پارلیمنٹ کے طویل ترین مشترکہ اجلاس کے آخری روز جمہوریت کے حق میں قرار داد منظور کرانے کے بعد اپنے اختتامی خطاب میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے انتہائی معنی خیز انداز میں کہا ہے کہ وہ کسی'' لانگ یا شارٹ مارچ‘‘ سے ڈرنے والے نہیں بلکہ ان کا مقابلہ کریں گے۔ وزیر اعظم جو کہنا چاہتے تھے‘ انہوں نے کہہ دیا ہے اور جن کو کہنا چاہتے تھے‘ ان میں عقل سلیم کا ذرا سا بھی مادہ ہو تو ان تک وزیر اعظم کا اشارہ پہنچ گیا ہو گا اور یہ کھلے اور واضح اشارے صرف وزیر اعظم نے ہی نہیں‘ بلکہ سینیٹر محسن لغاری کے سوا‘ آئین کے سارے پجاریوں نے دیے۔ہرممبر کی تقریر سن کر لگ رہا تھا کہ یہ ہماری پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس نہیں، بلکہ لوک سبھا ہے۔ پارلیمنٹ اور جمہوریت کو مقدس کہنے والوں نے اپنے مفادات کو تو مقدم جان لیا لیکن اس دوران کسی نے ایک لمحے کے لیے بھی پاکستان کے بارے میں رتی برابر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کسی نے نہ سوچا کہ غریب عوام کی جیبوں پر 70 ارب روپے کا ڈاکہ کیوں اور کس کے کہنے پر مارا جا رہا ہے۔
برسوں پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ جس جس گھر کی چھت ٹپکتی ہے‘ وہاں وہاں بھٹو رہتا ہے اور آج اگر یہ کہا جائے کہ چھت ٹپکنے کے علا وہ جس جس گھر میں بجلی کا بل آتا ہے‘ وہاں وہاں عمران خان رہتا ہے تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف 70 ارب کے ڈاکے پر تو خاموش رہے لیکن ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو گرتے ہوئے فرمایا کہ نندی پور پاور ہائوس منصوبہ تین سال کی تاخیر سے مکمل ہونے کی وجہ سے پاکستان کو350 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ کیا اس ملک کے وہ عوام جنہوں نے کبھی ایک لاکھ روپے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر نہیں دیکھے‘ اندازہ کر سکتے ہیں کہ تین سو پچاس ارب روپے کتنے ہوتے ہیں ؟ آسان لفظوں میں اس طرح سمجھایا جا سکتا ہے کہ لاہور کی میٹرو بس کا منصوبہ پنجاب حکومت کی زبان پر اعتماد کرتے ہوئے اگر چالیس ارب روپے کا مان لیا جائے تو وہ نقصان جو پاکستان کو پہنچا ہے‘ اس سے پاکستان بھر میں اس طرح کی ستائیس کلومیٹر لمبی 8 میٹرو بس کی سڑکیں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔
اس سے عوام کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ350 ارب روپے کتنے ہوتے ہیں؟ تاہم اگر پاکستانی قوم اس تاخیر سے ملک اور قوم کو پہنچنے والے نقصان کا حساب مانگے تو ان پر جمہوریت دشمنی کا الزام لگ جاتا ہے۔کیا پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے کسی ایک جمہوریت پر فدا ہونے والے کسی ایک ممبر نے بھی اس لوٹی جانے والی دولت کا حساب مانگا؟ ان350 ارب روپوں کے نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئوں میں سے کسی ایک نے ان کے محاسبے کا سوال اٹھایا؟ کسی نے انہیں قانون اور انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بات کی؟ یہ خاموشی اس لیے تو نہیں تھی کہ سامنے سینہ تانے کھڑے ہوئے پاسبانِ جمہوریت نے ناراض ہو جانا تھا؟ تین سال قبل ا س ملک پر کون حکمران تھے؟۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری یا خورشید شاہ اور رضا ربانی؟۔آپ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر نصب جنگلا ٹوٹنے سے ملک کی پارلیمنٹ ننگی ہو گئی ہے‘ کبھی سوچا ہے کہ پاکستان کو نندی پور پاور اسٹیشن کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے تین سو پچاس ارب روپے کا نقصان پہنچنے سے اس ملک قوم کی کتنی مائیں‘ بہنیں اور بچے ننگے ہو ئے ہوں گے؟ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ زرمبادلہ کی صورت میں نندی پور پاور پروجیکٹ اس وقت ڈیزل سے بجلی پیدا کر رہا ہے جبکہ بعد میں فرنس آئل اور گیس سے بھی بجلی پیدا کر سکے گا لیکن اس وقت ڈیزل سے پیداوار پر پاکستان کو اس کی لاگت43 روپے فی یونٹ برداشت کرنا پڑ رہی ہے اور اس منصوبے کو گیس پر چلانے کے لیے ابھی کافی وقت لگے گا‘ مگر اس وقت تک ہم ڈیزل کی خریداری پر اربوں ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ خرچ کرتے رہیں گے۔ اس طرح یہ نقصان350 نہیں بلکہ700 ارب روپوں سے بھی زیا دہ نظر آ رہا ہے۔
کیا ملک و قوم کی معیشت کا اس طرح جنازہ نکالنے والوں سے
یہ پوچھنا بھی گناہ ہے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟۔کیا اس سے جمہوریت پٹڑی سے اتر جائے گی؟۔وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سیلاب سے متاثرہ جس علا قے میں بھی جاتے ہیں ان کی زبان سے سیلاب زدگان کے لیے اگر ایک لفظ نکلتا ہے تو عمران خان کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے سو الفاظ برآمد ہوتے ہیں۔ ان کا یہی فرمانا ہے کہ چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہونے سے بجلی کے منصوبے رک گئے ہیں۔ جناب خادم اعلیٰ پنجاب‘ عمران خان سے بعد میں نپٹ لیجئے گا‘ پہلے اپنے وزیر پانی و بجلی کی بات پر بھی غور کریں جو دہائیاں دے رہے ہیںکہ نندی پور پروجیکٹ کی تکمیل میں تین سال کی تاخیر کی وجہ سے پاکستان کو350 ارب کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب اور خواجہ سعد رفیق سمیت پوری حکومتی جماعت عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو چینی صدر کے دورہ پاکستان کو ناکام بنانے کا مجرم قرار دے رہے ہیں لیکن یہ بھی تو قبول کریں کہ وہ انتہائی مہنگے اور نا مناسب نرخوں پر کوئلے پر چلنے والے پاور پروجیکٹس کے سودے طے کرنے جا رہے تھے؟۔
پاکستان اور دوسرے ممالک میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے لگائے جانے والے پاور پروجیکٹس کے مختلف معاہدوں کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ جان کر آدمی لرز کر رہ جاتا ہے کہ اس قدر فرق کیوں اور کس لیے؟ جنوری2014ء میں سائوتھ کوریا کے سرکاری ادارےKOSEP کے بھارت کی مہاراشٹر جنبھوش پاور جنریشن کمپنی سے 600میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے کیے جانے والے معاہدے کی مثال کو اگر سامنے رکھیں تو ریکارڈ گواہ ہے کہ یہ معاہدہ585 ملین امریکی ڈالر میں کیا گیا یعنی 0.91 ملین ڈالر فی میگاواٹ۔ اب اگر پنجاب حکومت کے مجوزہ معاہدوں کے نرخ سامنے رکھیں تو یہ1.7 ملین ڈالر فی میگاواٹ میں کیا گیا ہے۔ یہ فرق 0.79ملین ڈالر فی میگاواٹ بنتا ہے اور اگر اسے 1400 میگاواٹ سے ضرب دی جائے تو یہ فرق 1106 ملین ڈالر تک جا پہنچتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اتنا فرق کیوں ؟
کہا جاتا ہے کہ رعایا بادشاہ کی اولاد کی طرح ہوتی ہے لیکن سلطنت پاکستان کی بادشاہت نے یہاں بسنے والی رعایا پر اس ماہ کے بجلی کے بلوں کی صورت میں مجموعی طور پر70 ارب کا جو پہاڑ گرایا ہے‘ اس نے عوام کی ہڈیاں پسلیاں ایک کر دی ہیں۔ بادشاہ سلامت کی امریکہ کی مدد سے فتح کی جانے والی اس مفتوحہ قوم سے وہ کون سی غلطی ہو گئی ہے جس کی اسے اس قدر بھاری سزا دی گئی ہے۔اگر کوئی سوچ سکتا ہے تو یہ سوچے کہ دس بارہ ہزار روپے ماہوار کمانے والے کو جب پانچ سے سات ہزار بجلی کا بل آئے گا تو وہ سوائے دیواروں سے سر ٹکرانے کے اور کیا کرے گا؟