کالم میں تنگیٔ جا کے باعث صاحب موصوف کے مکتوب کا ابتدائی حصہ ہی نقل کیا جا سکا تھا۔ اب اس کا بقیہ بھی دیکھ لیں تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی حق تلفی کی گئی ہے:
''مجھے پہلے ہی شک تھا کہ آپ کو فارسی نہیں آتی۔ آپ کی اردو یقینا اتنی اچھی ہے جتنی ایک عام شہری کی ہو سکتی ہے لیکن فارسی کا خانہ خالی ہے۔ مجھے یہ شک اس وجہ سے ہوا تھا کہ جب آپ نے غالب کے اردو کلام کی تمام اغلاط دریافت کر لیں تو اصولاً آپ کو غالب کے فارسی کلام کی طرف توجہ کرنی چاہیے تھی کیونکہ آپ یقینا وہاں بھی بے شمار فاش غلطیاں دریافت کر لیتے اور غالب پر دوہرا احسان کرتے لیکن آپ نے غالب کے فارسی کلام کی طرف توجہ نہ دی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ فارسی سے نابلد ہیں۔ میں نے ان دنوں اخبار کے ایک کالم میں آپ کو دعوت بھی دی تھی کہ آپ غالب کے فارسی کلام کی طرف توجہ فرمائیں لیکن آپ نے ایسا نہ کیا۔ اگر آپ نے میٹرک تک ہی فارسی پڑھی ہوتی تو آپ غالب کو کبھی معاف نہ کرتے۔ آپ نے میری کتاب ''گستاخی معاف‘‘ پر بغیر پڑھے تبصرہ کر دیا جو غالباً میرے ان کالموں کا جواب تھا جو میں نے آپ کی غالب شناسی کے بارے میں لکھے تھے۔ چلیے آپ ''گستاخی معاف‘‘ جیسی فضول کتابیں نہ پڑھیں لیکن دوسرے اہلِ قلم کی تحریریں تو غور سے پڑھ لیا کریں تاکہ آپ اپنے دال دلیے میں زبان کا ستیا ناس نہ کریں‘‘۔
غالب کی اغلاط کی نشاندہی یا درستی کی بھی خوب کہی۔ یعنی آپ کہنا تو یہ چاہتے ہیں کہ غالب کے اردو کلام کی غلطیاں نکالنا کون سا مشکل کام ہے‘ وہ تو میں بھی کر سکتا ہوں‘ آپ ذرا اس کے فارسی کلام کی غلطیاں نکال کر دکھائیں! ایک خاتون کسی تنگ سڑک پر جا رہی تھیں کہ ان کی گاڑی اچانک بند ہو گئی۔ وہ نیچے اتریں‘ بونیٹ کھولا اور اِدھر اُدھر سے دیکھنے لگیں۔ اتنے میں عقب میں آنے والی گاڑی کے ڈرائیور نے ہارن بجانا شروع کردیا۔ موصوفہ نے گاڑی سٹارٹ کرنے کی دوبارہ کوشش کی جو نہ ہوئی جبکہ پچھلی گاڑی والے صاحب مسلسل ہارن بجاتے چلے جا رہے تھے۔ آخر تنگ آ کر وہ پیچھے گاڑی والے صاحب کے پاس گئیں اور جا کر ان سے کہا: ''آپ ذرا میری گاڑی سٹارٹ کردیں‘ آپ کا ہارن میں بجاتی ہوں!‘‘
سو‘ میں بھی بخاری صاحب سے یہی عرض کروں گا کہ آپ کی فارسی چونکہ بہت اونچے درجے کی ہے‘ آپ ذرا غالب کے فارسی کلام کی غلطیاں نکال دیں‘ آپ کی باقی کتاب میں پڑھتا ہوں‘ میں کسی کا حساب نہیں رکھا کرتا۔ میں نے اگر آپ کے مذکورہ کالموں کو درخور اعتناء سمجھا ہوتا تو اسی وقت سکور برابر کر دیتا اور آپ کو اتنے برس تک انتظار میں نہ رکھتا۔ دربار سجا ہوا تھا۔ بادشاہ نے مُلا دو پیازہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک نظم لکھی ہے اور آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ ملا نے کہا‘ ارشاد فرمایئے۔ بادشاہ نے نظم سنا کر مُلا سے اس کی رائے پوچھی تو جواب ملا کہ بس یونہی سی ہے‘ جس پر ملا کو کچھ ماہ کے لیے جیل بھجوا دیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد بادشاہ نے ایک اور نظم لکھی اور ملا کو سنائی تو وہ نظم سن کر چل دیئے‘ جس پر بادشاہ نے کہا: ''ملا‘ کہاں چلے؟‘‘
''جناب‘ جیل خانے!‘‘ مُلا نے جواب دیا۔
سو‘ میں اگر آپ کی تصنیفِ لطیف پوری پڑھ بھی جاتا تو میری اس کے بارے میں رائے وہی ہونا تھی جو میں پہلا مضمون پڑھنے کے بعد دے چکا تھا! ملک عزیز میں اگر دو نمبر شاعروں‘ ادیبوں کی تعداد زیادہ ہے تو دو نمبر قارئین بھی اسی تناسب سے فراوانی میں ہیں۔ آپ اگر دو نمبر چیز کو ایک نمبر کے طور پر فروخت کرنے کی کوشش کریں گے تو بددیانتی اور کیا ہوتی ہے؛ چنانچہ دو نمبر کتابیں چھپتی بھی زیادہ اور بار بار ہیں‘ اور بکتی بھی زیادہ ہیں۔ اور‘ اگر کوئی ماننے سے انکار کردے تو اسے ڈنڈے کے زور پر منوایا جاتا ہے یعنی بقول حفیظ جالندھری ؎
حفیظؔ اہلِ جہاں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
اسی لیے آپ کو اپنی کتاب کو تسلیم کروانے میں اتنا زور لگانا پڑ رہا ہے۔ تو بھائی‘ میرے جیسے جاہل اگر نہ بھی مانیں تو آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ کو ماننے اور منوانے والے کیا کم ہیں؟ آپ خواہ مخواہ ناراض ہو گئے۔ ڈاکٹر یونس جاوید میرے دوست ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے اسی کالم میں ان کے ناول کے بارے میں بھی اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا تھا۔ اگلے روز ان کا فون آیا کہ میں نے صرف آپ کے کالم کی خاطر ''دنیا‘‘ اخبار لگوا رکھا ہے ،حالانکہ اس سے میرا بجٹ متاثر ہوتا ہے۔ اگر کوئی میری غلطی کی نشاندہی کرے تو میں اُسے اپنا محسن سمجھتا ہوں اور اسے درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ آدمی تو عمر بھر طالب علم ہی رہتا ہے۔
ایک صاحب ایک مصور کے پاس اپنی تصویر بنوانے کے لیے گئے۔ مصور نے اُن کا خاکہ بنا لیا اور ان سے کہا کہ دس روز کے بعد آ کر لے جائیں۔جب وہ صاحب تصویر لینے کے لیے آئے تو مصور نے پہلے تصویر کی طرف اور پھر اُن کی طرف دیکھا اور بولا:
''آپ دس دن میں کتنا تبدیل ہو گئے ہیں!‘‘
سو‘ اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا اور اُسے دوسروں کے کھاتے میں ڈال دینے کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے عرض ہے کہ آسمان کو شاعروں نے ہمیشہ ظلم و ستم کا استعارہ قرار دیا ہے مثلاً غالباً حالیؔ کہتے ہیں ؎
ملتے ہی اُن کے بھول گئیں کُلفتیں تمام
گویا ہمارے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا
یعنی ساری کُلفتیں آسمان ہی کی وجہ سے تھیں۔ نیز سارے احکامات چونکہ آسمان یعنی اوپر سے ہی آیا کرتے ہیں، اس لیے اسے تقدیر کا بھی استعارہ قرار دیا جاتا ہے اور بُرے وقت کے لیے آسمان سر پر ٹوٹ پڑنا جیسے محاورے بھی وضع کر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح ''گردوں‘‘ کو بھی تقدیر کا ہم معنی قرار دیا گیا ہے۔ یہ شعر دیکھیے ؎
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے مُنادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
انوریؔ کا ایک شعر ہے کہ ؎
ہر بلا کاید از فلک پرسد
خانۂ انوری کجا باشد
تاہم میں نے آسمان کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا ہے ؎
مجھ پر، ظفرؔ، خدا کی زمیں تنگ ہی سہی
خوش ہوں کہ میرے سر پہ کھلا آسماں تو ہے
جبکہ غالب کہتا ہے کہ ؎
فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے کہ میں ہی نہیں
دراز دستیٔ قاتل کے امتحاں کے لیے
بہرحال‘ ختم کلام اس پر ہے کہ اختلافِ رائے ادب کی جان ہے اور اگر یہ نہ ہو تو ادب جامد ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے اسے مخالفت یا لڑائی ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے۔ پھر مظفر بخاری کے ساتھ تو ایک دلی تعلق بھی ہے یعنی گورنمنٹ کالج والا‘ اور اولڈ راوین ہونا کوئی معمولی تعلق نہیں ہوتا۔ میں‘ میرے تینوں بیٹے‘ میری اکلوتی بیٹی اور ایک بہو راوین ہیں بلکہ بڑی بہو (مسز آفتاب) تو اب وہاں پڑھاتی بھی ہیں۔ مظفر بخاری مجھے بے شک مزید بُرا بھلا کہہ لیں لیکن اپنا دشمن یا مخالف نہ سمجھیں۔ وہ چھوٹے بھائی ہیں۔ اگر پسند کریں اور کسی دن ملنے کے لیے آ جائیں تو میں چشم براہ رہوں گا! (ختم)
آج کا مطلع
اک دن اِدھر سوارِ سمندِ سفر تو آئے
خود بڑھ کے روک لیں گے کہیں وہ نظر تو آئے