اگر آپ کو سیاست میں دلچسپی ہے تو یاد کر کے دیکھئے کہ گزشتہ 15ماہ کے دوران‘موجودہ حکومت کی کارکردگی کیا رہی ہے؟ عوامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کارکردگی صفر سے بھی کم ہے۔ ایک بھی ایسا منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا‘ جو عوام کے مفاد میں ہو۔ایسا کوئی کام نہیں کیا گیا‘ جس کا عوام کو فائدہ پہنچا ہو۔ حد یہ ہے کہ سکول‘ ہسپتال‘ یا عوامی خدمت کے دوسرے مراکز میں‘ معمولی سا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔مزید ستم یہ کہ جتنے منصوبے‘ سابقہ حکومتیں تکمیل کے قریب چھوڑ گئی تھیں‘ انہیں بھی عوامی خدمات کے لئے‘ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا گیا۔ ایسے کئی ہسپتال پڑے ہیں‘ جن کی عمارتیں مکمل یا نیم مکمل ہو چکی تھیں‘ نئی حکومت صرف سامان اور عملہ مہیا کر کے‘ علاج شروع کر سکتی تھی۔ وہاں آوارہ گردوں کی شبینہ سرگرمیوں کے مراکز بنے ہوئے ہیں۔ ان گنت سکول بند پڑے ہیں اور وہاں با اثر لوگوں کے ڈیرے بن چکے ہیں یا وہاں مویشی اور گدھے رکھے جا رہے ہیں۔ اس حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے‘ ساڑھے چھ سال ہو چکے ہیں۔2010ء کا سیلاب اسی حکومت کے دور میں آیا‘ اس نے بے پناہ تباہی پھیلائی تھی لیکن ساتھ ہی وہ یہ سبق بھی دے گیا کہ آئندہ غریب عوام کو سیلاب کی تباہی اور بربادی سے بچانا ہے تو کون سی حفاظتی تدابیر اختیار کر کے‘ عوام کے جان و مال کو تحفظ دیا جا سکتا ہے؟ غلامی کے دور میں بھی سیلاب جیسی قدرتی آفت آتی تو اگلے موسم سے پہلے پہلے‘ حفاظتی انتظامات مکمل کر لئے جاتے تھے۔سیلاب سے بچائو کی تیاریاں سستا ترین کام ہے۔ مٹی وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ لیبر کے پیسے حکومت کے پاس نہیں بھی ہیں تو لوگ رضا کارانہ طور پر‘ کام کے لئے دستیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر5سال کے عرصے میں حکومت‘ مٹی کے بند بھی نہیں بنا سکی تو پھر وہ کس منہ سے‘ اپنے آپ کو حکومت کرنے کی اہل کہہ سکتی ہے؟
آج پارلیمنٹ کا اختتامی اجلاس ہوا۔ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کے اراکین پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ہم نے قومی تاریخ کا طویل ترین مشترکہ پارلیمانی اجلاس مکمل کیا ہے ۔ جب اس طویل ترین اجلاس کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس ریکارڈ‘ طویل ترین مشترکہ اجلاس میں اتنا کام بھی نہیں ہوا ‘ جتناروزمرہ کے اجلاس میں ہو جایا کرتا ہے۔کسی قانون میں ترمیم نہیں کی گئی۔کسی میں بہتری نہیں لائی گئی۔ کوئی نیا قانون نہیںبنایا گیا۔ کسی ایک ممبر نے بھی قومی تعمیر و ترقی کے لئے‘ کوئی تجویز یا بل پیش نہیں کیا تو پھر ممبران پارلیمنٹ کرتے کیا رہے؟ یہ بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ وہ صرف اپنے لیڈروں کی خوشامد اور مدح سرائی کرتے رہے۔ کسی نہ کسی بہانے پاک فوج کوہدف ملامت بنایا اور بعض نے تو آئینی ضروریات کے مطابق‘ اتنی حیاداری سے بھی کام نہ لیا‘ جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر‘ براہ راست فوج پر تنقید نہیں کر رہے۔اشارے کنائے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ سرکاری پارٹی اورحزب اختلاف کی صورت میں ‘جمع ہونے والی بھانت بھانت کی پارٹیوں نے یکجا ہو کر‘ ایک ہی ٹھان لی ہے کہ وہ اپنے پارٹی لیڈر اور وزیراعظم کی‘ بھانڈوں سے قدر ے بہتر انداز میں‘ مدح سرائی کریں گے اور اس کے بعد‘ اپنے ہی ملک کی فوج پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگائیں گے۔مجھے نہیں امید کہ ہمارا میڈیا اور اس کے کارکن اتنے طویل پارلیمانی سیشن پر قوم کے کروڑوں روپے تلف کرنے پر ‘اظہار افسوس بھی کریں گے۔شرم ناک حقیقت یہ ہے کہ مبینہ دھاندلی کے شور میں جنم لینے والی‘ یہ پارلیمنٹ اب صرف ''بھائیاں دی ہٹی‘‘ بن چکی ہے۔اپوزیشن تو ہوتی ہی تنقید یا خامیوں کی نشاندہی کے لئے ہے‘میں نے تو حکمران جماعتوں کے اراکین کو بھی اپنی حکومت کی پالیسیوں پر‘ تنقید کرتے دیکھا ہے اور آج مجال ہے کہ پارلیمنٹ کا کوئی رکن‘ وزیراعظم کو یہ بتانے کی جرأت بھی کر سکے کہ ان کے ایک کندھے پر مکھی بیٹھ گئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم‘ جدید ترکی کے معمار‘ طیب اردوان کو اپنے لئے رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ طیب اردوان وہ لیڈر ہے‘ جس نے شہرت ہی ‘ایک تباہ حال ملک کو ترقی یافتہ ملک بنا کر حاصل کی ہے۔ اس نے اقتدار کے ابتدائی دو تین برسوں میں‘ بینکوں کی شرح منافع میں حیرت انگیز کمی کر دی تھی۔فی کس
آمدنی میں حیر ان کن شرح سے‘ اضافہ کر دیا تھا۔ ملک کوترقی یافتہ بنانے کے لئے‘ انفراسٹرکچر کی حیرت انگیز رفتار سے تعمیر کی تھی۔ ملک میں متعدد جدید ایئر پورٹ بنائے گئے تھے۔ ہائی سپیڈ ٹرین کے دو نیٹ ورک تیار کر کے‘ بہت کم عرصے میں ٹرینیں چلا کر دکھا دی گئیں۔ باسفورس کا جو سمندر ایشیا کو یورپ سے ملاتا ہے‘ اس پر ایک ہی پرانا پل کام دے رہا تھا‘ اردوان نے دوسرا جدید ترین پل بنانے کا عظیم الشان کارنامہ انجام دے کر دکھادیا۔جو لیڈر اپنی قوم کو اتنی تیز رفتاری سے خوش حالی اور ترقی دیتا ہو‘ اس کی اپوزیشن اگر کام کی رفتار میں خلل پیدا کرے تو اس کا حق ہے کہ وہ مظاہرین کی سرگرمیوں کو سختی سے روک دے مگر یہاں ہماری حکومت کر کیا کام رہی تھی؟ جس میں مظاہرین کوئی رکاوٹ ڈالیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ دھاندلی کے الزامات کے سائے میں‘ قائم ہونے والی اس ناکارہ حکومت نے‘ مکھیاںمارنے کے بجائے‘ وقت گزاری کے لئے انسانوں کو مارا۔ ان کا خون بہایا۔ ان کے گھروں میں لاشیں بھیجیں۔ان کے دھرنوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا پانی بند کیا۔ان کے لئے آئے ہوئے کھانے کو روکا۔ غرض یہ کہ حکومت جتنی اذیت‘ سیاسی مظاہرہ کرنے والوں کو پہنچا رہی تھی اورمسلسل پہنچا رہی ہے‘ اس پر انسانیت بھی ماتم کناں ہو گی۔ حیرت ان اراکین پارلیمنٹ پر ہے‘ جن میںسے کسی ایک نے بھی حکومتی کارکردگی میں خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ‘انہیں دور کرنے کی تجویز تک پیش نہ کی۔ دنیا بھر میں اپوزیشن کی روایت ہے کہ وہ عوام پر حکومتی زیادتیوں کے خلاف احتجاج ضرور کرتی ہے۔ یہاں پارلیمنٹ کا سیشن جاری تھا۔ حکومت آنسو گیس کے شیلز کو گولیوں کی جگہ استعمال کر رہی تھی‘ جو ہلاکتوں کا ذریعہ بنی۔ گولیوں سے لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔وحشیانہ لاٹھی چارج کیا گیا اور پھر زخمیوں کو ہسپتالوں میں علاج کی سہولتوں سے بھی محروم رکھا اور ہمارے پارلیمنٹ کے دونوں معززایوانوں کے قابل احترام اراکین‘ ائیر کنڈیشنڈ ہال میں یوں ٹانگیں پسارے بیٹھے رہے‘ جیسے باہر کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ جیسے بے رحمی سے گولیوں کا نشانہ بننے والے‘ کسی دشمن ملک کے لوگ تھے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو عوام کے نمائندے کہتے ہیں۔ کیا عوام کو گولیاں لگنے پر ‘ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوا؟ یہ لوگ عوام پر تشدد کی مذمت میں‘ ایک قرار داد بھی پاس نہ کر سکے۔ نعرے جمہوریت کے لگاتے رہے۔ قصیدے پارلیمنٹ کے پڑھتے رہے۔ دیواروں کے باہر‘گولیاں چلتی رہیں۔ بے گناہ شہریوں کا خون بہتا رہا اور قوم کے یہ خدمت گار‘ ائیر کنڈیشنڈ ہال میں موسمی اثرات سے بے نیاز‘ مہکتی ہوائوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
منتخب عوامی نمائندوں‘ کی امتیازی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کے سامنے‘ ہمیشہ محتاط رہتے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے دکھ درد پر‘ تشویش یا افسوس کا اظہار کریں۔ حکومت ان پر ٹیکسوں کے ناجائز بوجھ لاد رہی ہو تو اس کا ہاتھ روکیں۔ابھی چار پانچ روز پہلے‘ غریب پاکستانیوں کو بجلی کے جو بل موصول ہوئے‘ وہ عوام کے لئے نا قابل برداشت حد تک تکلیف دہ ہیں۔عوام بیچارے پہلے ہی‘ چوری ہونے والی بجلی کا بل بھی‘ اپنے بل میں ادا کرتے ہیں۔ ایک بلب جلاتے ہیں اور تین بلبوں میں جلی ہوئی بجلی کا بل دیتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا بل ان سے علیحدہ لیا جاتا ہے۔حقیقت حال یہ ہے کہ نئے حکومتی حملے سے پہلے ہی‘ عوام بجلی کے بل میں ایک درجن کے قریب‘ اضافی کھاتوں میں فالتو رقمیں دے رہے ہیں۔ لوگ ٹیلی ویژن کیبل سے دیکھتے ہیں۔ اپنی خریدی ہوئی بجلی استعمال کرتے ہیں اور ان سے ٹیلی ویژن فیس جرمانے میں وصول کی جاتی ہے۔نیلم جہلم منصوبہ‘ جب سے کاغذوں پر آیا ہے‘ بجلی کے صارفین اس کے کھاتے میں بھی پیسے دئیے جا رہے ہیں۔ کرپشن کا بل ان سے لیا جاتا ہے اور نئے بلوں میں تین چار نئے کھاتے بنا کر ‘ ان کا بل بھی‘ عام آدمی کے بل میں ڈال دیا گیا ہے۔پارلیمنٹ کا سیشن ہو رہا تھا اور ملک بھر کے عوام‘ بجلی کے بلوں میں ڈاکہ زنی پر‘ بلبلا رہے تھے۔ کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ پارلیمنٹمیں کھڑے ہو کر‘ عوام کی اس اذیت پر آواز ہی اٹھا سکے۔ یہ کس منہ سے اپنے آپ کو عوامی نمائندہ کہتے ہیں؟سیلاب زدگان کے لئے‘ پارلیمنٹ کے طویل سیشن میں ‘ یہ ایک دو گھنٹوں کی بحث بھی نہیں کر سکے۔ یہ عوام کے نمائندے ہیں؟ پچھلے الیکشن کی دھاندلی‘ تو رہی ایک طرف۔ اب تو احتجاجی تحریک اس نکتے پر چلنی چاہئے کہ ان بے حس‘ نام نہاد عوامی نمائندوں سے عام لوگوں کو نجات دلائی جائے۔ ہمارے رئوف کلاسرا ‘دہائیاں دیتے دیتے تھک گئے کہ دو معزز اراکین پارلیمنٹ نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس کرپشن کے ثبوت موجود ہیں۔ کسی ایک ممبر کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ ان سے ثبوت مانگنے کی تجویز پیش کر سکے۔ ہمارے عوامی نمائندگان کے بارے میں ایک ڈاکو مینٹری فلم بنا کر‘ دنیا کو دکھانی چاہئے کہ ہمارے ساتھ جمہوریت کے نام پر کیا ہو رہا ہے؟ خاص طور پر امریکی حکومت کو ‘جو دن رات ہمیں دھمکیاں دیتی ہے کہ جمہوریت کو چھیڑا تو تمہارادانہ پانی بند کر دیں گے۔ جو جمہوریت امریکہ ہم پر مسلط رکھنا چاہتا ہے‘ وہ عوام کے حق میں کیسے ہو سکتی ہے؟
سٹاپ پریس: ۔پشاور میں مسلم لیگ(ن) کا جلسہ تھا‘ حاضرین میں سے کچھ لوگوں نے ''گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دئیے۔سٹیج سے پارٹی کے ایک عہدیدار نے خود بھی نعرے لگانا شروع کر دئیے ''گونوازگو‘‘۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔