تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     21-09-2014

سچ تو یہ ہے

آدمی کو خدا بننے کی تمنّا کیوں ہے؟ وہ آدمی کیوں نہیں بنتا؟ 
ہفتہ بھر جستجو اور تحقیق کی تو یہ کھلا کہ حقیقت مختلف تھی۔ اوّل اوّل جو نتائج اخذ کیے تھے، وہ ادھورے تھے یا غلط۔ دو نکات دل کے دروازے پر دستک دیتے رہے۔ آدھا سچ جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ثانیاً وہ جو کرشن نے مہابھارت کے ہنگام ارجن سے کہا تھا: سچائی کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔ سب سے بڑھ کر سرکارؐ کا فرمان ''گونگے شیطان نہ بنو اور پوری گواہی دو‘‘۔ 
آسانی سے کون اپنے سر پہ پائوں رکھ سکتا ہے لیکن پھر آسکر وائلڈ نے جتلا دیا تھا کہ پتھروں کے سوا ہر ایک کو کبھی نہ کبھی اپنی تردید کرنا پڑتی ہے۔ آخر کو یہی فیصلہ کیا ؎ 
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح 
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے 
بے تعصب اور باخبر لوگوں سے بار بار مباحثہ کیا تو معلوم ہوا کہ 1971ء کے بعد یہ پاکستان کے خلاف سب سے بڑی سازش تھی۔ صرف حکومت نہیں، ملک کے خلاف اور افواجِ پاکستان کے خلاف۔ بجا کہ اکثر لوگ اپنے طور پر مخلص رہے ہوں گے۔ انہیں ادراک نہ تھا کہ نادانستگی میں وہ بیرونِ ملک مرتّب کیے گئے منصوبے کا حصہ بن رہے ہیں۔ ہدف جس کا یہ تھا کہ ملک کو انارکی میں مبتلا کر کے خانہ جنگی کا شکار کر دیا جائے‘ استعمار تاکہ اپنا ایجنڈا پوری طرح نافذ کر سکے۔ جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع اس منفرد سرزمین کو اور بھی زیادہ مجبور اور بے بس کر دیا جائے۔ 
پوری تفصیل اب بھی بیان نہیں ہو سکتی۔ فتنہ قتل سے بھیانک تر ہے۔ طوفان گزر چکا۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دشمن کے عزائم ناکام ہو گئے۔ مسلسل کرید، مسلسل مشاورت اور پیہم غوروفکر کے بعد اس ناچیز کا خیال یہ ہے کہ منصوبہ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس نے بنایا تھا۔ جو باقی لوگ شریک ہوئے، ایک کے سوا، باقی اپنے محدود مقصد کے لیے سرگرم تھے... حصولِ اقتدار! میرا خیال ہے کہ وہ ایک صاحب ایجنٹ ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کون صاحب۔ 
جب سے آدمی اس دنیا میں آیا ہے، حصولِ طاقت کی تمنا سے بڑھ کر کوئی نشہ اس نے نہیں دیکھا۔ عقل اور حواس گم کر دیتا ہے ؎
متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی 
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی
کچھ اور لوگ بھی شریک تھے۔ سپریم کورٹ کے ایسے ججوں پر مشتمل، جن پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، اگر ایک کمیشن قائم کیا جائے تو چند ماہ میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں، سب جانتے ہیں کہ کچھ سرکاری افسر بھی تھے۔ اپنی حدود سے انہوں نے تجاوز کیا۔ بعض کی نیت شاید بری نہ ہو مگر کام بُرا ہی کیا۔ ایک وفاقی وزیر بھی، جو روٹھ گیا تھا اور اپنی اہمیت واضح کرنے پر تُلا تھا۔ 
انتخابی دھاندلی کا کچا چٹھا کھولنے کے علاوہ، کھرا الیکشن کمیشن اور آئندہ خرابی کو روکنا ہی اگر مقصود ہوتا تو پانچ مطالبات کی قبولیت اور چھٹے کی مشروط منظوری کے بعد سمجھوتے میں صرف ایک ہی رکاوٹ تھی... مضبوط اور پائیدار ضمانت۔ چیف آف آرمی سٹاف سے وزیراعظم کی ذاتی استدعا کے بعد دونوں احتجاجی لیڈروں سے رابطہ ہوا تو فوج یہ رکاوٹ دور کرنے پر آمادہ ہو گئی اور مکمل طور پر۔ کس کس نے اس سعید کاوش کو سبوتاژ کیا؟ سب سے بڑھ کر طاہرالقادری نے کہ کامیابی کا تمام تر انحصار رازداری پر تھا۔ نہ صرف برسر بازار بھید کھولا بلکہ یہ تاثر بھی دیا کہ یہ ان کی فتح اور وزیر اعظم کی شکست ہے۔ اس حد تک عمران خاں نے بھی ان کی پیروی کی کہ ملاقات منکشف کر دی۔ پھر 
محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار اور سابق صدر زرداری بروئے کار آئے۔ ان میں سے ہر ایک کے اپنے مقاصد تھے... اور تشریح کرنے کی ضرورت نہیں۔ پارلیمانی پارٹیوں کی طرف سے اظہارِ برہمی کے بعد وزیر اعظم پیچھے ہٹ گئے۔ اگر وہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ فرما سکتے۔ اگر وہ یہ کہتے کہ قومی مفاد اور آئین کے خلاف کوئی سمجھوتہ نہ ہو گا اور یہ کہ ان کے حلیف ازراہِ کرم صبر سے انتظار کریں تو معاملے کی نوعیت یکسر مختلف ہو جاتی۔ بحران تبھی تمام ہو گیا ہوتا۔
سب کے سب ہیجان کا شکار تھے۔ سب کی نظر عارضی مفاد اور دشمنی کا حق ادا کرنے پہ تھی۔ نفسانفسی کے عالم میں کسی نے بڑی تصویر دیکھی اور نہ کسی نے قومی مفاد کے تقاضوں کو اوّلین ترجیح سمجھا۔ بحران اسی لیے دراز ہوا‘ تا آنکہ اللہ کی رحمت سے طوفان اترنے لگا۔ یہ وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کی پے در پے ملاقاتوں کے بعد ہوا۔ خوش قسمتی سے جنرل راحیل شریف اوّل دن سے سوچے سمجھے راستے پر چلتے رہے۔ وزیر اعظم ایک مرحلے پر خوف اور کنفیوژن کا شکار تھے مگر سپہ سالار نہیں۔ اپنا کردار، آئینی کردار انہوں نے حسن و خوبی سے ادا کیا؛ حالانکہ فوجی قیادت کو وزیر اعظم سے شکایات تھیں... اور وہ واضح ہیں!
اب بھی واضح ہے کہ جاوید ہاشمی کے بعض الزامات بالکل درست تھے۔ الگ ہوئے تو اچھا کیا۔ اس کے بعد مگر پے در پے غلطیاں کیں۔ موقعہ پرستوں سے مشورے، نون لیگ میں اپنے ذاتی احباب سے رابطے وغیرہ وغیرہ۔ ضرورت ہی نہ تھی، الٹا نقصان دہ۔ خود ان کی ذات کے لیے بھی مگر جاوید ہاشمی ہمیشہ سے ایسے ہیں۔ ابتلا میں ڈٹ کر کھڑے ہونے مگر اپنی ذات کے حوالے سے خیالات کے جنگلوں میں بھٹکنے والے۔ انہیں فقط دو نکات بیان کرنے تھے۔ عمران خان صاحب! مجھے آپ کے تجزیے سے اتفاق ہے اور نہ طرزِ عمل سے۔ اس کے بعد خواہ بیرونِ ملک چلے جاتے، مطلوبہ مقصد حاصل ہو گیا ہوتا۔ تقاریر فرمانے اور انٹرویو دینے کی ضرورت نہ تھی۔ 50 کروڑ روپے والا افسانہ حلق سے نہیں اترتا۔ پہلے ہی وہ فیصلہ کر چکے تھے۔ کسی کو ترغیب دینے کی ضرورت کیا تھی؟ ہاشمی کا اختلاف محض نظریاتی نہ تھا، شخصی بھی۔ شاہ محمود کے ساتھ ہمیشہ سے چلی آتی رقابت، جو پہلے دن سے پارٹی میں ان کی جڑیں کاٹ رہے تھے۔ پانچ نسلوں سے خوشامد کا دو سو سالہ تجربہ رکھنے والا آدمی، کپتان کے دل و دماغ پر قبضہ جما چکا تھا۔ 
منصوبہ یہ تھا: کم از کم پانچ لاکھ مظاہرین کے ساتھ اتنا بڑا ہنگامہ اٹھایا جائے کہ سرکار تو کیا، عسکری قیادت کے اعصاب بھی جواب دے جائیں۔ پارلیمان اور ایوانِ وزیر اعظم پر قبضہ کر کے تین دن میں حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ۔ پچاس ہزار مظاہرین بھی پہنچ نہ سکے۔ سراج الحق اور ایم کیو ایم نے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا۔ ایک نے تحریکِ انصاف اور دوسری نے علاّمہ صاحب کی ضمانت دی۔ وعدہ خلافی کرتے ہوئے، مظاہرین جب ریڈ زون میں داخل ہوئے تو ضامن جماعتوں نے اس پر رسمی سا احتجاج بھی نہ کیا۔ 
خرابی کو انتہا پر پہنچا دینے میں، سب سے زیادہ مدد خود نون لیگ کے لیڈروں نے فراہم کی۔ میڈیا گروپ کی مدد اگر کرنا ہی تھی تو فوج کا مذاق اڑانے کی ضرورت کیا تھی؟ منہاج القرآن یونیورسٹی کے سامنے چھوٹے سے حفاظتی حصار کو ہٹانے کے لیے اتنا بڑا لشکر جھونکنے کا مطلب کیا تھا؟ چودہ شہریوں کو قتل اور 70 پر گولیاں چلانے کا سانحہ سوال پوچھتا ہے کہ کیا ان کی عقل گھاس چرنے گئی تھی؟ 
حکومت کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ چودہ ماہ کے دوران عام آدمی کے لیے اس نے ایک قدم بھی نہ اٹھایا۔ بھوکا، بے روزگار، پولیس اور پٹوار کا ستایا، مہنگائی کا مارا عام آدمی۔ اسی پر بس نہیں، وزیر اعظم من مانی پر تلے رہے کہ بھارت، افغانستا ن اور امریکہ سے مراسم کی نوعیت وہ ذاتی طور پر طے کریں گے۔ اپنے ذوق اور اپنے کاروباری مفادات کے مطابق۔ شہنشاہِ اکبر کی طرح۔ اکبرِ اعظم تو مگر نو رتنوں سے مشورہ کیا کرتے اور یہ سب کے سب مغل نہ تھے۔ ٹوڈرمل سے التجا کرنے کے لیے، اس نے آگرہ سے چونیاں تک کا سفر کیا تھا۔ مسلسل نو دن!
کوئی چیز چھپی نہ رہے گی۔ وزیر اعظم طاقتور ہو کر ابھرے تو اندیشہ یہ ہے کہ میڈیا سمیت، کسی کو معاف نہ کریں گے۔ کشمکش جاری رہے گی۔ پیپلز پارٹی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے قابل ہی نہیں؛ چنانچہ کپتان ہی قائدِ حزبِ اختلاف رہے گا۔ مولانا فضل الرحمن کی مان لی گئی تو پختون خوا حکومت اکھاڑ پھینکی جائے گی۔ فساد اور بڑھے گا۔ 
پیہم صد ا آتی ہے مگر سنتا کوئی نہیں۔ فالیعبدوا رب ھذا البیت الّذی اطعمھم من جوع و اٰمنھم من خوف۔ انہیں اس رب کی عبادت کرنی چاہیے، جس نے بھوک میں انہیں رزق اور خوف میں امن عطا کیا۔ 
پھر یاس یگانہ ؔ چنگیزی کی آواز ؎ 
نشہ خودی کا چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا 
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
آدمی کو خدا بننے کی تمنّا کیوں ہے؟ وہ آدمی کیوں نہیں بنتا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved