اپنی گاڑی دور کھڑی کرکے ہم نے پیدل ہی ڈی چوک تک جانے کا فیصلہ کیا ۔ کنٹینروں کے درمیان بنے راستے سے گزرتے ہوئے بغیر کسی مشکل کے ہم ایک ایسی سنسان سڑک پر آگئے جو ہمیں عمران خان کے آزادی دھرنے تک لے گئی۔ سڑک پر اکا دکا راہی دیکھ کر میں نے عمران شفقت سے کہا ' شاہ جی آج جمعہ ہے، تحریک انصاف نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ، اصولی طور پر اس سڑک پر لوگوں کا رش ہونا چاہیے‘۔ پنڈال میں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بار بار کے اعلانات کے بعد بھی جلسے میںتین چار ہزار افراد کی شرکت تحریک انصاف کی طاقت نہیں کمزوری کا اعلان کررہی تھی۔افراد کی تعداد سے قطع نظر ، اس جلسے میں جوش و خروش دیدنی تھا، اکثرلوگوں نے اپنے چہروں پر تحریک انصاف کے دو رنگ... سرخ و سبز...سجا رکھے تھے، تحریک انصاف کے رنگوں کی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں اور نعرے بھی خوب لگ رہے تھے۔ سٹیج کے قریب وہ آہنی جنگلہ بھی دیکھ لیا جس کے اندرموجودخواتین کی شوخیاں ہر شب ٹی وی سکرین کو جگمگاتی رہتی ہیں۔ اس حصار میں لٹکے ہوئے ایک بدخط بینر پر لکھا تھا 'مولانا فضل الرحمن (بینر پر لکھا لفظ کچھ اور تھا) کو بہتان تراشی پر قذف یعنی اسّی کوڑوں کی سزا دی جائے‘۔ خان صاحب کی تقریر جاری تھی اور اس میں موسیقی کے وقفے بھی،یہ فیصلہ مشکل تھا کہ خان صاحب کے فقروں پر مجمع زیادہ اچھا رسپانس دیتا ہے یا موسیقی پر۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ اسٹیج کے قریب آہنی حصار میں
موجود لوگ موسیقی پر اچھا ردعمل دیتے ہیں جبکہ اسٹیج سے دور کھڑے یا بیٹھے عوامِ فِقروں سے لطف لیتے ہیں۔ خان صاحب کی تقریر حسبِ معمول گھن گرج سے بھرپور اور توازن سے خالی تھی۔ یوں بھی حکمت کا ذخیرہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو، ایک مہینے تک روزانہ دو تقریروں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔لیڈر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ہر روز بڑا جلسہ نہیں کر سکتا۔ ہم اس جلسے میں با آسانی اپنا راستہ بناتے ہوئے خان صاحب کے کنٹینر کی طرف بڑھنے لگے ، کیونکہ اس کے قریب سے گزر کر ہمیں انقلابی دھرنے کی طرف جانا تھا۔
عمران خان کے کنٹینرکی طرف بڑھتے ہوئے فضا میں آلودگی اور کثافت کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے جو کچھ دیر تک تو دماغ چکرائے رکھتا ہے لیکن پھر اس کی عادت ہوجاتی ہے اور ماحول کا فرق اس وقت تک معدو م ہوجاتا ہے جب تک بندہ صاف ہوا میں سانس نہ لے۔ آزادی کنٹینر کے عقب میں آزادی اور انقلاب کی حدود ملتی ہیں۔ آزادی کی آخری حد خان صاحب کا کنٹینر ہے اور انقلاب کا آغاز اس کے ساتھ لگے بلکہ جُڑے ہوئے خیموں سے ہوتا ہے۔ اس خیمہ بستی کی فضا میں غلیظ بساند رچی ہوئی ہے جس کا منبع شاہراہ دستور کے درمیان گرین بیلٹ کے ایک طرف کمر کمر تک بلند لوہے کی چادر کے بنے ہوئے بیت الخلا ہیں جن کے نیچے
مسلسل بہتا ہوا پانی ایک بدرو کی شکل میں تین ہزار انسانوں کے 'ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر‘ کے درمیان سے گزرتا ہوا پارلیمنٹ کے دروازے کے سامنے کہیںزمین میں جذب ہوجاتا ہے۔ یہاں مقیم لوگوں میں سے ہر کوئی آنے جانے والوں اور خاص طور پر صحافیوں سے پوچھتا ہے کہ حکومت گرانے کے لیے اسے مزید کتنے دن یہاں رہنا ہوگا؟ شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی سالاری میں یہ لشکر کچھ دن پہلے تک تو حکومت کے لیے ایک اعصاب شکن بوجھ تھا لیکن اب خود کو سنبھالنے کی مصیبت سے دوچار ہے۔ شیخ الاسلام قبلہ خود تو اپنے آرام دہ کنٹینر میں رہ کر ملک و قوم کا غم کھاتے رہتے ہیں لیکن ان کے لشکری سڑک پر خیمہ زن ہونے کی تمام دشواریاں جھیلتے ہوئے اس امیدمیں قبلہ کے خطاب کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ شاید اس مصیبت سے ان کی گلو خلاصی کا حکم جاری ہوجائے ۔ گھروں کو جانے کی یہ خواہش اتنی شدید ہوچکی ہے کہ قبلہ کے کنٹینر کے ساتھ قائم سٹیج پر لگے ساؤنڈ سسٹم کی سکیورٹی اس لیے بڑھا دی گئی ہے کہ کہیں کوئی 'شرپسند‘ سٹیج پر چڑھ کر دھرنے کے شرکاء کی رہائی کا اعلان نہ کرڈالے۔ بے اعتباری کی یہ فضااتنی گہری ہے کہ کوئی اجنبی کسی لشکری سے بات کرنے لگے تو کوئی نہ کوئی 'ذمہ دار‘ موقعے پر پہنچ کر معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔میں نے ایک شخص سے یہاں کھانے کے انتظامات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ بیٹھے دوسرے شخص نے اسے جواب دینے سے منع کردیا اور پھر فوراََ ہی ایک باریش نووارد نے بریفنگ کی ذمہ داری سنبھال کر ہر سوال کا مطمئن کردینے والا جواب دیا۔ یہاں آتے ہوئے لشکریوں کی قائم کردہ چیک پوسٹ پر تلاشی دیتے ہوئے خیال تھا کہ یہ بندوبست دھرنے کے شرکاء کی حفاظت کے لیے ہے لیکن یہاں سے جاتے ہوئے احساس ہورہا تھا کہ یہ حفاظتی نظام ایک ایسا حصار ہے جس میں داخل ہونا آسان مگر باہر نکلنا مشکل ہے۔
ان دونوں دھرنوں (یا ایک ہی دھرنے) کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو یہاں سے اٹھانا کیا مشکل ہے؟ تھوڑی سی منصوبہ بندی سے کام لیا جائے توانتظامی طور پر ان لوگوں کو کسی مناسب جگہ پر دھکیلنا کوئی مشکل کام نہیں۔ریاستِ پاکستان کے اعصابی مرکز میں اس بھدی خیمہ بستی کو ایک مہینے سے زیادہ برداشت کرکے ہم نے دنیا بھر میں اپنی جمہوریت کا لوہا منوا لیا ہے، اب مناسب ہوگا کہ اس بستی کے ٹھیکیداروں سے بات کرکے انہیں دھرنے کا کھیل کسی میدان میں منتقل کرنے کے لیے کہا جائے۔اگر ہم نے مزید چند دنوں تک یہ سب کچھ گوارا کیا تو دنیا اسے ہماری جمہوری روایات کی پاسداری پر نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی کمزوری پر محمول کرے گی۔ جمہوریت کا جو کرتب شاہراہِ دستور پر ہم نے د نیا کے سامنے پیش کیا ہے، اس کرّہ ارض پر موجود کوئی بھی جمہوری ملک اپنے قانون ساز ادارے کے سامنے دکھانے کی بے وقوفی نہیں کرتا۔ عمران خان صاحب اپنے سسرالی ملک برطانیہ میں پارلیمنٹ کے سامنے اس طرح کا کوئی مظاہرہ کریں گے تو ان کی منزل جیل کے سوا کچھ نہیں ہوگی، اسی طرح شیخ الاسلام اپنے وطنِ مالوف کینیڈا میں اس طرح کی کوئی حرکت فرمانے کی کوشش بھی کریں گے تو ان کے خلاف قانون کو حرکت میں لایا جائے گا۔ لہٰذا ن لوگوں سے اگر وہی سلوک کیا جائے جو امریکہ ، کینیڈا یا برطانیہ میں اس طرح کے لوگوں سے کیا جاتا ہے تو کوئی بھی حکومت کی جمہوریت پسندی پر سوال نہیںا ٹھائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ قانون حرکت میں آئے اور ان معروف حدود کی نشاندہی کردی جائے جن کے اندر احتجاج کو رکھنا چاہیے۔ پارلیمنٹ پر حملہ، ریاستی ٹی وی پر حملہ اور ایوانِ وزیراعظم پر ہلّے کے بعد بھی حکومت حرکت میں آنے سے گریز کررہی ہے تو ایسی حکومت رہے یا نہ رہے، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔