تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-09-2014

بربادی اور خوشحالی بذریعہ سیلاب

جو خوش نصیب حالیہ سیلاب سے متاثر نہیں ہوا‘ اس کے نزدیک شاید سارا معاملہ ایک جملے میں سمٹ جائے کہ ''سیلاب آیا اور چلا گیا‘‘۔ لیکن جو لوگ اس سیلاب کی زد میں آئے ہیں اور متاثر ہوئے ہیں‘ انہیں اس سیلاب کے اثرات دنوں‘ ہفتوں یا مہینوں نہیں‘ سالوں بدحال رکھیں گے۔ کسی چند ایکڑ کے کاشتکار‘ مزارعے یا کھیت مزدور کی کل کائنات چند بھیڑ بکریاں‘ دو ایک گائیں بھینسیں‘ سال بھر کی گندم کی چند بوریاں اور چند ایکڑ پر کھڑی ہوئی فصل‘ جو اس کے اگلے سال کی ضرورت کے لیے بھی بمشکل کافی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر دو تین کچے پکے کمروں پر مشتمل مکان۔ سیلاب ان سب چیزوں کو ایک ہی ریلے میں بہا کر لے جاتا ہے۔ مکان پانی میں بہہ گیا‘ فصل برباد ہو گئی‘ سال بھر کی گندم پانی کے نصیب میں لکھی گئی اور ڈھور ڈنگر کچھ سیلاب کی نذر ہو گئے اور کچھ ان پیسے والوں نے اونے پونے خرید لیے جو ایسے موقعے پر لوگوں کی مجبوریاں خریدنے کے لیے جیب میں پیسے ڈال کر فلڈ بند پر بیٹھے‘ اجڑے پُجڑے ان مجبوروں سے لاکھ روپے کی بھینس تیس ہزار میں اور تیس ہزار کا بکرا دس ہزار میں خرید رہے ہیں۔ متاثرین کیا کریں؟ مکان بنانے کے لیے رقم درکار ہے اور وہ صرف جانور بیچ کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے کہ ان کے پاس اور کچھ ہے ہی نہیں۔ 
ہم بھی کیا عجب قوم ہیں؟ جن کو مدد کی ضرورت ہے ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ ان کی قابل فروخت چیزوں کی قیمت تیسرا حصہ رہ گئی ہے اور جن چیزوں کی ان کو ضرورت ہے ان کی قیمتیں دگنا ہو چکی ہیں۔ مجبوری میں ان کو قرض بھی دگنے سود پر مل رہا ہے۔ سیلاب یقینا قدرتی آفت ہے۔ ہم اسے روک نہیں سکتے مگر اس سے بچائو کا انتظام ضرور کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں سیلاب آتے ہیں مگر ہر بار وہی پرانی بدانتظامی اور نااہلی صرف اور صرف ہمارے ہاں ہی نظر آتی ہے۔ جس جگہ سے بند گزشتہ سیلاب میں ٹوٹا تھا‘ اب بھی تقریباً وہیں سے ٹوٹا ہے۔ پچھلے سیلاب میں سڑک جہاں سے بہہ گئی تھی‘ اب بھی وہیں سے بہہ گئی ہے۔ ریلوے لائن جہاں سے گزشتہ سیلاب میں متاثر ہوئی تھی اب بھی وہیں سے خراب ہوئی ہے۔ جو بند پچھلی بار کمزور ٹھہرے تھے اس بار بھی وہی بند دھوکہ دے گئے۔ نااہلی‘ نالائقی‘ بے ایمانی اور کرپشن کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان۔ آئیں! صرف ملتان کا معاملہ دیکھیں۔ 
گزشتہ اور اس سے پیوستہ ہفتہ اہلِ ملتان کے لیے خاصا بھاری تھا۔ چھ لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی کا مہیب ریلا تریموں ہیڈ ورکس سے ملتان کی جانب رواں تھا۔ ملتان میں سیلاب نے پہلا امتحان ہیڈ محمد والا پل اور اکبر بند پر لینا تھا۔ تریموں سے پانی کا یہ ریلا چوبیس گھنٹوں میں پہنچنا تھا۔ اس دوران ہر دوست نے فون کر کے حال پوچھا‘ وہ پریشان تھے۔ ان کی یہ پریشانی دراصل ان کی محبت کا ثبوت تھی۔ مجھے خود کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہوگا۔ مجھے ملتان کے اردگرد سارے حفاظتی بندوں کا بھی علم ہے اور ان کی کتابی استعداد کا بھی۔ کتابی استعداد سے میری مراد ہے ان بندوں کی کاغذوں میں لکھی ہوئی مضبوطی‘ پانی کا دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت‘ بندوں کے ساتھ لگے ہوئے پانی کی مقدار ناپنے کے لیے Gauges اور بند توڑنے کی حد کو ظاہر کرنے والے Critical levels۔ مجھے علم ہے کہ محکمہ آبپاشی کے ریکارڈ میں سب چیزیں موجود ہیں مگر مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ یہ سب کچھ جعلی ہے۔ جھوٹ پر مبنی ہے اور حقیقی استعداد کا اس ظاہر کی گئی اور لکھی گئی استعداد کار سے کوئی تعلق ہے نہ نسبت۔ ہر سال بندوں کی مضبوطی کی مد میں کروڑوں روپے صرف ہوتے ہیں۔ اب تک ان حفاظتی بندوں میں اربوں روپے کی مٹی ڈالی جا چکی ہے اور اربوں روپے کی ہی مٹی سمندر برد ہو چکی ہے۔ ممکن نہیں کہ انسان کو پانی روکنے میں کامیابی نصیب نہ ہو۔ ہالینڈ کا تقریباً چھبیس فیصد رقبہ سطح سمندر سے دس سے تیرہ فٹ نیچے ہے۔ پورا ملک بحر شمالی کے کنارے پر واقع ہے اور آج تک سمندر نے وہاں اس قدر تباہی نہیں مچائی جتنی ہمارے ہاں کے لنگڑے لولے دریا مچاتے ہیں۔ ہالینڈ کا بارہواں صوبہ Flevoland سارے کا سارا سمندر کا پانی نکال کر اور بند باندھ کر بحرشمالی سے نکالا گیا ہے‘ ادھر ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ دریائوں کا پانی روکنے کے لیے بندوں کی تعمیر گھٹیا ہے‘ پانی کے اخراج کی نسبت سے بنائے جانے والے سارے دریائی پل کم استعداد کے حامل ہیں اور ہر بار سیلابی پانی کے ریلے کو گزارنے کے لیے مناسب راستوں کے بجائے دیہاتوں‘ قصبوں‘ کھیتوں‘ کھلیانوں اور باغات کو برباد کیا جاتا ہے۔ 
ملتان میں عشروں کے مطالبے کے بعد ہیڈ محمد والا پل بنانے کا منصوبہ بنا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں اس پر عملدرآمد شروع ہوا۔ ملتان سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے سے گزرنے والے دریائے چناب پر اس پل کی تعمیر سے ملتان اور مظفر گڑھ کے بہت سے علاقوں‘ ضلع لیہ تک رسائی‘ ملتان میانوالی روڈ اور ملتان خوشاب روڈ تک کا سفر تقریباً پینتالیس پچاس کلو میٹر کم ہو گیا۔ اس جگہ دریا کی سیلاب کے دنوں میں چوڑائی تقریباً تین چار کلو میٹر ہو جاتی تھی۔ جب پل بننے لگا تو بند اور اس کے نتیجے میں بیٹ کی زد میں آنے والی زمینوں کے با اثر مالکان نے 
پل اس جگہ سے تقریباً پون کلو میٹر آگے کروا دیا جہاں سے حقیقی طور پر دریا گزرتا تھا۔ دریا شہر کی جانب بائیں رخ پر بہتا تھا۔ جب پل بنا تو دریا کا رخ تبدیل کر کے اسے ایک کلو میٹر دائیں طرف بنے ہوئے پل کے نیچے سے گزارا گیا اور پل کی لمبائی بھی چھوٹی رکھی گئی۔ جب زیادہ پانی آیا تو دریا اپنے صدیوں پرانے قدرتی راستے کی طرف دبائو ڈالنے لگ گیا۔ پرانی گزرگاہ پر سڑک بن چکی تھی۔ احمق انجینئروں نے اس جگہ پر جہاں سے دریا کا قدرتی بہائو تھا کسی قسم کے درے بنانے یا پانی کے گزرنے کا راستہ ہی نہ بنایا تھا۔ اب جب چھ لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی آیا تو اس جگہ پر پانی کا دبائو بڑھنا شروع ہو گیا۔ اس جگہ پر سب کو پتہ تھا کہ پانی کا دبائو بڑھنے کی صورت میں سڑک بہہ جائے گی۔ بجائے اس کے کہ یہاں سے سیلابی صورتحال میں پانی گزارنے کا بندوبست کیا جاتا عقلمندوں نے یہاں بریچنگ ایریا بنا دیا۔ سڑک پر یہاں پلاسٹک کے پائپ دبا کر بارود بھرنے کا انتظام کردیا گیا تاکہ اسے دھماکے سے اڑا کر پانی کی گزرگاہ بنائی جا سکے۔ 
یہاں پر کریٹیکل لیول چار سو سترہ فٹ ہے۔ یعنی پانی اگر اس لیول تک آئے تو بند توڑا جانا طے کیا گیا تھا۔ ابھی پانی چار سو تیرہ فٹ لیول پر آیا تھا کہ آبپاشی والوں نے بند توڑنے کے لیے شور مچانا شروع کردیا۔ 2010ء میں تونسہ میں پانی کریٹیکل لیول سے پانچ فٹ اوپر چلا گیا اور محکمے والوں نے رائٹ مارجنل بند نہ توڑا۔ دوسری طرف ہیڈ محمد والا پر پانی کریٹیکل لیول سے چار فٹ نیچے تھا کہ بند کو سڑک والے مقام سے توڑ دیا گیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ بند کمزور تھے اور حقیقتاً چار سو سترہ فٹ کے لیول تک پانی آنے کی صورت میں بہہ جاتے۔ اپنی بے ایمانی اور نااہلی چھپانے کے لیے بند توڑ دیا گیا۔ یہ انکوائری شاید کبھی نہ ہو سکے کہ اگر بند کا کریٹیکل لیول چار سو سترہ تھا تو چار سو تیرہ پر کیوں توڑا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ دریا میں سلٹ آ جانے کی وجہ سے اب حقیقی کریٹیکل لیول تقریباً چار سو انیس فٹ ہو چکا ہے یعنی بند چھ فٹ پہلے توڑا گیا۔ 
میری اسی دوران سیلابی دوروں میں مصروف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سے چند منٹ کی ملاقات ہوئی۔ پل کے ڈیزائن پر وہ کہنے لگے کہ یہ پیپلز پارٹی کے دور میں بنا تھا۔ عرض کیا جو غلطی ہو چکی وہ تو ہو چکی مگر کیا اب پل کی لمبائی بڑھائی نہیں جا سکتی؟ کیا سڑک پر بریچنگ ایریا بنانے کے بجائے پانی کی گزرگاہ کا راستہ نہیں بنایا جا سکتا؟ شیر شاہ بند ہر دو چار سال بعد توڑا جاتا ہے۔ وہاں پر ریلوے ٹریک اور سڑک کے نیچے سے پانی گزرنے کا راستہ نہیں بنایا جا سکتا؟ کیا بند صرف اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ انہیں ہر سیلاب میں توڑا جائے اور سیلاب کے بعد اگلے سیلاب میں دوبارہ توڑنے کے لیے اسی پرانے ناقص اور متروک طریقے سے بنایا جائے تاکہ محکمہ مٹی کی مد میں لگے ہوئے عشروں پرانے کھانچے کے طفیل ہر سال کروڑوں روپے جیب میں ڈال لے؟ وزیراعلیٰ نے ساتھ بیٹھے ہوئے سیکرٹری آبپاشی سے پوچھا کہ یہ سب کیوں نہیں ہو رہا؟ سیکرٹری آبپاشی نے بڑی مستعدی سے جواب دیا کہ اس پر غور کریں گے۔ سیلاب آ کر گزر گیا ہے۔ اس سیلاب نے متاثرین کو اگلے کئی سال کے لیے تباہ کردیا ہے مگر گمان غالب ہے کہ محکمے کے افسران اور ٹھیکیدار اس سیلاب کی ٹوپی کے نیچے سے حفاظتی بندوں کی مٹی میں سے کروڑوں روپے پیدا کرنے والے کبوتر برآمد کریں گے؛ تاہم یہ خوشی ہے کہ سیلاب صرف لوگوں کو برباد ہی نہیں کرتا‘ خوشحال بھی کرتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ برباد ہونے والے لاکھوں ہیں اور پہلے سے ہی برباد شدہ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور خوشحال ہونے والے خوش قسمت گنتی کے ہیں اور ماشاء اللہ پہلے سے ہی خاصے خوشحال ہیں۔ یا اللہ رحم فرما! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved