حکومت فرانس کو مبارک ہو کہ اس نے انتظار حسین کو ادب، آرٹ اور کلچر کا اپنے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ دے کر اپنی اور اس ایوارڈ کی عزت میں اضافہ کیا ہے۔ یقیناً انتظار حسین کے وہ پرستار ، دوست اور مداح بھی اس تہنیت کے مستحق ہیں جن کا سلسلہ کشور ناہید ، محمد سلیم الرحمن ، اصغر ندیم سید، آصف فرخی، مسعود اشعر ، اس خاکسار اور موصوف کے پبلشر افضال احمد (سنگ میل پبلی کیشنز) احمد مشتاق اورایرج مبارک سے لے کر جانے کہاں کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ انتظار صاحب کو ملک کا کم و بیش ہر چھوٹا بڑا ایوارڈ تو پہلے ہی پیش کیا جاچکا ہے جن میں اکادمی ادبیات اسلام آباد اور حکومت پنجاب کی طرف سے کمال فن ایوارڈ بھی شامل ہیں بلکہ پچھلے سال انہیں ایک عالمی ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیاگیا۔ نہ صرف یہ بلکہ الحمرا میں چند سال پیشتر عطاء الحق قاسمی نے ان کی باقاعدہ دستار بندی بھی کی۔ اگرچہ اس کے بعد انہیں یہ پگڑی پہنے کبھی نہیں دیکھا گیا حالانکہ وہ اس دستار سے وہی کام لے سکتے تھے جو اپنی لنگی سے ہمارے دوست ڈاکٹر اجمل نیازی لیا کرتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پنجاب آرٹس کونسل والوں کے پاس وہ ایک ہی دستار ہو جو تقریب کے بعد صاحبِ دستار سے واپس لے لی جاتی ہو!
یہ ایوارڈ انہیں اگلے روز ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران عزت مآب سفیر فرانس نے پیش کیا۔ وہ
موصوف کو پہلے تو جانتے پہچانتے نہیں ہوں گے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ شناخت کے لیے موصوف سے کوئی افسانہ یا ناول سنا گیا یا نہیں۔ نامور سنگر ایلوس پریسلے ایک بار کہیں جاتے ہوئے ایک گائوں سے گزر رہے تھے کہ انہیں سو ڈالرز کی ضرورت پڑ گئی۔ وہ ایک مقامی بینک میں گئے اور چیک پیش کیا۔ بینک والوں نے کہا کہ ہم اپنے قواعد کے مطابق شناخت کے بغیر رقم آپ کو نہیں دے سکتے، جس پر موصوف نے کہا کہ بھئی میں ایلوس پریسلے ہوں، کیا آپ مجھے نہیں جانتے اور کیا آپ نے کبھی میرا گانا نہیں سنا؟ تو انہوں نے کہا کہ ضرور سنا ہوا ہے اور کئی بار سنا ہوا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ایلوس پریسلے آپ ہی ہوں۔ البتہ آپ اگر گانا سنا دیں تو ہم آپ کو یقیناً پہچان سکتے ہیں۔ اس پر پریسلے یہ کہتے ہوئے بینک سے باہر نکل گئے کہ میں اگر سو ڈالرز کے لیے گانا سنا دوں تو میں واقعی ایلوس پریسلے نہیں ہوں!
پچھلے سال انتظار حسین کو جو عالمی ایوارڈ ملنے والا تھا اور آصف فرخی ان کے ساتھ گئے تھے اور یہ ایوارڈ ان کی بجائے ایک مغربی خاتون کو دے دیاگیا تھا تو آصف فرخی مذکورہ بالا تقریب میں نظر نہیں آئے۔ شاید انہوں نے احتیاطاً اجتناب کیا ہو کہ کہیں اس بار بھی کھنڈت نہ پڑجائے ! یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ موصوف کو یہ ایوارڈ بالخصوص ان کے کسی افسانے پر ملا ہے یا ناول پر ۔ منقول ہے کہ ایک گویّا ہر وقت دو تمغے گلے میں ڈالے پھرا کرتا تھا۔ ایک بڑا اور ایک چھوٹا۔ کسی نے ان کے بارے میں اس سے پوچھا تو وہ بولا:
'' یہ چھوٹا تمغہ مجھے ایک گانا گانے پر ملا تھا۔‘‘
'' اور یہ بڑا والا ؟‘‘ دوبارہ پوچھا گیا تو وہ بولا :
'' یہ مجھے ایک گانا بند کرنے پر ملا تھا!‘‘
لیکن چونکہ متذکرہ صدر ایوارڈ ایک ہی ہے اس لیے موصوف سے کوئی اس طرح کا سوال بھی نہیں پوچھا جاسکتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مقامی ایوارڈز انہیں سارے کے سارے دیے جاچکے ہوں اور اسی لیے بیرون ملک ایوارڈز کا آغاز ہوگیا ہو۔ تاہم فی الحال یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس ایوارڈ میں موصوف کے ٹخنے کی اس ہڈی کا بھی کوئی کردار ہے یا نہیں، جس کے ٹوٹنے کی اطلاع ہم ان کالموں میں پہلے بھی دے چکے ہیں۔ الحمدللہ اب وہ ہڈی باقاعدہ جُڑ چکی ہے۔ اگرچہ اس عمر میں ہڈی آخر کس حد تک جُڑ سکتی ہے اور بقول مصحفی ؎
بھلا درستی اعضائے پیر کیا ہووے
کہ جیسے رسی سے ٹوٹا کواڑ باندھ دیا
تاہم ٹوٹی ہوئی ہڈی کی کرامات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مزید منقول ہے کہ ایک سردار صاحب لندن گئے اور وہاں ایک حسینہ کو دل دے بیٹھے لیکن اس نے انہیں کوئی لفٹ نہ کرائی۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ اپنے ایک دوست کے پاس گئے اور اپنا دکھڑا بیان کیا۔ دوست نے پوچھا کہ اس کے شوق کیا کیا ہیں۔ تو سردار صاحب نے بتایا کہ وہ باقاعدگی سے گھڑ سواری کرتی ہوئی روزانہ ساحل سمندر پر جاکے غسل کرتی ہے۔ چنانچہ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ بھی ایک گھوڑا خرید لیں اور اسی طرح ساحل پر جایا کریں تاکہ اس طرح راہ و رسم کا سلسلہ پیدا ہوسکے۔ سردار جی نے یہ بھی کیا لیکن کوئی بات نہ بنی۔ چنانچہ وہ پھر اپنے دوست کے پاس گیا اور اسے کہا کہ میں تو گھڑ سواری کے دوران ایک بار اپنا ٹخنہ بھی تڑوا بیٹھا ہوں لیکن وہ مجھے گھاس ہی نہیں ڈالتی۔ میں کیا کروں ؟ دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ایک دن اپنا گھوڑا نیلے رنگ سے پینٹ کرکے جائیں اور وہ جب حیران ہوکر پوچھے گی کہ آپ نے اپنا گھوڑا نیلے رنگ سے پینٹ کیوں کیا ہے تو تم کہنا کہ کیونکہ تمہاری آنکھیں نیلی ہیں، کیونکہ یہ آسمان نیلا ہے اور سمندر کا یہ پانی نیلے رنگ کا ہے ۔ وہ اپنی تعریف پر خوش ہوجائے گی، ساحل پر ہی کوک اور چپس وغیرہ مل جاتے ہیں، وہ خرید لینا اور دونوں کھاتے پیتے سمندر میں داخل ہوجانا، ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے اڑانا اور جب دیکھو کہ لوہا گرم ہو گیا ہے تو اسے پرپوز کردینا۔
چنانچہ سردار جی تین چار روز تک ڈائیلاگ یاد کرتے رہے، اس کے بعد انہوں نے اپنے گھوڑے کو نیلے رنگ سے پینٹ کیا اور ساحل پر جا پہنچے۔ تھوڑی دیر بعد وہ لڑکی بھی آگئی اور دیکھ کر بولی:
'' ویل، مسٹر سنگھ تم نے اپنا گھوڑا کیوں نیلا پینٹ کیا ہے ؟‘‘ اس پر سردار جی دونوں بازو آگے تک پھیلا کررُندھی ہوئی آواز میں زور سے بولے :
'' کیونکہ میں تمہارے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں ‘‘
اب یہ معلوم نہیں کہ ٹخنہ تڑوا کر بھی سردار جی کو لڑکی کا وہ ایوارڈ ملایا نہیں۔
آج کا مقطع
جھوٹ موٹ آخر گلے مل کر بزعم خود‘ ظفرؔ
اگلا پچھلا سب حساب اس نے برابر کردیا