موجودہ حکومت پر عمران خان اور طاہرالقادری کے الزامات کو مخالفانہ پروپیگنڈہ قرار دینا آسان ہے۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں مخالف خواہ کوئی فرشتہ ہی کیوں نہ ہو ،بات کرے تو لوگ اہمیت کم دیتے ہیں۔ سو فیصد سچی بات بھی مخالفت برائے مخالفت قرار پاتی ہے اور ناقابل یقین و ناقابل اعتماد ۔ کوئی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔
ناقص اور بری حکمرانی(بیڈ گورننس) ، کرپشن، بے تحاشہ مہنگائی اور انتخابی دھاندلی کا ڈھنڈورا چونکہ ایک سال تک حکومت کے سیاسی مخالفین نے پیٹا اس لیے الزام تراشی قرار پایا مگر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور ، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اس کی تکرار کرنے لگیں تو اسے کون جھٹلائے اور کیسے ؟ گورنر سرور گھرکے بھیدی ، سٹیٹ بینک ریاست کا اہم ادارہ جو حکومت وقت سے رعایت تو کرسکتا ہے ،مخالفت اور پروپیگنڈے کا روادار نہیں۔ رہے آصف زرداری کے برخوردار تو انہیں پنجاب میں پروٹوکول حکومت نے دیا، شاہانہ سفری سہولتیں فراہم کیں اور پارلیمنٹ میں ان دنوں پیپلزپارٹی حکومت کی حلیف ہے، حلیف نہ سہی فرینڈلی اپوزیشن اور انشورنس پالیسی۔
گورنر سرور برطانیہ کی شہریت اور سیاست چھوڑ کر پاکستان آئے ۔ملک کے سب سے بڑے صوبے میں لاٹ صاحب بنے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو اندرون ملک لاکر سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے کے علاوہ متعدد دیگر شعبوں کے نگران قرار پائے ۔ مگر چودہ پندرہ ماہ بعد ارشاد ان کا یہ ہے کہ سارا عرصہ انہوں نے کرب میں گزارا۔ کرپشن، بھوک اور بے روزگاری سے عوام بدحال ہیں اور تارکین وطن کی جائیدادوں پر قبضے ہورہے ہیں۔ کسی جگہ ان کی شنوائی نہیں ہوتی، الٹا یہ دھمکیاں ملتی ہیں کہ اپنی قیمتی جائیدادیں قبضہ گروپوں کے حوالے کرکے بیرون ملک واپس چلے جائیں ورنہ بیوی ، بچے اغوا اور قتل کرانے کے لیے تیار رہیں۔ وہ بے چارے رو دھو کر بھاگ جاتے ہیں کہ جان ہے تو جہان ہے ۔
برطانیہ پلٹ چودھری سرور کے لیے شاید یہ بات انوکھی اور کرب ناک ہوگی مگر پاکستانیوں کی اکثریت روزانہ اس صورتحال کا سامنا کرتی ہے۔ اغوا برائے تاوان اور جائیدادوں پر قبضے کا آغاز کراچی سے ہوا۔ اب پنجاب میں بھی یہ منافع بخش کاروبار ہے۔ لاہور میں اس کاروبار کی سرپرستی وہ طاقتور مافیا کرتا ہے جس کے ہاتھ لمبے اور تعلقات حکمران اشرافیہ سے ہیں۔ پچھلے سال ہمارے دوست انجم وحید کے گھر 24گھنٹوں میں دو بار ڈاکوئوں نے قدم رنجہ فرمایا۔ گھر کی ایک ایک قیمتی چیز اٹھا لے گئے مگر جاتے ہوئے اپنا موبائل فون بے دھیانی میں چھوڑ گئے۔ ڈیٹا نکلوایا گیا تو تعلق ایک ایسی شخصیت سے ثابت ہوا جو خیر سے حکمران جماعت کے کرتا دھرتا ہیں۔ پولیس نے راز داری کی شرط پر بیشتر برآمدگی کرادی اور ڈاکوئوں کے دم قدم سے آباد ڈیرے کی رونقیں برقرار ہیں۔
کسے معلوم نہیں کہ پنجاب کے کس شہر اور ضلع میں ڈاکو، رسہ گیر، قبضہ گروپ اور اغوا برائے تاوان کے مجرموں کا کون سرپرست ہے اور ان کے سامنے پولیس و انتظامیہ بے بس کیوں نظر آتی ہے؟ جب ٹکٹوں کی تقسیم میں برادری اور خاندانی اثرو رسوخ کے علاوہ بے تحاشہ دھن دولت کو اہم فیکٹر قرار دیاجائے تو گلہ کس بات کا۔ آدمی حق حلال کی کمائی تو پارٹی قیادت کے چونچلوں اور چُوری کھانے والے مجنوئوں کے علاوہ انتخابی مہم پر نہیں لٹاتا۔ مال مفت ہی دل کو بے رحم بناتا ہے۔ سرکاری املاک اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضے ،سرکاری خزانے کی لوٹ مار، قومی وسائل کی خردبرد اور ترقیاتی منصوبوں کے کمشن کی آمدنی ہمارے سیاستدان اور عوامی نمائندوں کو حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کا حسن اور سیاست کا لازمی جزو ہے ۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔گورنر سرور اگر لاعلم تھے تو قصور وار وہ خود ہیں کوئی اور نہیں۔
موجودہ سیاسی بحران کو حکمرانوں نے اسلام آباد کے ڈی چوک کی پیالی میں طوفان سے تعبیر کیا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ پورا ملک شانت ہے اور کاروبار زندگی رواں دواں ۔ مگر اب سٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے مہنگائی کے طوفان کی وارننگ دی ہے جو سیلاب اور اس بحران کا براہ راست نتیجہ ہے۔ خوش فہموں کی بات الگ ہے جنہیں اندھے کی طرح اندھیرے میں دور کی سوجھتی ہے ورنہ ساری دنیا جانتی ہے کہ دھرنوں کی طوالت اور حکومت کی مجرمانہ غفلت و بے نیازی نے قومی معیشت کی چولیں ہلادی ہیں۔ گزشتہ روز نسیم نیازی باجوکے برنچ میں دانشوران شہر دھرنوں کے اثرات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کساد بازاری کا رونا رو رہے تھے ۔
ہر ایک نے اپنے کاروباری تجربات کی روشنی میں بتایا کہ جس دکان کی سیل دو لاکھ روزانہ تھی، بمشکل پچاس ساٹھ ہزار رہ گئی۔ کراچی سے جو کنٹینر لاہور کے لیے ایک لاکھ میں بک ہوتا تھا،اب دو لاکھ میں بمشکل دستیاب ہے۔ حکومت نے محاصل میں کمی کا علاج بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کی صورت میں سوچا ہے۔ گیس کی قلت کی وجہ سے گوجرانوالہ کی سرامک انڈسٹری بند ہے اور بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ڈی پیزاور سیلاب زدگان کی امداد میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مخیر اور خوشحال طبقہ خود مالی مشکلات سے دوچار اور خواہش کے باوجود اپنے ستم رسیدہ بھائیوں کی بھرپور امداد کرنے سے قاصر ۔
خیبر سے وادی مہران تک ہر گھر ، کاروباری مرکز اور سرکاری دفتر میں سیاسی بحران موضوع بحث ہے اور انتخابی دھاندلی کا تذکرہ۔ مگر اقتدار کے ایوانوں میں اسے مخالفین کا پروپیگنڈہ اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا رچایا ہوا ڈرامہ سمجھ کر نظر انداز کیاجارہا ہے۔ حتیٰ کہ بلاول بھٹو کی طرف سے خیبرسے کراچی تک بدترین دھاندلی کا الزام بھی محض جوش خطابت ہے اور پیپلزپارٹی کے مردے میں جان ڈالنے کی کوشش۔ سیاسی جرگے کی تجاویز پر وزیراعظم کے اظہار ناپسندیدگی اور سراج الحق کی مخلصانہ کوششوں کو اپنی حدود سے تجاوز قرار دے کر حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی روش بدلنے پر آمادہ ہے نہ اصلاح احوال کی کسی کوشش کی پذیرائی کے لیے تیار کیونکہ وہ موجودہ سیاسی بحران کو اپنی کسی غلطی ، ناقص حکمرانی اور عوام کی مایوسی کا شاخسانہ نہیں امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا کی تیار کردہ سازش سمجھنے لگی ہے اور یہ باور کر بیٹھی ہے کہ اگر سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور جاوید ہاشمی کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ہمارے سوڈوانٹلیکچوئلز اور سیاستدانوں کے اسی طرز عمل اور سازشی تھیوریوں کی وجہ سے حکمران مغالطوں کا شکار ہوتے اور تباہ کن غلطیوں پر اصرار کرتے ہیں۔
لیکن کیا گورنر سرور ، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور بلاول بھٹو جو کہہ رہے ہیں کرپشن، مہنگائی، قبضہ گروپوں کی حوصلہ افزائی، معیشت کی تباہی اور خیبر سے کراچی تک بدترین دھاندلی کی جو داستان ان کی نوک زبان پر ہے وہ بھی زمینی حقیقت نہیں کسی سازشی تھیوری کا حصہ ہے ؟ جن لوگوں نے کوئی معقول بات نہ سننے اور نہ ماننے کی قسم کھا رکھی ہے وہ تو ظاہر ہے اس سازشی تھیوری پرآنکھیں بند کرکے ایمان لے آئیں گے مگر جو موجودہ حکومت کی حمایت میں پانچ امریکی بیانات، گورنر سرور اور سجاد کریم کی برطانیہ اور یورپی یونین میں لابنگ کے سبب جی ایس پی پلس سٹیٹس اور اسلام آباد میں امریکی ، برطانوی اور کینیڈین سفیروں کی پس پردہ سرگرمیوں سے واقف ہیں وہ اس طرح کی لغویات پر یقین کیسے کریں ۔ کل تک بیرونی دنیا اور عالمی برادری کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے اندرونی مقتدر قوتوں کی مداخلت کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا، اب اپنے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے عالمی سازش کا شوشہ ۔ سچ کیا ہے؟ جو 17جون سے 19ستمبر تک بولاگیا؟ یا وہ جو ان دنوں میڈیا کو فیڈکیا جارہا ہے؟
کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ۔ سٹیٹ بینک ، گورنر سرور اور بلاول بھٹو زرداری میں سے کوئی موجودہ حکومت کا مخالف ہے نہ بدخواہ اورنہ دھرنے والوں کا ہمدرد ۔ حکمران ان میں سے کسی کی بات پر کان دھریں نہ دھریں، عوام غور ضرور کریں گے کہ وہ سخن فہم ہیںغالب کے طرف دار نہیں۔ کرپشن ، مہنگائی، قبضہ گیری ، دھاندلی اور معاشی بدحالی سے وہ براہ راست متاثر ہورہے ہیں اور ناقص طرز حکمرانی کے علاوہ اقربا پروری نے انہیں زندگی سے بیزار ، موت سے ہمکنار کردیا ہے وہ کسی سازشی تھیوری پر یقین کریں؟یا اپنے مشاہدے پر اعتبار ؟جو صرف مشاہدہ نہیں ہڈبیتی ہے۔