وہ جو دھرنوں کی گنتی پر مامور ہیں‘ روزانہ ارباب اقتدار اور ان کی پارلیمانی ''اپوزیشن‘‘ کو خوشخبری سناتے ہیں کہ دھرنوں میں بیٹھنے والوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ تازہ گنتی میں‘ دھرنے میں بیٹھے خواتین و حضرات کی نفری سمٹ کر 5 ہزار رہ گئی تھی۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں 5ہزار ہی بتایا۔ کسی کو اس پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ اگلے چند روز میں تعداد گھٹتے گھٹتے 5ہزار کے بجائے 5 رہ جائے گی اور آخر میں بقول خود‘ عمران اکیلے رہ جائیں گے۔ اس کے بعد راوی کی مرضی ہو گی‘ وہ چین لکھے‘ جاپان لکھے یا ایران لکھے۔ حکومت مزے سے لمبی تان کر سوئے گی اور پارلیمنٹ کے سرکاری و نیم سرکاری اراکین‘ معہ وزرائے کرام‘ وزیراعظم کی شکل دیکھنے کو ترسا کریں گے۔ ہجر یوں بھی اہل مشرق کادیرینہ شوق ہے۔ جتنی خوبصورت شاعری ہجر پر کی گئی ہے‘ وصال پر نہیں ہوئی۔ کابینہ اور پارلیمنٹ نے قربت کے بہت دن گزار لئے۔ وہ افتادگان خاک‘ جن کی وجہ سے وزیراعظم ‘ پارلیمنٹ میں چند روز کے لئے‘ مسلسل جلوہ افروز ہوئے‘ وہ اپنے اپنے غم کدوں کی طرف لوٹ رہے ہیں اور وہ میدان ‘ جہاں شاہوں کی دھتکاری ہوئی مخلوق خدا‘ خیمہ زن تھی‘ چند روز میں اس شعر کی تفسیر بنے ہوں گے۔
آگ بجھی ہوئی ادھر‘ ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کاررواں
دارالحکومت میں اب کہانیاں رہ جائیں گی۔ان عوام کی کہانیاں‘ جو اپنے حکمرانوں کی بارگاہ میں زنجیرعدل ہلانے کی کوشش میں آئے تھے اور آہوں‘ آنسوئوں اور اپنے ہی خون میں تربتر واپس چلے گئے۔ اب حکومت ‘ شہر کے گرد‘ خوف و دہشت کی بلند فصیلیں کھڑی کر دے گی۔ دارالحکومت کو میلے کپڑوں‘ بدبودار پسینے اور بول براز سے ناپاک اور متعفن کرنے والے‘ گندے لوگوں کو اپنے شہر کے تاریک گلی محلوں اور جھونپڑ پٹیوں سے‘ نکلنے کی اجازت ہی نہیں دی جایا کرے گی۔ حکمران اپنی آنے والی نسلوں کو کہانیاں سنایا کریں گے کہ انسانی شکلوں میں‘ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ‘ صاف ستھرے اور خوبصورت دارالحکومت میں گھس آئے تھے۔ سارے حکمرانوں نے اکٹھے ہو کر‘ شہر کو ان کے ناپاک وجود سے بڑی مشکلوں کے بعد خالی کرایا اور پھر شہر کو دوبارہ اصلی حالت میں لانے کے لئے گلیوں اور بازاروں کی سڑکیں بار بار دھوئی گئیں۔ جو گھاس اور مٹی‘ ان کے خیموں کے قریب تھی‘ اسے دو دو فٹ کھدوا کر دور پہاڑوں میں پھینکا گیا اور پہاڑوں کی تازہ مٹی لا کر‘ اس جگہ پر بچھائی گئی۔ آج بھی ہمارے بڑے بوڑھوں کو‘ ان مناظر کے ڈرائونے خواب آتے ہیں۔ آئندہ کے لئے مستقل‘ محفوظ اور ناقابل شکست دفاعی انتظامات کر لئے گئے ہیں۔ وہ حقیر مخلوق‘ آئندہ راجدھانی کے قریب نہیں پھٹک پائے گی۔
بے شک ایسا ہی ہو گا۔ نصف صدی سے بنے ہوئے‘ اس شفاف دارالحکومت کو گندے اور میلے ہاتھوں نے کبھی چھونے کی جرأت نہیں کی۔ جب پاکستان ایک تھا‘تو گندے بنگالی بھی ہماری مملکت میں شامل تھے۔ وہ اسلام آباد میں آ کر‘ یہاں کی شاندار سڑکوں‘ پلوں ‘ حکمرانوں کے تابندہ چہروں‘ چمکتی کاروں اور جدید طرزتعمیر کی شاہکار عمارتوں‘ جو دور سے کیک پیسٹریاں نظر آتی ہیں‘ کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتے تھے۔ ہم نے ہمیشہ کے لئے ان کا بندوبست کر لیا۔ جتنے بنگالی یہاں گھس چکے تھے‘ سب کو بھگا دیا۔ ان کے بعد گندے لوگوں نے‘ کبھی اس شہر شفاف کی طرف نہیں دیکھا۔ ایک بار گندے لوگوںنے‘ اس شہر میں ڈیرے ڈال کے‘ جو غلاظت پھیلائی تھی‘ انہیں بھی ہم نے آنسو گیس‘ لاٹھیوں اور گولیوں سے اسی طرح مار بھگایا ہے‘ جیسے یورپی باشندوں نے‘ امریکہ کی مقامی آبادی کو بھگا کر اپنے شہر صاف کر لئے تھے۔ بے شک ایسا ہی ہوا ہے۔ بے شک راجدھانی کے باسیوں نے اپنا شہر‘ حقیر انسانی مخلوق سے خالی کر کے‘ یہاں کے باسیوں کو‘ ان کی نفرت و حقارت سے بھری نظروں اور نعروں سے بچا لیا ہے۔ مگر یہ ان کی بھول ہے۔ جس نفرت اور حقارت کو سپاہ شہر نے ‘ شہر بدر کر کے‘ شاہی خواب گاہوں کی نیندیں بحال کی ہیں‘ وہ اب پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ شہر کی خواب ناک آنکھوں کو بتا دینا چاہیے
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم ''خواب ناک‘‘
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
و ہ نعرے‘ جو دو کیپسولوں میں بند تھے‘ کیپسولوں سے نکل کر بستی بستی‘ نگر نگر‘ گلی گلی اور گھر گھر ‘ دلوں کے نہاں خانوں میں مورچہ زن ہو چکے ہیں اور ان نہاں خانوں سے جھانکنے والی نظر کے مظاہرے دیکھنا ہوں تو میں چند واقعات اور تبدیلی کی نشانیاں پیش خدمت کر دیتا ہوں۔ ایوان اقتدار کے دو طرم خان جب پی آئی اے کے ایک طیارے میں بیٹھے‘ اڑھائی سو مسافروں کو طویل انتظار کرانے کے بعد جہاز میں بیٹھنے کے لئے آئے‘ تو انہیں پہلی بار ‘ دیدہ و دل فرش راہ کرنے والے عوام کی اٹھی ہوئی آنکھیں اور حقارت بھری طاقتور آوازیں سننے کا تجربہ ہوا۔ شہر اقتدار میں واپس آ کر یہ دونوں معززین خوب دھاڑے اور پورے ملک کے مظلوم عوام نے ایک مدت کے بعد راحت محسوس کی۔ سکھر میں ایک گھوڑا گاڑی والا‘ اپنے راستے پر جا رہا تھا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ کا شاہی قافلہ‘ اسی راستے پر آ گیا۔ پولیس ‘ہٹوبچو کے نعرے لگاتی‘ طوفانی رفتار سے سڑک پر چڑھ دوڑی۔جہاں جہاں گندی مخلوق نظر آئی‘ اسے دھکوں‘ لاٹھیوں اور ٹھڈوں سے دور بھگایا۔ گھوڑا گاڑی والا بھاگ نہ سکا‘ تو اس کی سرعام درگت بنانا شروع کر دی۔ اس پر شہر کے لوگ جمع ہو گئے اور وزیراعلیٰ کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے‘ راستہ بند کر دیا۔ وزیراعلیٰ کے شاہی قافلے کو‘ اپنا راستہ بدل کر جانا پڑا۔ راجدھانی کے شہری اور ایوان اقتدار کے متکبر لوگ خوش ہیں کہ انہوں نے اپنا شہر خالی کرا لیا۔ مگر وہ یہ نہ جان سکے کہ جو نفرت صرف دو کیپسولوں کے اندر بند تھی‘ وہ پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔ حکمرانوں کی ستائی ہوئی مخلوق نے‘ آنکھ اور انگلی اٹھانا سیکھ لیا ہے۔ اپنے کچلے ہوئے جذبات کو نئی توانائی کے ساتھ نعروں میں بدل دیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ‘ وزیراعظم کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز اور ان کی دختر مریم نواز کو پیش آیا۔ جہاز کی کلب کلاس میں سفر کر رہی تھیں ۔ ان کے ہمراہ جانے والی ملازمہ کی نشست اکانومی کلاس میں تھی۔ جب ملازمہ کو اکانومی کلاس سے کلب کلاس میں بلوانے کے لئے انائونسمنٹ کی گئی‘ تو اعلیٰ حکام کو پروٹوکول دینے والے گروپ 4 کے آفیسر‘ صابر حسین کو معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔ میں اتنا بہادر نہیں کہ شاہی خاندان کی شان میں گستاخی کر سکوں۔ یہ ایک شائع شدہ خبر ہے‘ جسے میں صرف نقل کرنے کا گناہگار ہوا ہوں۔ وزیراعظم نوازشریف جب سیلابی علاقوں کے دوروں پر گئے‘ تو ایک سے زیادہ جگہ پر سیلاب زدگان نے مدد مانگنے کے بجائے ''گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگائے۔ امید ہے ‘ وفادار پولیس ملازمین نے انہیں کیفرکردار کو پہنچا دیا ہو گا۔ لاہور میں ایک وی وی آئی پی کا قافلہ جب شاہراہوں پر نمودار ہوتا ہے‘ تو ٹریفک بند کر دی جاتی ہے۔ اب کبھی کبھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جہاں بھی ٹریفک بند کی جائے‘ تمام گاڑیاں بیک وقت ہارن بجانا شروع کر دیتی ہیں۔ ہارن تب تک بجتے رہتے ہیں‘ جب تک شاہی سواری گزر نہیں جاتی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی یومیہ درجن بھر تقریروں میں سے ‘کسی ایک میں یہ اعلان کر دیا کہ ''لوگو! نوٹوں پر گونوازگو لکھنا شروع کر دو۔‘‘ یہ اعلان ایک دن کیا گیا اور دوسرے دن واپس لے لیا گیا۔ لیکن چند گھنٹوں کے دوران‘ ہزاروں نوٹوں پر یہ نعرے لکھے جا چکے تھے۔ میرے ایک دوست دفتر سے اپنے گھر گئے کہ ان کی دو چھوٹی چھوٹی بچیوں نے‘ باپ سے لپٹتے ہوئے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنے نوٹ ہیں؟ انہوں نے اپنی جیبوں میں سے جو نوٹ نکالے‘ ان میں چھ سات دس دس کے اور دو پچاس کے نوٹ تھے۔ بچیوں نے نوٹ لئے۔ اپنے کمروں میں جا کر ان پر ''گونوازگو لکھا‘‘ اور واپس لا کر باپ کے سپرد کر دیئے۔ باپ نے ان سے وجہ پوچھتے ہوئے کہا کہ ''تمہیں یہ نعرے لکھنے کی کیا ضرورت پڑ گئی؟‘‘ تو بچیوں نے بتایا کہ'' سکول میں ہماری تمام سہیلیاں یہی کر رہی ہیں۔‘‘کہاں ہیں؟ پولیس کے وہ شیرجوان آفیسر‘ جو اسلام آباد کے دو کیپسولوں سے بغاوت نکال پھینکنے کے بعد‘ مطمئن بیٹھے ہیں کہ انہوں نے خوابگاہوں کی نیندیں لوٹا دیں۔ خوابگاہوں کی نیندیں اب بہت دنوں کے لئے اڑ گئی ہیں۔ اب یہ مشکل ہی سے واپس آئیں گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری وسیع عوامی حمایت نہیں رکھتے، لیکن عمران خان ایک مقبول اور محبوب لیڈر کی طرح‘ روٹی اور رزق کو ترسے ہوئے لوگوں کے دلوں میں بس گیا ہے اور دلوں میں بس جانے والے کو نہ قید کیا جا سکتا ہے نہ قتل۔ بھٹو کو قتل کرنے والوں نے 45 سال پہلے سمجھ لیا تھا کہ وہ انہیں مار چکے ہیں۔ بھٹو کو مارنے والے قبروں میں پڑے ہیں‘ بھٹو آج بھی زندہ ہے۔