مکرم و محترم ظفر اقبال صاحب! السلامُ علیکم۔ خدا کرے آپ ہر طرح سے خیریت سے ہوں۔ آپ کو یہ خط لکھنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ آپ نے اپنے 2 ستمبر کے کالم میں فارسی کا ایک مصرعہ یوں درج کیا ہے ع
تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ مصرعہ یوں ہے ع
تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو
آپ اس کو کتابت کی غلطی نہیں کہہ سکتے بلکہ آپ کی جہالت کی غلطی ہے کیونکہ میں نے اسی مصرعے کو کئی جگہوں پر اسی طرح پڑھا ہے۔ گویا یہ جاہلوں کی مشترکہ میراث ہے...
اس سے پہلے موصوف کے متعدد حمایتی اس کالم کے حوالے سے مجھے گالی گلوچ سے نواز چکے تھے۔ ہو سکتا ہے وہ موصوف کے اپنے ہی زورِ قلم کا نتیجہ ہو؛ تاہم اب آپ خود میدان میں اُترے ہیں‘ خوش آمدید!
مجھے کبھی فارسی دانی کا دعویٰ نہیں رہا بلکہ مجھے تو ٹھیک سے اردو بھی نہیں آتی لیکن میں آپ کی فارسی دانی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا جو آپ نے لفظ گرداں کو گردوں بنا کر رکھ دیا۔ واضح رہے کہ چرخ اور گردوں ہم معنی الفاظ ہیں اور آسمان کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اس لیے دونوں کے درمیان اضافت کا کوئی محل نہیں ہے کیونکہ اس طرح یہ ترکیب مہمل اور بے معنی ہو کر رہ جائے گی‘ کیونکہ گرداں کا مطلب ہے گردش کرتا ہوا‘ جیسا کہ چرخ یعنی آسمان کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ مثلاً غالب کا شعر ہے ؎
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
اور‘ اگر آپ کی ترکیب کو درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا آسمان کا آسمان۔ حیرت ہے کہ آپ نے کس دھڑلے سے میرے صحیح کو غلط اور اپنے غلط کو صحیح قرار دے دیا۔ اس سلسلے میں لُغت کھنگالنے کی ضرورت نہیں۔ حضرات ڈاکٹر انور سدید اور جمیل یوسف اور دیگران نے آپ کو ستائشی سرٹیفکیٹ عطا کر رکھے ہیں‘ لگے ہاتھوں فون کر کے انہی میں سے کسی سے پوچھ لیجیے کہ غلط کون ہے اور صحیح کون۔
یاد نہیں پڑتا کہ یہ کس کے شعر کا مصرعۂ ثانی ہے۔ فردوسی کا ہو سکتا ہے کہ شاہنامہ میں یہی بحر استعمال کی گئی ہے اور جس میں شاعر نے اپنے ہیرو رستم کی جنگی کارکردگی کو اس لاجواب شعر میں سمو دیا ہے ؎
برید و درید و شکست و بہ بست
ژلاں را سر و سینہ و پا و دست
مزید یہ کہ آپ نے اپنے مؤقف کی تائید میں کوئی سند یا دلیل پیش کرنے کی بجائے اتنا ہی لکھنا کافی سمجھا ہے کہ آپ نے اس مصرعے کو کئی جگہ ایسا ہی پڑھا ہے۔ اس سے اس بات کا سراغ ملتا ہے کہ جس معیار کی تحریریں آپ پڑھتے رہے ہیں‘ ویسی ہی آپ کے قلم سے بھی نکلتی ہوں گی اور اگر گورنمنٹ کالج میں آپ یہی کچھ پڑھاتے رہے ہیں تو آپ کے طلبہ میں سے اگر کوئی پاگل ہونے سے بچ رہا ہو تو مجھے اس کی اطلاع ضرور دیجیے گا۔
ایک صاحب لکھتے ہیں کہ 20 سال تک ادب تخلیق کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھ میں تو لکھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے لیکن اس وقت تک میں اتنا مشہور ہو چکا تھا کہ لکھنا ترک بھی نہیں کر سکتا تھا! آپ بھی ماشاء اللہ بیس پچیس سال سے تو لکھ ہی رہے ہوں گے اور بزعمِ خویش مشہور بھی ہو چکے ہیں تو آپ کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا کہ لکھنا ترک کردیں۔ آپ کو گلہ ہے کہ میں نے پڑھے بغیر ہی آپ کی کتاب کو فارغ کردیا‘ تو عرض ہے کہ آپ کی اس غزل کا مطلع ہی اس قدر بورنگ تھا کہ میں نے پوری غزل پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی؛ چنانچہ میں نے یہی لکھنا کافی سمجھا کہ پہلا مضمون ہی اس قدر تھکا دینے والا ہے کہ پوری کتاب پڑھنا میرے بس میں ہی نہ رہ گیا تھا۔
منقول ہے کہ شہر میں ایک تھیٹر چل رہا تھا جس کا ہیرو ناظرین میں سے ایک لڑکی کے حسن و جمال سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسے پروپوز کر بیٹھا۔ لڑکی نے جواب دیا کہ میں اپنے باپ سے پوچھ کر بتائوں گی۔ دوسرے دن لڑکی نے آ کر بتایا کہ میرا باپ کہتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی ایک اداکار سے ہرگز نہیں کر سکتا‘ جس پر موصوف نے کہا کہ وہ ایک بار کم از کم میرا کام تو دیکھ لیں‘ اس کے بعد بیشک انکار کردیں؛ چنانچہ اگلے روز لڑکی کے باپ نے پورا ڈرامہ دیکھا اور موصوف کو بلا کر کہا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کرنے کو تیار ہوں کیونکہ تمہیں تو اداکاری کی الف بے کا بھی پتہ نہیں ہے! سو‘ کسی کام کا دعویٰ کرنا اور چیز ہے اور اسے کر کے دکھانا یا اس کی اہلیت رکھنا بالکل ہی مختلف شے۔ آپ میری اتنی سی بات کا بُرا مان گئے ورنہ لوگ تو رائے دیتے وقت نہ جانے کیا کیا کچھ کہہ جاتے ہیں مثلاً ایک تبصرہ نگار نے لکھا کہ اگر اس ناول کا کوئی ہیرو ہے تو اسے چاہیے کہ پہلی فرصت میں مصنف کو گولی ماردے۔ اسی طرح ایک صاحب نے اپنی کتاب کا اشتہار دیتے ہوئے لکھا کہ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ ایک کاپی خریدنے والے کو پہلے ایڈیشن کی دو کاپیاں مفت پیش کی جائیں گی۔ آپ کی کتاب کے بھی‘ اشتہار کے مطابق چار‘ پانچ ایڈیشن نکل چکے ہیں‘ معلوم نہیں آپ نے یہ ہنر آزمایا ہے یا نہیں۔
آخر میں عرض یہ ہے کہ پطرس بخاری‘ شفیق الرحمن‘ ابن انشا اور مشتاق احمد یوسفی کو آپ نے یقینا پڑھ رکھا ہوگا اور اگر انہیں ایک بار اور پڑھ لیں تو آپ کو معلوم ہوسکتا ہے کہ مزاح نگاری کس چڑیا کا نام ہے یا یہ کس چیز کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں عطاء الحق قاسمی‘ اشفاق احمد ورک اور گُلِ نوخیز اختر کی تحریریں ہی کبھی کبھار دیکھ لیا کریں تو یقینا افاقہ ہوگا۔
آپ نے مجھے جاہل کہا ہے اور شاید ٹھیک ہی کہا ہو‘ لیکن میں آپ کو جواب میں جاہل نہیں کہوں گا اور نہ ہی آپ کے ہوا خواہوں کی طرح دشنام طرازی سے کام لوں گا کیونکہ میری تربیت اس طرح سے نہیں ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ نے ان سب حضرات کو شرمندہ کیا ہے جو آپ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے ہیں‘ جناب مجیب الرحمن شامی سمیت‘ جن کے اخبار میں آپ کالم آرائی کرتے رہے ہیں بلکہ سچ پوچھیں تو آپ نے اپنے مذکورہ پرستاروں کو بھی شرمسار کیا ہے جو آپ کے دفاع میں گالی گلوچ تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر آپ نے اپنے آپ کو پروفیسر (ر) لکھا ہے حالانکہ پروفیسر ریٹائر ہو کر بھی ریٹائر نہیں ہوتا‘ نہ ہی وہ اپنے آپ کو پروفیسر لکھتا ہے جو انکسار اور تہذیب یافتہ ہونے کی نشانی ہے کیونکہ پروفیسر کو پروفیسر کہنا اور لکھنا دوسروں کا کام ہے۔ آپ دیکھیے کہ پطرس بخاری‘ صوفی غلام مصطفی تبسمؔ‘ ڈاکٹر اجمل اور قیوم نظر وغیرہ نے کبھی اپنے نام کے ساتھ یہ لاحقہ نہیں لگایا جبکہ آپ اپنے نام کے ساتھ پروفیسر ریٹائرڈ تک لکھتے ہیں جیسے آپ جنرل ریٹائرڈ ہوں۔ اپنی فارسی دانی کی دھاک بٹھانے کی کوشش میں آپ نے جو گُل کھلائے ہیں‘ یقینا اس پر آپ معذرت نہیں کریں گے کیونکہ اس کے لیے وسیع الظرف ہونا شرطِ اول ہے۔ (جاری)
آج کا مقطع
خریدنا نہیں، کچھ میں نے بیچنا ہے، ظفرؔ
رُکا ہوا ہوں جو بازار سے گزرتے ہوئے