تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     22-09-2014

کیا ان حالات میں وہاں جانا ضروری ہے؟

اقوامِ متحدہ (UNO)24، اکتوبر1945ء کووجود میں آئی۔ یہ مجلس اقوام(League of Nations)کی ناکامی کے بعد اقوامِ عالَم کے ایک نئے فورم کی تشکیل تھی۔ اس پر بحیثیتِ مجموعی امریکہ اور اس کے حلیف ممالک (Allies)کوروزِاول سے مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ اس کے تحت ایک سکیورٹی کونسل ہے، جس کے پاس پالیسی تشکیل دینے اور اس کی تنفیذ کے مکمل اختیارات ہیں ۔ اس کے پانچ مستقل ارکان ہیں، یعنی امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس ، ان میں سے ہرایک کو کسی بھی فیصلے یاقرارداد پر خط تنسیخ پھیرنے(Veto)کامکمل اختیار حاصل ہے، باقی دس ارکان عارضی ہیں، جو دنیا کے مختلف خطوں سے عارضی طور پر دودو سال کے لئے منتخب ہوتے ہیں ، لیکن ان دس کو مل کر بھی کسی فیصلے کے آگے سدِّ راہ بننے یعنی Vetoکا اختیار حاصل نہیں ہے۔ ویٹو پاور آج تک سب سے زیادہ امریکہ نے استعمال کی ہے۔ بھارت اور جرمنی بھی مستقل رکنیت کے لئے کوشاں ہیں اور کسی حدتک بھارت کے لئے طاقت کے بعض عالمی مراکز میں نرم گوشہ بھی موجود ہے۔ 
اقوامِ متحدہ کے بعض ذیلی ادارے بھی ہیں: مثلاً عالمی ادارۂ اطفال ، عالمی ادارۂ صحت اور عالمی ادارۂ حقوق انسانی وغیرہ ۔ اس کا سب سے بڑا فورم اس کی جنرل اسمبلی (مجلس عامّہ) ہے۔ اس کا ہر سال ستمبر کے تیسرے ہفتے یعنی16تا 30 ستمبر اجلاس ہوتاہے، جس میں تمام رکن ممالک شریک ہوتے ہیں، بعض اوقات اہم عالمی مسائل پر ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلئے جاتے ہیں۔ 
اس کے اجلاس میں سربراہانِ ریاست وحکومت (یعنی رکن ممالک کے صدور یا وزرائے اعظم) بھی شریک ہوتے ہیں۔ لیکن اُن کی شرکت لازمی نہیں ہے ،بلکہ اختیاری ہے، کئی ممالک کے وفود کی سربراہی ان کے وزرائِ خارجہ کرتے ہیں ، ہم جیسے بے توقیر اور بے اثر ممالک کے سربراہانِ ریاست وحکومت کو اس فورم میں شرکت کا شوق ہوتاہے، چند منٹ خطاب کے لئے بھی مل جاتے ہیں ، اس سے انہیں عالَمی سطح پرنمود (Exposure)کا موقع مل جاتاہے اور ایک اضافی فائدہ یہ مطلوب ہوتاہے کہ اِس موقع پر بعض عالَمی سربراہانِ ریاست وحکومت سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کا اعزازمل جاتاہے، لیکن اس کا انحصار اُس ملک کی اپنی اہمیت اور کامیاب سفارت کاری پر ہوتاہے۔
یہ تمہیدی سطور میں نے اس لئے تحریر کی ہیں کہ ہمارے وزیراعظم جناب محمد نواز شریف بھی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے روانہ ہونے والے ہیں ، یہ فیصلہ کرنا اُن کا منصبی حق ہے اور اِس حوالے سے ان پرکوئی قدغن نہیں لگاسکتا۔ لیکن مقامِ غور یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک کے داخلی حالات ایسے ہیں کہ انہیں جاناچاہئے ، کیا ایسا نہیں ہے کہ کسی بھی ملک کا سربراہِ ریاست وحکومت کسی باقاعدہ (Arranged)میٹنگ میں یاسرِراہ انہیں ملے گا،تو وہ رسمی سلام کلام کے بعد پہلاسوال اُن سے ملک کے داخلی حالات کی بابت ہی پوچھے گا، کیا اس پر انہیں شرمساری نہیں ہوگی۔ اگر وہ پاکستانیوں کے کسی اجتماع سے خطاب کرتے ہیں ، تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہاں ''گونواز گو‘‘ کے چند نعرے نہیں لگیں گے، خواہ یہ لوگ اس مقصد کے لئے خصوصی طور پر ہی کیوں نہ بھیجے گئے ہوں یعنی پلانٹڈ ہوں۔ عام حالات میں یہ واقعات اتنے اہم نہیں ہوتے، لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں ایسے واقعات کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، ملک کے اندر ہوں یا بیرونِ ملک ،ہم پاکستانی ایک منقسم قوم ہیں۔ ہم اپنے اپنے تعصُّبات، ترجیحات، پسندوناپسند اور خواہشات کے اسیر ہوتے ہیں۔ 
ویسے تو عربی کا مقولہ ہے :'' گھر کا مالک اپنے اندر کے حالات کسی بھی دوسرے شخص کی بہ نسبت بہتر جانتا ہے‘‘۔ سو وزیر اعظم اپنی حکومت اور حکمرانی کے احوال ہم سب کی بہ نسبت یقینا بہتر طور پر جانتے ہوں گے۔ لیکن باہر سے بھی مشاہدہ اتنا متاثر کن نہیں ہے، بلکہ پریشان کن اور رسواکن ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاسوںمیں اور حکمرانوں کی طرف سے ایک ٹیلیویژن چینل کے حق میں آوازیں اٹھیں ، لیکن حکومت کی بے بسی دیدنی ہے، حکومتی رِٹ یا اس کے با اختیار ہونے کی حقیقی تصویر یہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں بھی جب وفاقی حکومت کا حکم نہ چلے تو کیایہ آئینہ پس پردہ اور باطن کے حقائق کے ادراک کے لئے کافی نہیں ہے؟۔ 
یقینا حکومت کے اہم عناصر وزیر اعظم کو آئین اور قانون کی کتاب میں درج اُن کے بے پایاں اختیارات کا احساس دلاتے ہوں گے ، لیکن دیوار پر اس کے برعکس لکھا ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری کی بے بسی کا مذاق اڑایا جاتا تھا، شاید اب پسِ آئینہ حقائق منظرِ عام پر آنے سے بہت سے لوگوں کوان کی مجبوریاں سمجھ آرہی ہوں گی، یہ بھی اندازہ ہورہا ہوگا کہ غیبی اشاروں کے نتیجے میں سیاسی قائدین اپنا موقف اور پینترے کس طرح بدلتے ہیں اور کیوں بدلتے ہیں ۔ 
لہٰذا ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وزیراعظم بیرونی دوروں کی بساط سردست لپیٹیں اور اپنے گھر کی اصلاحِ احوال پر پوری توجہ مرکوز کریں۔ اپنے منصب کے مختارِ مطلق ہونے کے یوٹوپیا اور تخیّلاتی دنیا سے نکلیں ، عملیت پسندی (Pragmatism)کی طرف آئیں اور ریاستی طاقت کے اصل مراکز کے ساتھ ایک نئی حکمتِ کار(Working Relationship)بنائیں تاکہ ملک چلتا ہوا نظر آئے اور قومی بحران کا خاتمہ ہو۔
حدیثِ پاک میں ہے:''اور جب تم سنو کہ ایک پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے، تواس کی تصدیق کردو اور جب سنو کہ ایک شخص کی جبلِّت اور سرشت تبدیل ہوگئی ہے، تواس کی تصدیق نہ کرو، کیونکہ انسان اپنی فطرت کی طرف پلٹ آتا ہے،(مسند احمد:27499)‘‘۔ بدقسمتی سے یہ بات اب تقریباً درست ثابت ہورہی ہے کہ وزیراعظم کے مزاج میں ایک طرح کی ضد ہے، وہ حقیقت پسند نہیں ہیں، ان میں تو افُق اور تطابُق (Adjustability)اور دوسروں کے ساتھ مل کر چلنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ کیا اپنی سیاست اور حکمرانی کے اس نازک ترین دور میں وہ اپنی اس جِبلّی کمزوری پر قابو پاسکتے ہیں ۔ انہیں ادراک کرنا ہوگا کہ بعض حقائق ناخوشگوار اور انتہائی تلخ ہوتے ہیں، لیکن انہیں قبول کرنے کے سوا چارۂ کار نہیں ہوتا۔ غالباً حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:''اتنے نرم نہ بنو کہ تمہیں نچوڑ دیا جائے اورنہ اتنے سخت بنو کہ تمہیں توڑ دیا جائے‘‘ ۔ پس اگرچہ شرکتِ اقتدار شریف برادران کا مزاج نہیں ہے، بلکہ ان کا مزاج ارتکازِ اقتدار کاہے، لیکن اب شاید اُن کے لئے اس حوالے سے بہت زیادہ آپشنز یا چناؤ کے مواقع نہیں ہیں ، سوائے اس کے کہ ناخوشگوار حقائق کو قبول کرکے اپنے اندازِ حکمرانی کو تبدیل کریں اور ''شرکتِ اقتدار‘‘ کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کریں۔ اور بادشاہت کے منصب سے نیچے اتر کر جمہوری اندازِ حکمرانی اختیار کریں۔ پارلیمنٹ کی حمایت کا مطلب یہ ہرگز نہ لیں کہ آپ محبوبِ خلائق ہوگئے ہیں، اِس وقت آپ کی حمایت اُن کی مجبوری بن گئی ہے، اُن کے پاس آپشن نہیں رہا۔ دراصل پارلیمنٹیرین اور پارلیمانی جماعتیں اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہیں ، لیکن سیاسی حالات معمول پر آتے ہی یہ معاشقہ ختم ہوجائے گا اور وقت نے سب کو نئے رنگ ڈھنگ سجھا دئیے ہیںاور دھرنوں کی قیادت کا یہ دعویٰ بجا ہے کہ پاکستان میں تبدیلی کی روچل پڑی ہے اور اب یہ رک نہیں پائے گی بلکہ نئی جہتیں اختیار کرے گی،فاعتبروا یاُولی الابصار۔
اسی طرح انہیں ایک خاص طبقے کے لوگوں پر ہی اعتماد اورانہی کو اقتدار میں مؤثر حصہ دینے کا تاثر ختم کرنا ہوگا ۔زیادہ سے زیادہ طبقات کو اقتدار واختیار میں شریک کرنا وفاقی پارلیمانی جمہوریت کی روح ہے،صدارتی نظام میں صدر یقیناً زیادہ بااختیار ہوتاہے ،کیونکہ وہ براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتاہے لیکن پارلیمانی نظام میں وزیرِ اعظم سیاسی طاقت وحمایت پارلیمان سے کشید کرتاہے ،لہٰذا پارلیمنٹ سے جڑے رہنے اوراس کے اعتماد کو برقرار رکھنے میں ہی وزیراعظم کی سیاسی قوت کا راز مضمر ہے۔
بجلی کے بحران ہی کو لیجئے،بالفرض آپ چند ہزار میگاواٹ بجلی مزید پیداکرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،اس سے بھی یہ بحران پوری طرح حل نہیں ہوگا،جب تک کہ تمام صوبائی حکومتوں کی تائید اورعملی حمایت سے بجلی چوری اوربل ادانہ کرنے کے مسئلے پر قابو نہ پایاجائے۔اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کے اختیارات اوروسائل میں اضافہ ہواہے اور وفاق کا کنٹرول کمزور پڑگیاہے اورسابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی درست کہتے تھے کہ اب وفاق میں عملاً مخلوط حکومتیں قائم ہوں گی،کسی ایک جماعت کا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مکمل کنٹرول مشکل ہوگا،چہ جائے کہ دوتہائی اکثریت کی توقع کی جائے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved