی جائے۔ ٹیکس ادانہ کرنے والوں کی جائیداد ضبط کرلی جائے اور اس سلسلے میں کوئی سیاسی مصلحت آڑے نہ آنے دی جائے۔ اس وقت ملک میں 130 ملین موبائل فون صارفین ہیں۔ ان میں سے بیس لاکھ صارفین بھاری بل ادا کرتے ہیں۔ ان تک رسائی حاصل کرتے ہوئے ایف بی آر اضافی چھ ٹریلین روپے حاصل کرسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ کم ہوجائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاست ٹیکس وصول کرنے کے لیے اپنی عملداری کا احساس دلاتی ہے یا پھر سیاسی مصلحتوں کا شکارہوجاتی ہے۔ اگر ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنی ہیں تو قانون پر عمل درآمد ضروری ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved