چلو مان لیا پیر صابر شاہ کی زبان پھسل گئی۔ جلسہ گاہ میں بدانتظامی‘ کارکنوں کی توتکار اور دھینگا مشتی دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور وہ کوئی دوسرا نعرہ لگاتے لگاتے ''گو نواز گو‘‘ کی تکرار کرنے لگے۔ مگر ان کے ارد گرد کھڑے مسلم لیگی عہدیداروں اور سامنے بیٹھے کارکنوں کو کیا ہوا کہ انہوں نے بھی پورے جوش و خروش اور زور شور سے پیر صابر شاہ کے نعرے کا جواب ''گو نواز گو‘‘ کی صورت میں دیا۔ پورے مجمع کا ذہن پھسل گیا۔ وہ مخالفین کے نعرے کی گردان کرنے لگا؟ یا ع سبب کچھ اور ہے جسے تو خود سمجھتا ہے۔
پیر صابر شاہ پکے مسلم لیگی ہیں۔ ان کے والد گرامی نے سلہٹ اور آسام کے ریفرنڈم میں پاکستان کا پرچم بلند کیا اور اپنے روحانی پیروکاروں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔ نوے کے عشرے میں جب میاں نواز شریف ڈھاکہ گئے تو پیر صابر شاہ کے عقیدت مندوں نے ہزاروں کی تعداد میں ان کا اور اپنے روحانی پیشوا کا والہانہ استقبال کیا۔ تمام تر شکوہ و شکایت کے باوجود پیر صاحب مسلم لیگ اور میاں نوازشریف کے وفادار ہیں اور خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ کا میکدہ ان کے دم قدم سے آباد مگر ان کی زبان پر گو نواز گو کا نعرہ اور حاضرین جلسہ کی والہانہ تائید؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
گو نواز گو کا نعرہ اگرچہ 1999ء میں جی ڈی اے نے بھی لگایا۔ پیپلز پارٹی‘ نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی اور دیگر کئی جماعتیں اس اتحاد میں شامل تھیں مگر اس نعرے کو جو عوامی پذیرائی حالیہ دو تین ہفتوں کے دوران ملی‘ باید و شاید۔ آزاد کشمیر‘ سرگودھا‘ چنیوٹ‘ ملتان اور دیگر مقامات پر میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کے سامنے ان لوگوں نے نعرہ لگایا جنہیں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے استقبال اور خطاب سننے کے لیے لایا گیا تھا۔ سیلاب متاثرین‘ ضرورت مند اور حکمرانوں سے امداد کے طلبگار۔ مگر حکومت کا موقف ہے کہ یہ مخالفین کی شرارت تھی۔ چند شرپسند بھیج کر انہوں نے من پسند نعرہ لگوایا اور ٹی وی چینلز پر کوریج کا اہتمام کیا لیکن پیر صابر شاہ کی پُرجوش نعرے بازی اور سینکڑوں یا ہزاروں حاضرین کی طرف سے والہانہ انداز میں ہمنوائی؟ یہ زبان زدعام نعرے کی تاثیر ہے‘ عوامی جذبات کا بے ساختہ اظہار یا زبان خلق نقارۂ خدا۔
الطاف گوہر مرحوم نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدار سے علیحدگی اور منصب صدارت سے استعفے کا فیصلہ اس وقت کیا جب انہوں نے گھر میں اپنے پوتوں اور نواسوں کو کھیل کے دوران ایوب کتا ہائے ہائے کا نعرہ لگاتے سنا۔ مرکزی کابینہ کے اجلاس میں انہوں نے فیصلے کا اعلان کیا تو ایک دو خوشامدی وزیروں نے صدر کو‘ فیصلے سے باز رکھنے کی کوشش کی اور ریفرنڈم کرانے کی تجویز دی کیونکہ ان کے خیال میں فیلڈ مارشل عوام میں اب بھی مقبول تھے۔ ایوب خان نے کہا‘ یہ زبان زدعام نعرہ کیا ریفرنڈم نہیں؟ گلی گلی محلے محلے مردہ باد کی گردان کے بعد کسی مزید ریفرنڈم کی گنجائش رہ جاتی ہے۔ قوم کو آزمائش میں ڈالنے کا فائدہ؟
محاورے کی طرح سیاسی نعرے کسی کے حق میں ہوں یا مخالفت میں‘ زبان زدعام اس وقت ہوتے ہیں جب یہ عوامی احساسات کے پیکر اور دلی جذبات کے اظہار کا وسیلہ ہوں۔ ان نعروں کی مقبولیت کے پیچھے معقول سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور ذاتی وجوہات ہوتی ہیں۔ محرومی کا شدید احساس اور ناراضگی کا طویل پس منظر۔ محض بار بار دہرانے اور پھیپھڑوں کا زور لگا کر لوگوں کو یاد کرانے سے کوئی نعرہ مقبول ہوتا ہے نہ بے سبب‘ بلاوجہ ہر ایک کی زبان پر مچلتا ہے۔ اگر بے دھیانی میں کسی شخص کی زبان سے اپنے محبوب لیڈر کے خلاف نعرہ بلند ہو تو سمجھو کہ زبانِ خلق ہے اور اب اسے روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں ایس ایم ایس کے ذریعے جو نعرے اور جملے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مقبول ہوئے انہیں رحمان ملک روک سکے نہ انفرمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین۔
گو نواز گو کا نعرہ تیزی سے مقبول کیوں ہونے لگا‘ اتنا مقبول کہ بے دھیانی میں صابر شاہ کی زبان سے نکلا تو کھرے اور پکے مسلم لیگیوں نے بھی بے دریغ لگایا۔ مجمع میں سے کسی کو ہوش نہ رہا کہ وہ اس نعرے کا جواب مثبت انداز میں نہ دے۔ یہ موجودہ حکمرانوں اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشینوں کے سوچنے کی بات ہے۔ بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ بجلی کے کئی گنا زیادہ بلوں‘ اشیائے ضروریہ کی بے تحاشہ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ لاقانونیت اور بدامنی نے ہر شخص کو حکومت سے بیزار کردیا ہے۔ پندرہ ماہ کی ناقص کارگزاری اور عوامی مسائل و جذبات سے سنگدلانہ بے نیازی عوام کو کھلنے لگی ہے اور انہیں عمران خان و طاہرالقادری کے مطالبات کی طرح نعروں میں بھی کشش محسوس ہو رہی ہے تبھی تو گو نواز گو کا نعرہ بلند ہوتے ہی وہ موقع محل دیکھے بغیر دھمال ڈالنے لگتے ہیں۔ یہ تک نہیں دیکھتے کہ سامنے کوئی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ہے یا مسلم لیگ کا کوئی دیرینہ متوالا اور وفادار۔
عوام اپنی جگہ سچے ہیں‘ جس حکومت اور منتخب پارلیمنٹ کو ایک ماہ کا دھرنا‘ خواب غفلت سے جگانے میں ناکام رہا ہو‘ معیشت زبوں حالی کا شکار‘ چین سمیت کئی سربراہان ریاست کے دورے منسوخ اور نظام زندگی تلپٹ مگر کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگے‘ عوام اس کے خلاف لگنے والے نعروں پر کان نہ دھریں تو کیا کریں۔ سینیٹر محسن لغاری‘ غریب غربا نہیں بڑے زمیندار ہیں مگر بجلی کے بلوں کی وجہ سے بیوی کے ساتھ لڑائی کا ذکر پارلیمنٹ میں کیا۔ غریب اور متوسط طبقہ اپنا رونا کسی منتخب ایوان میں رو سکتا ہے نہ اپنے بیوی بچوں کے سوا کسی پر غصہ نکالنے کے قابل۔ موقع ملنے پر دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے یہ نعرہ قدرے زور سے لگاتا ہے‘ یہی اس نعرے کی مقبولت کا راز ہے۔
گستاخی معاف‘ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تین ہفتے جاری رہا‘ کسی رکن نے سیلاب اور بارشوں سے تباہ کاری‘ عوام کے دکھ درد‘ حکومت کی غلط ترجیحات کو موضوع بحث بنایا؟ شرکاء کے درمیان اپنے اپنے پارٹی سربراہ کی مدح سرائی‘ اپنے ناپسندیدہ وزیر‘ مشیر کی ہجو گوئی اور وزیراعظم کی چاپلوسی کے علاوہ بروزن بیت جمہوریت سے وابستگی کا مقابلہ خوب ہوا۔ اعتزاز احسن اور نثار علی خان کے درمیان یُدھ رچا مگر پھر دونوں نے مصلحت کی چادر اوڑھ لی‘ ایک دوسرے کی مبینہ کرپشن‘ بے ضابطگی پر پردہ ڈال دیا۔
آخری روز وزیراعظم نے سارا زورِ بیان مخالفین کی مذمت‘ اپنے کارناموں‘ جمہوریت پسندی اور تحمل مزاجی پر صرف کیا۔ عوام تو خیر ٹھہرے کالانعام ان کا کیا مذکور‘ وزیراعظم نے اپنے ان حلیفوں اور ہمدردوں کا ذکر کرنا تک مناسب نہ سمجھا جو بے چارے سیاسی جرگہ کی صورت میں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے بنے پھرتے ہیں۔ میاں صاحب کو سیاسی جرگے کی کوئی تجویز یاد رہی‘ نہ سراج الحق اور رحمان ملک کی خدمات اور بھاگ دوڑ۔ دھرنا دینے والوں کو البتہ یہ دھمکی ضرور دی کہ ان سے ڈی چوک خالی کرانا مشکل نہیں۔ اعتزاز احسن نے بحران ٹلنے پر جس ممکنہ حکومتی رویے کی پیش گوئی کی تھی‘ وہ درست ثابت ہونے لگی حالانکہ بحران ابھی ٹلا نہیں مگر حکومت کا اعتماد لوٹ آیا ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تقریری مقابلے نے عوام کی مایوسی میں مزید اضافہ کیا ہے... روزانہ عمران خان اور طاہر القادری کی تقریریں ٹی وی پر سننے والوں کو یقین ہونے لگا ہے کہ موروثی سیاست کے علمبردار جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ سیاسی تاجر‘ وڈیرے اور لٹیرے دھن دھونس دھاندلی کے اس نظام کو جاری رکھنے کے لیے متحد و منظم ہیں‘ سب ایک ہیں‘ سب ایک ہیں ورنہ کوئی تو سیالکوٹ میں سیلاب کی نذر ہونے والے میاں بیوی کا ذکر کرتا جن کے تین چھوٹے چھوٹے بچے زمانے کی ٹھوکر پر ہیں‘ کسی کو وہ بدنصیب دلہن یاد آتی جو ملتان کے قریب کشتی کے حادثے میں سہاگ رات سے پہلے بیوہ ہوئی اور اب میکے و سسرال کے طعنے سنتی ہے۔
مسلم لیگی کارکن اور ووٹر بھی اس ملک کے باسی ہیں۔ انہی مشکلات کا شکار‘ جن کا تذکرہ دھرنے میں صبح سے شام تک ہوتا ہے۔ روٹی‘ کپڑا‘ مکان کے مسائل‘ صحت‘ تعلیم اور روزگار کی عدم دستیابی اور قدم قدم پر ناانصافی‘ ظلم اور استحصال۔ مرنا آسان جینا مشکل اور عزت و وقار کے ساتھ جینا تقریباً محال۔ پھر صابر شاہ کی زبان کیوں نہ پھسلے اور ان کے پیروکار اور مسلم لیگی کارکن دیوانہ وار نعرہ کیوں نہ لگائیں گو نواز گو ع
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے