آج ایک دلچسپ رپورٹ کا خلاصہ پیش کر رہا ہوں‘ جو حال میں شائع ہوئی ۔ اس میں دلچسپ حقائق پیش کئے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ داعش (دولۃ اسلامیہ عراق و شام )‘ القاعدہ کی طرز پر بنایا گیا ایک دہشت گرد گروپ ہے‘ جسے امریکی ایجنسیوں نے تخلیق کیا۔ مقصد تیل کی دولت سے مالامال شرق اوسط کو تقسیم اور فتح کرنا اور خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا ہے۔ حقیقت میں دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی امریکی پالیسی کی ایک پوری تاریخ ہے۔ دہشت گرد گروپ‘ صرف انہی لوگوں کو حیران کرتے ہیں‘ جو محض خبریں پڑھتے ہیں۔ تاریخ پر توجہ نہیں دیتے۔ سی آئی اے نے اسلامی انتہاپسندوں کو سردجنگ کے زمانے ہی سے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس دور میں امریکہ ‘دنیا کو واضح طور پر‘ دو حصوں میں تقسیم کر کے دیکھتا تھا۔ ایک حصہ سوویت یونین اور تیسری دنیا کی قوم پرستی تھی‘ جسے امریکہ ‘سوویت یونین کا زیراثر گروپ سمجھتا تھا، جبکہ دوسرا حصہ مغربی اقوام اور انتہاپسند اسلام تھا۔ اس گروپ کو امریکہ‘ سوویت یونین کے خلاف اپنا اتحادی تصور کرتا تھا۔ صدر ریگن کے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر ولیم اوڈون نے حال میں بتایا ''امریکہ‘ دہشت گردی کو ایک مدت سے مختلف مقاصد کے تحت استعمال کر رہا ہے۔ 1978-79ء میں سینیٹ میں کوشش کی گئی کہ عالمی دہشت گردی کے خلاف قانون پاس کرایا جائے۔ اس کا جو بھی مسودہ پیش کیا گیا‘ وہ ماہرینِ قانون کی نگاہ میں بیان کردہ ‘مقصد کے برعکس ہوا کرتا تھا۔‘‘
1978ء کے دوران‘ سی آئی اے نے مصر میں اخوان المسلمون کوسوویت یونین اورعرب دنیا میں‘ مارکسزم کوروکنے کے لئے استعمال کیا۔امریکہ نے قوم پرست انڈونیشیائی لیڈر صدر سوئیکارنو کے خلاف وہاں کے انتہاپسندوں سے کام لیا اور ایک ملین سے زیادہ انڈونیشیائی شہریوں کو ہلاک کروایا۔پاکستان میں بھٹوکے خلاف یہی کام جماعت اسلامی سے لیا گیا۔ یہ نہ بھولیے کہ القاعدہ کو سی آئی اے نے جنم دیا تھا اور 80ء کے عشرے کے دوران‘ اسے دودھ پلایا۔ سابق برطانوی سیکرٹری خارجہ رابن کک نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ القاعدہ بلاشبہ مغربی ایجنسیوں کی پیداوار ہے۔کک نے وضاحت کی کہ القاعدہ عربی لفظ کا اختصار ہے۔ یہ ایک دہشت گرد گروپ تھا‘ جو مخصوص علاقے میں امریکی مفادات کو آگے بڑھاتا تھا۔ امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ فراخ دلی سے اس گروہ کی مدد کرتا۔ اکثر اوقات‘ اسلامی انتہاپسندی کی مخالفت بھی کرتا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ان کا یہ اقدام امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔''اسلامی ریاست‘‘ امریکہ کا تازہ ترین ہتھیار ہے۔ بالکل القاعدہ کی طرح۔ حال میں ابھرنے والا گروپ داعش‘ غنڈوں پر مشتمل ہے‘ جس نے امریکی صحافیوں کی بھی گردنیں اڑائی ہیں۔ اس وقت یہ گروپ شام اور عراق کے اتنے بڑے علاقے پر قبضہ کر چکا ہے‘ جس کا رقبہ برطانیہ کے برابر ہے۔ یہ سمجھنے کے لئے کہ داعش نے اس قدر جلدی کامیابیاں کیسے حاصل کیں؟ اس تنظیم کی امریکہ میں موجود جڑوں کو دیکھنا ہو گا۔ 2003ء میں عراق پر‘ امریکی قبضے کی وجہ سے وہ حالات پیدا ہوئے‘ جن میں انتہاپسند سنی گروپ وجود میں آئے اور داعش کی طرح جڑیں پکڑیں۔ امریکہ نے صدام حسین کو احمقانہ انداز میں تباہ کیا۔ اس کی سیکولر ریاستی مشینری برباد کی اور وہاں ایک ایسی انتظامیہ قائم کر دی‘ جس میں شیعہ فرقے کا غلبہ تھا۔ امریکی قبضے کی وجہ سے سنی علاقوں میں وسیع پیمانے پر بیروزگاری پھیلی۔ سوشلزم کو مسترد کیا۔ فیکٹریاں بند کیں اور کہا گیا کہ فری مارکیٹ پیدا کی جا رہی ہے‘ جس میں نئی ملازمتیںنکلیں گی۔ ایک طرف امریکہ یہ کر رہا تھا اور دوسری طرف شیعوں کی قیادت میں‘ ایسے حالات پیدا کئے جا رہے تھے‘ جن میں ہزاروں سنی بیروزگار ہو گئے۔ خوشحال سنی فرقے کو ‘سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کاروبار اور جائیدادوں سے محروم کیا گیا۔ وہ اپنے اثاثوں سے محروم ہو کر‘ سیاسی طور پر بھی بے اثر ہو گئے۔ امریکیوں نے شیعہ سنی اتحاد پیدا کرنے کے بجائے‘ وہاں پر فرقہ ورانہ منافرتوں کو ہو ا دی اور سنیوں کے لئے انتہاپسندی کا سہارا لینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہ گیا۔ یہ تھے وہ حالات‘ جن میں القاعدہ نے جڑیں پکڑیں۔ عراق میںاس گروپ کا نام القاعدہ تھا۔ 2010ء میں جب شام کے سنی ‘بھی ان کے ساتھ آ ملے‘ تو داعش کا نام اختیار کیا گیا۔ حقیقت میں شام کے اندر بیک وقت تین جنگیں چھیڑی گئیں۔ ایک شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان۔ دوسری ایران اور سعودی عرب میں بالواسطہ اور تیسری روس اور امریکہ کے درمیان۔ یہ تیسری نئی سرد جنگ تھی اور اس طرح امریکی پالیسی سازوں نے شام کے باغیوں کو مسلح کر کے‘ ایک نیا محاذ کھول دیا، کیونکہ صدر بشارالاسد ایک کلیدی روسی اتحادی ہیں۔ یہی شامی باغی‘ اب داعش کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، جو کھلم کھلا امریکی رائفلیں ایم16 استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ کی شرق اوسط پالیسی تیل اور اسرائیل کے گرد گھومتی ہے۔ عراق پر قبضہ ‘ تیل پر قبضے کی خاطر ہی کیا گیا تھا، جبکہ شام کے خلاف اقتصادی پابندیاں اور خفیہ حملوں کا نشانہ اصل میں عراق تھا۔ یہ بالواسطہ اسرائیل کی مدد تھی‘ جو امریکہ‘ اسرائیل کے دشمن پڑوسیوں کو‘ کمزور کرنے کے لئے کرتا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی حماس ‘ دونوںکو شام اور ایران کی مدد ملتی ہے۔ امریکی امداد کے نتیجے میں جنم لینے والی داعش کا ہتھیار‘ شامی حکومت کو شکست دینے کے لئے تھا، ساتھ ہی ایران پر دبائوڈالنے کا ذریعہ بھی۔ایران نے کسی دوسرے ملک پر آخری حملہ 1738ء میں کیا تھا، جبکہ 1776ء میں آزاد ہونے والے امریکہ نے اب تک 53ملکوں پر فوجی حملے کئے ہیں۔ حقائق امریکی اور مغربی ملکوں کے پراپیگنڈے کے برعکس ہیں۔ ایران واضح طور سے کسی پڑوسی کے لئے خطرہ نہیں،جبکہ واشنگٹن دنیا بھر کے لئے خطرہ ہے۔ 2012ء کی ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کی 16 ایجنسیوں نے‘ اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام 2003ء میں ختم کر دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران جو بھی ایٹمی ارادے رکھتا ہے‘ وہ ایران کے خلاف امریکہ کے جارحانہ عزائم کی وجہ سے ہیں۔ ایران ہمیشہ کسی پڑوسی ملک پر جارحیت سے گریزاں رہتا ہے۔
امریکہ داعش کو تین طرح سے استعمال کرتا ہے۔ شرق اوسط میں اپنے دشمنوں کے خلاف‘ جہاں وہ امریکی حملوں کے لئے جواز مہیا کرتی ہے۔ امریکہ کے اندر مصنوعی خطرہ پیدا کرتی ہے، جس کی آڑ میں امریکی حکومت اپنے عوام پر غیرمعمولی پابندیاں لگاتی اور ان کی نگرانی کرتی ہے۔ صدر اوباما کی انتظامیہ‘ اپنے شہریوں پر نظر رکھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہے، جبکہ شہریوں کو حکومت پر نظر رکھنے کی صلاحیت سے محروم کرتی ہے۔ دہشت گردی اپنے شہریوں پر نگرانیوں کا جال پھیلانے کا بہانہ مہیا کرتی ہے۔ اسی کی آڑ میں عوام کے باغیانہ جذبات کو کچلا جاتا ہے۔ نام نہاد وارآن ٹیرر کو اسی انداز میں دیکھنا چاہیے‘ جیسی کہ یہ حقیقت میں ہے۔ درحقیقت یہ امریکہ کی خطرناک حد تک بڑھی ہوئی فوجی طاقت کو تحفظ دینے کا ذریعہ ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ میں ‘جو دو طاقتور گروپ موجود ہیں‘ وہ دونوں اسرائیلی لابی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی گروپ‘ امریکہ کی ملٹری پالیسی بناتے ہیں اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے مفادات کو اسرائیلی لابی تقویت پہنچاتی ہے۔ جب سے جارج ڈبلیو بش نے 2001ء میں‘ وارن آن ٹیرر کا اعلان کیا ہے‘ امریکہ 6.6ٹریلین ڈالر اور اپنے ان گنت بیٹے بیٹیاں ضائع کر چکا ہے۔ وار آن ٹیرر نے‘ امریکہ کے حکمران طبقوں کو اربو ں ڈالر کا فائدہ پہنچایا ہے۔ گزشتہ تین سال کے عرصے کے دوران امریکہ کی 70فیصد سے زیادہ کمپنیوں اور افراد نے 27بلین ڈالر کے تعمیراتی کنٹریکٹ‘ صرف عراق اور افغانستان میں حاصل کئے ہیں۔ جن پرائیویٹ کمپنیوں نے یہ بھاری منافعے حاصل کئے ‘ انہیں چلانے والے نجی کمپنیوں کے ملازم یا انتظامی بورڈ کے ممبر ہیں۔ ان میں سے کچھ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ انتظامیہ کی ایگزیکٹو برانچ کے افسران یا کانگریس کے ممبر ہیں یا اعلیٰ ترین سطح کے ملٹری کمانڈر۔ 1997ء میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ میں وہ اعداد و شمار دیئے گئے ہیںجن میں بیرون ملک امریکی فوجی کارروائیوں اور دہشت گردی میں اضافوں کے مابین‘ گہرا تعلق ظاہر کیا گیا ہے۔ اگر وار آن ٹیررکے لئے پیدا کردہ محرکات کا خاتمہ کر دیا جائے‘ تو یہ ازخود ختم ہو جاتی ہے۔دہشت گردی محض علامت ہے، جبکہ شرق اوسط میں امریکی مداخلت کینسر ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیںکہ وار آن ٹیرر‘ خود ٹیررازم ہے۔