جنگ ستمبر کے دو پہلو ہیں۔ ایک کشمیر کی جنگ اور دوسرا دفاع پاکستان کی جنگ۔ جہاں تک کشمیر کی جنگ کا تعلق ہے وہاں مستقل عالمی سرحد نہیں۔ لائن آف کنٹرول ہے(جو1971ء کی جنگ سے پہلے سیز فائر لائن کہلاتی تھی) جسے دونوں طرف کی فوجیں جنگ بندی کے لئے‘ ایک حد تسلیم کرتی ہیں۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی ہو جائے‘ تو اسے جارحانہ حملہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔عموماً ایریا کمانڈرز مذاکرات کر کے‘ خلاف ورزیوں کا تدارک کر لیتے ہیں۔1965ء میں پاکستان کی حکومت جس کے سربراہ فیلڈ مارشل ایوب خان تھے‘ نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ اس وقت دو مرحلوں میں مقبوضہ کشمیر کے اندر کارروائی کریں تو وادیٔ کشمیر کو آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ پاکستان ‘ بھارت کے کشمیر پر اکتوبر1947ء میں غاصبانہ قبضے کے خلاف ہر پُرامن حربہ آزما کر‘ فیل ہو چکا تھا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں‘ سرد خانے کی نذر ہو چکی تھیں۔ بھارت استصواب رائے‘ بشمول پنڈت نہرو کے تمام وعدوں سے مکر چکا تھا۔ جنگ کے منصوبے کا پہلا حصہ تربیت یافتہ جنگجوئوں کا مقبوضہ کشمیر میں داخلہ تھا تاکہ وہ لائن آف کنٹرول پار کر کے‘ وہاں کے مسلمانوں کو جو پاکستانی حکمرانوں کے تصور کے مطابق بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے تھے اور بغاوت کے مواقع کے منتظر تھے‘ اعتماد میں لے سکیں۔ سوچا یہ گیا کہ جب پاکستان سے مجاہدین مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوں گے‘ تو ان کا بھر پور استقبال کیا جائے گا۔ وہ مقامی مسلمانوں کے ساتھ مل کر‘ قابض بھارتی افواج کے خلاف بغاوت کریں گے اور جب بھارتی فوج کی حالت خراب ہو جائے گی تو پاکستانی فوج حملہ کر کے‘ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کر ا لے گی۔بھارتی فوج اندر سے آزادی پسند مجاہدین اور باہر سے پاکستانی فوج کے درمیان پھنس کر ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جائے گی۔ منصوبے کے مطابق جون‘ جولائی1965ء میں تربیت یافتہ پاکستانی مجاہدین کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کر دیا گیا۔ خلاف توقع وہاں انہیں مقامی آبادی کا تعاون حاصل نہیں ہوا۔ ان کی میزبانی تو کی گئی لیکن بغاوت میں ان کا ساتھ دینے کو مطلوبہ تعداد میں لوگ تیار نہ ہوئے اور کچھ ایسے تھے جو پاکستانی مجاہدین کی مخبری کرنے لگے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کو پتہ چل گیا اور مجاہدین کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔دونوں ملکوں میں تکرار ہوئی۔ بھارتی‘ پاکستان پر مداخلت کا الزام لگا رہے تھے اور پاکستان تردید کر رہا تھا۔ یہ مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر ایک معمول کی بات ہے۔
مداخلت کاروں کی ناکامی کے بعد‘ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دوسرے مرحلے یعنی براہِ راست فوج کشی سے گریز کیا جاتا اور کشمیر کی آزادی کے کسی دوسرے قابل عمل منصوبے کی تیاری کی جاتی لیکن پہلے مرحلے کی ناکامی کے بعد پروگرام کے مطابق دوسرے مرحلے(فوجی حملہ) پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔ پاک فوج‘ منصوبے کے مطابق ‘تیزی کے ساتھ آگے بڑھی اور دریائے توی پر جا کر‘ بھارت کی طرف سے خلاف توقع شدید مزاحمت شروع ہو گئی جس کی وجہ سے ہماری پیش قدمی رک گئی لیکن اس حملے سے بھارتی‘ پاکستان کے جنگی منصوبے کو سمجھ گئے اور انہیں اندازہ ہو گیا کہ پاکستان کو مزید مہلت مل گئی تو وہ جموں سری نگر روڈ پر قبضہ کر کے‘ بھارتی افواج کو محصو رکر سکتا ہے۔ اس خطرے کے پیش نظر بھارت نے عالمی سرحدوں کی خلاف ورزی کر دی‘ جس کا بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کوئی جواز نہیں تھا۔ لیکن جس کا ہمارے پالیسی سازوں کو اندازہ نہیں تھا۔
لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر‘ غیر متوقع بھارتی حملے کے ساتھ ‘ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔ پاک بھارت جنگوں میں لاہور اور سیالکوٹ کے دفاع کی جنگ‘ سنہرے باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ واحد جنگ تھی جس میں پاکستانی فوج اور عوام نے باہمی اشتراک اور تعاون سے سر زمین وطن کا دفاع کیا۔میں عسکری امور کا ماہر نہیں لیکن اندازہ ہے کہ جنگوں کی تاریخ میں اس حیرت انگیز جنگ کا تذکرہ ضرور آگیا ہو گا۔یہ جنگ حیرت انگیز اس وجہ سے تھی کہ حملہ آوروں نے مکمل تیاری اور منصوبہ بندی کے تحت‘ باقاعدہ افواج اور اسلحہ کے ساتھ اچانک جنگ چھیڑ دی جبکہ پاکستان اس جنگ کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔1965ء سے پہلے‘ کشمیر میں کئی مرتبہ پاک بھارت جھڑپیں ہوئیں لیکن دونوں فریق متنازعہ علاقے تک محدود رہے۔ باقاعدہ سرحدوں کا احترام کیا گیا لیکن اس بار بھارت نے بغیر کسی جواز کے‘ اچانک پاکستان کی شہری آبادی پر ٹینک بردار دستوں سے حملہ کر دیا۔ لاہور اور سیالکوٹ‘ دونوں میں چھائونیاں تو ہیں لیکن فوج سرحدوں پر موجود نہیں تھی۔ واہگہ کے محاذ پر بھارتی ٹینک کسی مزاحمت کے بغیر‘ نہر کے پل تک پہنچ گئے۔ راستے میں جو چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھیں‘ ان پر بھارت کا قبضہ ہو گیا۔ حملہ نصف شب کو ہوا تھا۔ زیادہ تر لوگ سو رہے تھے۔ ایک ڈبل ڈیکر اومنی بس ‘جو رات کو آخری ٹرمینل پر بند کر دی جاتی تھی اور صبح کے وقت پہلا پھیرا لے کر‘ لاہور آیا کرتی تھی‘ وہ بھارتی فوجیوں کے ہاتھ لگ گئی اور اس کی تصویریں اور مناظر دنیا بھر میں دکھا دکھا کر‘ بھارتیوں نے پراپیگنڈہ کیا کہ وہ لاہور پر قبضہ کر چکے ہیں لیکن قبل اس کے کہ بھارتی ٹینک نہر کا پل عبور کرتے‘سرحدوں پر موجود چند فوجیوں نے جان پر کھیلتے ہوئے پل توڑ دیا۔ بھارتی فوج ابھی متبادل انتظام کر کے ‘ نہر پار کرنے کی تیاری کر رہی تھی کہ پاک فوج حیرت انگیز تیز رفتاری سے محاذ پر پہنچ گئی اور بھارتی ٹینکوں کی پیش قدمی روک کر‘ لاہور شہر کے دفاع کا پہلا مورچہ بنا لیا۔
میں جنگ بندی کے فوراً بعد‘ وار رپورٹر کی حیثیت سے محاذوں کے دورے پر آیا۔ لاہور میں اترتے ہی‘ جنگ کی دلچسپ کہانیاںسننے میں آئیں مثلاً جب شہر پر بھارتی طیارے پرواز کرتے تو عوام سائرن سن کر گلیوں اور چھتوں پر نکل آتے۔ ہر چند یہ خطرے کی بات تھی لیکن عوام کا جوش و خروش اتنا زوروں پر تھا کہ وہ مرنے کے خوف سے آزاد ہو چکے تھے۔شہر میں سے فوجیوں کا گزرنا ایک جشن کی طرح ہوتا۔ لوگ ان پر پھول پھینکتے۔ چھتوں پر کھڑی خواتین ہاتھ اٹھا اٹھا کر‘ دعائیں کرتیں اور نوجوان تحائف پیش کرتے۔ بے شمار شہری ‘بی آر بی نہر کے محاذ پر پہنچ گئے اور فوج کو اپنی خدمات پیش کر دیں۔ جہاں دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے تھیں۔ ایک کنارے پاکستانیوں کا مورچہ ہوتا اور دوسرے کنارے پر بھارتیوں کا۔ جس روز میں گیا‘ جنگ بندی کو4دن ہو چکے تھے۔ تب تک پاکستانی اور بھارتی فوجیوں میں کافی علیک سلیک ہو چکی تھی۔ دونوں آپس میں گپ شپ بھی لگاتے۔ لاہور سے میں سیالکوٹ گیا‘ اس وقت جنرل ٹکا خان کمانڈر بن کر آگئے تھے۔ وہاں میں نے قلعہ دیکھا‘ جس پر بھارتی طیاروں نے بم گرائے تھے اور وہ بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔ محاذ کے قریب بھارت کے سینچورین ٹینک کھڑے تھے‘ جو پاکستانی فوج نے اس سے چھینے تھے۔ہم نے ایک ٹینک پر کھڑے ہو کر‘ تصویریں بنوائیں۔ جنرل ٹکا خان نے ہمیں بریفنگ دی اور اس کے بعد ‘ ہم کشمیر کے محاذ کے دورے پر نکل گئے۔ اس دورے میں میرے ساتھ‘ ترکی کے ایک صحافی تھے اور''نیوز ویک‘‘ کا صحافی سم تھا۔ پہلے ہم پونچھ سیکٹر کے ایک سرحدی گائوں باغ میں پہنچے۔ رات پڑی تو ایسی تاریکی دیکھنے میں آئی‘ جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ لوڈشیڈنگ کی انتہائی سختی سے پابندی کی جاتی تھی کیونکہ باغ کا گائوں جنگ بندی لائن کے قریب تھا۔ وہاں کے عوام کو لوڈشیڈنگ کی غالباً تربیت دی گئی تھی۔ ہو سکتا ہے آج بھی جب لائن آف کنٹرول پر حالات بگڑے ہوئے ہوں‘ باغ والوں کو لوڈشیڈنگ کرنا پڑتی ہو۔ دوپہر کے وقت‘ ہمیں اس محاذ کے کمانڈروں نے بریفنگ دی اور اسی وقت ہم دوسرے محاذوں کی طرف جانے کے لئے واپس مظفر آباد آئے۔ وہاں دریا کے ساتھ ساتھ‘ ایک طویل سفر کیا۔ جس میں مختلف محاذوں پر ہمیں بریفنگ دی گئی۔
پاکستان اور آزاد کشمیر‘ دونوں محاذوں پر عوام کے حوصلے بے حد بلند تھے۔ خصوصاً فوج اور عوام کے درمیان محبت اور باہمی احترام کا جو جذبہ1965ء کی جنگ میں پیدا ہوا تھا‘ دوبارہ دیکھنے میں بہت کم آیا۔1971ء کی جنگ‘ ہم مغربی پاکستانیوں کے لئے‘ ایک اذیت ناک تجربہ تھا۔ ہمیں یہ تو پتہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں جنگ ہو رہی ہے‘ جنگ میں کیا ہو رہا ہے؟ اس کی ہمیں کوئی خبر نہ ملتی تھی۔ اس زمانے میں ٹی وی چینلز نہیں تھے۔ اخبارات پر سنسر تھا اور ریڈیو پاکستان‘ سے جنگ کی وہی خبریں آتیں جو سنسر شدہ ہوتیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب سقوط ڈھاکہ کی خبر آئی‘ تو ہمارے لئے قریب ترین عزیز کی ناگہانی موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھی۔ وہ پوری شام اور رات ‘ میں نے روتے ہوئے گزاری۔ آج بھی جب میں اپنی زندگی کے بہترین لمحے یاد کرتا ہوں‘ تو وہ65ء کی جنگ کے واقعات ہیں۔ ایسے ایسے نغمے تخلیق ہوئے تھے جو آج بھی سنتا ہوں تو ایک عجیب طرح کا جوش آجاتا ہے۔ بھارت کی طرف سے‘ مغربی پاکستان کے دو شہروں پر اچانک حملے کئے گئے۔ دونوں میں ہماری کوئی تیاری نہیں تھی۔ حکومت اسی خیال میں تھی کہ بھارت عالمی سرحدوں کی خلاف ورزی نہیں کرے گا لیکن بھارت تمام عالمی ضابطوں کی پروا کئے بغیر‘ پوری تیاری کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اسے ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ پاکستان کی طرف سے اتنی جلدی اور اتنی موثر مزاحمت ہو گی اور بہت دنوں تک وہ یہی کہتے رہے کہ پاکستان جنگ کے لئے پوری طرح تیار تھا۔بعد کی رپورٹیں دیکھ کر‘ انہیں پتہ چلا ہو گا کہ دونوں محاذوں پر پاکستان کی کوئی تیاری نہیں تھی لیکن ہمارے چند فوجی دستے‘ جو معمول کی نگرانی کے لئے ہوتے ہیں‘ انہوں نے بھارتی فوج کو ایسی دلیری اور جنگی حکمت عملی سے روکا کہ بھارتی کمانڈر یہی سمجھتے رہے کہ پاکستان پہلے سے تیار بیٹھا ہے۔ واہگہ کے محاذ پر‘ تو حیرت انگیز واقعہ ہوا۔ پاکستانی سرحد میں داخل ہو کر‘ بھارتی جب بغیر کسی مزاحمت کے باٹا پور تک پہنچ گئے تو انہوں نے اس ڈر سے اپنی پیش قدمی روک دی ‘ ہو سکتا کہ ہم نہر کے پار جائیں تو پاک فوج ہمیں گھیرے میں لے لے۔ وہ اسی خوف میں نہر پار بیٹھے رہے اور جب تک انہیں سمجھ آسکتی تھی‘ پاک فوج محاذوں پر آکر‘ پوزیشنیں سنبھال چکی تھی۔
نوٹ :۔ یہ کالم بری‘ بحری اور فضائی افواج کے ماہنامہ میں شائع ہوا۔