کراچی سے اسلام آباد جانے والی ایک پرواز میں فرسٹ کلاس میں ایک وی آئی پی شخصیت سفر کررہی تھی۔ جب جہاز اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترا تو ہمیں انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تاکہ وہ صاحب آرام سے دوجھنڈوں والی مرسڈیز میںبیٹھ جائیں۔۔۔ ان میں سے ایک جھنڈا پاکستان کا تھا اور دوسرا پی پی پی کا۔ ہمیں زیادہ دیر تک انتظار نہیں کرنا پڑا تھا ، تاہم جو بات حیران کن تھی وہ مرسڈیز کا جہاز کے انتہائی قریب آنا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ڈرائیور گاڑی کو جہاز کے اندرلے آنا چاہتا ہے۔ عقل حیران تھی کہ کیا وہ صاحب کو ئی انتہائی حساس غیر ملکی شخصیت ہیں یا کسی غیر ملکی حساس ادارے کے باس ہیں جنہیں بہت زیادہ سکیورٹی درکار ہے؟لیکن ٹھہریں، وہ چیئرمین سینٹ، فاروق ایچ نائیک تھے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ نائیک صاحب کو اتنی سکیورٹی کی کیوں ضرورت ہے تو میں نے ایک ایئرہوسٹس سے پوچھا تو اُس نے تصدیق کردی کہ یہ وی آئی پی شخصیت فاروق نائیک ہی ہیں۔ تو کیا وہ یہ سوچ رہے تھے جہاز میں موجود ہم عام پاکستانی مسافروںسے چیئرمین سینٹ کو کسی قسم کا کوئی خطرہ تھا؟ کیا ضروری تھا کہ دیگر مسافروں کو دم سادھے بیٹھے رہنے کی ہدایت کرکے اُنہیں پراسرار طریقے سے جہاز سے اتارا جائے؟
فاروق نائیک محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے ذاتی وکیل تھے۔ اُنھوںنے کئی برسوں تک ان کے لیے عدالتوں میں قانونی جنگ لڑی۔ جب پی پی پی اقتدار میں آئی تو نائیک صاحب کو سرفراز کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ بنا دیا گیا۔ بعد میں وہ وزیرِقانون بھی بنے۔ واقف ِحال جانتے ہیں کہ نائیک صاحب کا تعلق کسی متمول خاندان سے نہیں ہے اور نہ ہی ان کے خون میں وی آئی پی کلچر کی بو پائی جاتی ہے۔ پھر انہیں یہ گراوٹ کیسے راس آئی؟ ایک اچھا بھلا تعلیم یافتہ شریف انسان وی آئی پی کیسے بن گیا؟یقینا جب وہ عام شہریوں جیسی زندگی بسر کرتے تھے، عام ٹرانسپورٹ استعمال کرتے تھے اور پاکستان کے عام شہری ان کے اردگرد تھے تو ان کی جان کو ئی خطرہ نہ تھا تو پھر چیئرمین بنتے ہی اُن کے سینے میں کون سا حساس راز دفن ہوگیا تھا جس کی حفاظت کی جانی تھی؟ آخر کون سی چیز انسان کو وی آئی پی بناتی ہے؟چلیں رحمان ملک صاحب کہہ سکتے ہیں کہ وہ وزیر ِ داخلہ تھے ، اس لیے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، لیکن آج ملک صاحب تو دھرنوں میں مصالحت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں اور ان کے دشمن ہوا میں تحلیل ہوچکے ہیں۔ کم از کم اُس پرواز کے مسافروں کا یہی خیال تھا جنھوںنے ملک صاحب کو جہاز میں سوار ہونے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ ان کی وجہ سے جہاز مبینہ طور پر دوگھنٹے لیٹ ہوا تھا۔ اطلاعات کے مطابق جب ملک صاحب جہاز کی طرف بڑھے تو انتظار کی اذیت برداشت کرنے والے مسافروں کا پارہ چڑھ گیا اور اُنھوں نے انہیں جہاز پر سوار ہونے سے روک دیا۔
اس کا مطلب ہے کہ عوام میں برہمی کے آثار ہویدا ہورہے ہیں۔ ہمیں یقیناایسے رویے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے اشرافیہ کے دماغ میں سمایا ہوا وی آئی پی خمار نکل سکے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ صرف سیاست دان ہی نہیںبلکہ تعلیم یافتہ سرکاری افسران بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ اس پر یاد آتاہے کہ ایک مرتبہ پنجاب کے ایک چیف سیکرٹری‘ جو رخصت پر چلے گئے تھے‘ کی گاڑی کی زد میں ایک شخص آکر ہلاک ہوگیا تھا۔ ان کے شوفر کو جیل میں بند کردیا گیا، لیکن اٹھائیس جنوری 2010ء کو لاہور سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامے نے یہ رپورٹ شائع کی۔۔۔''پنجاب کے چیف سیکرٹری کا ڈرائیور،غلام مرتضیٰ منگل کو پکڑا گیا کیونکہ جب وہ گاڑی چلارہا تھا تو ایک ریٹائرڈ کرنل ، محمد اکرام گاڑی کے نیچے آکر ہلاک ہوگیا تھا۔ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ چیف سیکرٹری نے اُسے ڈانٹا تھا کہ وہ تیز کیوں نہیں چلارہا اور وہ حادثہ تیز رفتاری کی وجہ سے ہی پیش آیا تھا۔ پتہ چلا کہ موصوف چیف سیکرٹری کا اپنے ڈرائیوروں کے ساتھ رویہ بہت تحکمانہ ہوتا تھا اورکئی ایک ڈرائیور ان کے رویے کی وجہ سے کام چھوڑ کے جاچکے تھے۔گزشتہ دو سال کے دوران پندرہ سٹاف ڈرائیور کام چھوڑ چکے تھے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ حادثے سے چند دن پہلے چیف سیکرٹری نے ڈرائیور مرتضیٰ کی ایک معمولی سی بات پر کیمپ آفس سٹاف کے سامنے بے عزتی کی تھی۔ حادثے کے وقت ڈرائیور ذہنی طور پر شدید تنائو کاشکار تھاکیونکہ باس سے اُسے ڈانٹ پڑی تھی اور پھر اس تنائو کے عالم میں تیز رفتاری کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ ''جیسے ہی حادثہ ہوا، سیکرٹری صاحب بے نیاز ی سے گاڑی سے اترے اور زخمی کرنل کو دیکھے بغیر ایک طرف چل دیے۔ بعد میں ڈرائیور کو فون پر حکم دیا کہ وہ کسی کو یہ نہ بتائے کہ وہ حادثے کے وقت گاڑی میں موجود تھے۔‘‘ڈرائیور کی طرف سے ایسا اعترافی بیان شائع ہونے پر بھی کچھ نہ کیا گیا۔ درحقیقت ایک بڑے سرکاری افسر کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ناممکن نہیں تو بھی بہت مشکل ہوتا ہے، چاہے و ہ کچھ بھی کر گزرے۔ اگرچہ مرنے والا شخص بھی فوج کا ریٹائرڈ افسر تھا لیکن چیف سیکرٹری نے اپنے پروں پر پانی تک نہ پڑے دیا۔ آج کل ہمارے وی آئی پیز کے ہونہار لڑکے عام شہریوں کو گولیوں سے بھون کر رقم ادا کرکے چھوٹ جاتے ہیں۔ ان کو نہ عدالتیں پکڑتی ہیں اور نہ نیب۔ ان کو بینک اربوںکے قرضے دے کر ازراہ ِ انسانی ہمدردی معاف کردیتے ہیں۔ عام کسان سے زرعی قرضے کی قسط ادا نہ ہو تو اس کے جانور کھو ل لیے جاتے ہیں لیکن وی آئی پیز کے لیے سات خون بھی معاف ہیں۔
پاکستان کے خمیر میں وی آئی پی کلچر اس طرح رچ بس چکا ہے کہ آسانی سے ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ زرداری صاحب سے لے کر وزیراعظم نواز شریف تک‘ ہمارے حکمران طبقے کے ڈی این اے میں وی آئی پی کلچر کے جینز موجود ہیں۔ اس سے مفرممکن نہیں۔ عام سرکاری افسران، جیسا کہ پٹوار ی اور تھانیدار بھی ''خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘‘ کی عملی مثال ہیں۔ کبھی تھانے جانے کا اتفاق ہو تو اندازہ ہوگا کہ ایس ایچ او صاحب بھی خود کو وزیر ِ داخلہ سے کم نہیں سمجھتے۔ لاہور کے سی پی او آفس کے گرد رکاوٹوں کو دیکھ کر ماضی میں تعمیر کیے جانے والے قلعے گتے سے بنے ہوئے گڑیا کے گھر دکھائی دیتے ہیں۔ شنید ہے کہ پولیس ہماری حفاظت کے لیے ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے سینئر مشیر سردار ذوالفقار کھوسہ چولستان جیپ ریلی سے واپس آرہے تھے‘ جب ایک بدقسمت موٹر سائیکل سوار ان کی گاڑی کی زد میں آکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کھوسہ صاحب کے ساتھ چلنے والے حفاظتی دستے نے موٹر سائیکل سوار کو مکھی کی طرح پرے پھینک دیا اورسفرجاری رہا۔ اس حادثے میں دو اور نوجوان بھی زخمی ہوئے۔ ان کی جان تو بچ گئی لیکن عمر بھر کے لیے معذور ہوگئے۔ لگتا ہے کہ خونی انقلاب سے کم کوئی آپریشن وی آئی پی کلچر کی برائی کو جڑ سے نہیں اکھاڑ سکتا۔ اگر پاکستان کو کسی انقلاب کی ضرورت ہے تو وہ یہی ہے۔