تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-09-2014

مُنہ چِڑاتی تصویر

خطے کی سب سے بڑی طاقت کے صدر نے مالدیپ اور سری لنکا کے بعد بھارت کا دورہ بھی کرلیا۔ یہ بہت اہم دورہ تھا۔ جنوبی ایشیا کی اِس ملاقات میں ایک پڑاؤ پاکستان بھی تھا جو ناممکنات کے سمندر میں غرق ہوگیا۔ 
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے صدر شی جنپنگ کا بھرپور اور والہانہ خیرمقدم کیا۔ چین جنوبی و جنوب مشرقی ایشیا ہی کی سب سے بڑی قوت نہیں ہے بلکہ اب ایک بڑی عالمی قوت بننے کے مرحلے میں ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ بھارت بھی ابھرتی ہوئی قوت ہے اور اُسے بخوبی اندازہ ہے کہ ایک بڑی قوت بننے کا مرحلہ کیا ہوتا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ چین سے معاملات میں جو بھی خرابی ہے وہ بروقت دور کرلی جائے تاکہ انتہائی مشرقی و شمال مشرقی سرحد محفوظ ہوجائے۔ 
چینی صدر کا بھارت میں استقبال شاندار ہی ہونا تھا مگر اِس سونے پر سہاگے کا کردار اُن کے دورۂ پاکستان کے التواء نے ادا کیا۔ اسلام آباد کی صورت حال اور پورے ملک کی غیر یقینی صورت حال نے چینی صدر کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ملک کے اہم ترین دوست کا درجہ رکھنے والے پاکستان کے دورے پر جانے سے باز رہیں۔ اور اُنہوں نے وہی فیصلہ کیا جو منطقی تھا۔ اسلام آباد میں دھرنوں نے جو صورت حال پیدا کر رکھی ہے اُس کے پیش نظر سفارتی سطح پر بہت کچھ اُلجھ کر رہ گیا ہے۔ کئی سفارت خانوں سے ویزا کے اجرا کا معمول کا معاملہ بھی کچھ کا کچھ ہوگیا ہے۔ ایسے میں یہ توقع کیونکر کی جاسکتی تھی کہ ایک اُبھرتی ہوئی عالمی قوت کا صدر اسلام آباد میں قدم رکھنے پر آمادہ ہوتا؟ سابق امریکی صدر جارج واکر بش نے بھی اپنے دوسرے عہدِ صدارت کے آخری دنوں میں چند گھنٹوں کے لیے اسلام آباد آکر پاکستان پر بہت بڑا احسان کیا تھا۔ اُن کی آمد پر پورے اسلام آباد کو ''سر بمہر‘‘ کردیا گیا تھا۔ ایسے میں یہ توقع کیونکر کی جاسکتی تھی کہ چینی صدر اسلام آباد میں قدم رکھتے جبکہ وفاقی دارالحکومت کی حساس ترین عمارات کے سامنے ہزاروں افراد ایک ماہ سے بھی زائد مدت سے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ 
نریندر مودی نے اپنی آبائی ریاست گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد میں دریائے سابرمتی کے کنارے چینی صدر کی شاندار ضیافت کا اہتمام کیا۔ یہ شاندار ضیافت اِس بات کا اعلان تھی کہ خطے کے دو سب سے بڑے ممالک ایک دوسرے کو اپنانے کی طرف چل پڑے ہیں۔ بھارت کا مفاد کاروبار سے وابستہ ہے۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ چین کے سرمایہ کار پانچ برس کی مدت میں زیادہ نہیں تو کم از کم 20 ارب ڈالر بھارت کی اسٹاک مارکیٹ میں لگائیں۔ بھارتی میڈیا اِس معاملے میں مبالغے کی حدیں پار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بعض مبصرین نے یقین ظاہر کیا ہے کہ چند ہی برسوں میں بھارتی اسٹاک مارکیٹ میں چینیوں کی سرمایہ کاری 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہوجائے گی۔ یہ سب کچھ اِس لیے ناقابل یقین لگتا ہے کہ اِس وقت بھارتی اسٹاک مارکیٹ میں چینیوں کی سرمایہ کاری 40 کروڑ ڈالر سے کچھ زائد ہے۔ 
چینی صدر شی جنپنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مصافحہ کرتی ہوئی جو تصویر علاقائی اور عالمی پریس میں شائع ہوئی ہے وہ پاکستانی سیاست و سفارت کے منہ پر زنّاٹے دار تھپّڑ ہے، دھچکا اور تازیانہ ہے۔ اِس ایک تصویر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور بھارتی قیادت کہاں پہنچ گئی ہے۔ جس صورت حال نے چینی صدر کو پاکستان آنے سے روک دیا اُس کا ذمہ دار خواہ کوئی ہو، جو نقصان ہماری ساکھ کو پہنچنا تھا وہ تو پہنچ ہی گیا۔ اب حقیقت کو بِلّی کی طرح سامنے پاکر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا بلکہ رہا سہا بھی جاتا رہے گا۔ 
ستم بالائے ستم یہ کہ چینی صدر کے دورے کے التواء (یا تنسیخ) کو ہلکا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کئی بار یہ کہا جاچکا ہے کہ دورے کے التواء سے کچھ فرق نہیں پڑے گا، چین کو جو 34 ارب ڈالر لگانے ہیں وہ لگائے گا۔ جب صورت حال اِتنی غیر یقینی ہو کہ سرمایہ کار ملک کا صدر دورہ بھی نہ کرسکے تو سرمایہ کاری کیوں اور کیونکر کی جاسکے گی؟ ہم نے یہ کیوں فرض کرلیا ہے کہ ہمارے تمام حالات کو چین یکسر نظر انداز کرکے دوستی اور ہم آہنگی کی بانسری بجاتا رہے گا؟ 
بھارتی قیادت چین کو ہر معاملے میں مکمل فراخ دِلی کے ساتھ قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ دونوں ممالک کی تجارت پہلے ہی 70 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ دونوں کے مفادات ایک دوسرے کے مفادات کے وابستہ ہیں۔ بھارت خام مال فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے۔ چین کے لیے بھارت ہر اعتبار سے ایک Feasible ملک ہے۔ وہ چاہے گا کہ سرمایہ کاری وہاں کی جائے جہاں سیاسی ہی نہیں، معاشی استحکام بھی ہے۔ بھارت کاروباری ذہن رکھنے والا ملک ہے۔ 80 لاکھ سے زائد بھارتی ہنر مند دنیا بھر میں اعلیٰ درجے کی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ بھارتی نالج ورکرز ہر ملک کے لیے قابل قبول ہیں۔ تربیت یافتہ افرادی قوت کی برآمد کے معاملے میں پاکستان ابھی بہت پیچھے ہے۔ ایک سبب تو غیر یقینی سیاسی حالات ہیں۔ دہشت گردی نے الگ وختا ڈالا ہوا ہے۔ اور پھر ملک میں تعلیم اور تربیت کا ڈھانچا ایسا نہیں کہ عالمی سطح پر جس افرادی قوت کی غیر معمولی طلب ہے وہ بروقت اور مطلوبہ معیارات کے ساتھ فراہم کی جاسکے۔ ایسے میں ہم خطے میں بھی مقابلہ نہیں کرسکتے، عالمی منڈی تو بہت دور کی بات ہے۔ 
چین ہمارا دوست ملک ہے۔ مگر یہ دوستی محض دوستی نہیں بلکہ مفاد کا رشتہ ہے۔ اگر چین کی جگہ ہم بھی ہوتے تو مفاد ہی کو ہر شے پر فوقیت دیتے۔ یہ سوچنا نِری حماقت ہے کہ ہم خرابیوں کی زد میں رہیں گے اور چین ہمیں دوست کا درجہ دیتا رہے گا۔ جب تک ہم چین کے لیے Feasible ہیں تب تک ہی وہ ہمیں اپنا بناکر رکھے گا۔ اِس میںکوئی شک نہیں کہ چین نے ہر مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا ہے مگر کسی جواز کے بغیر تو ساتھ نہیں دیا جاتا۔ اور اگر دو ایک مرتبہ ایسا کر بھی دیا تو سلسلہ بہرحال زیادہ دیر تک چلایا نہیں جاسکتا۔ ہمیں بھی ثابت کرنا ہوگا کہ ہم چین کے دوست اور اتحادی ہیں۔ اِس وقت تو صاف پتا چلتا ہے کہ سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ملک کے دوستوں کے حوالے سے بھی کشیدگی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ واضح ہے کہ امریکا اور یورپ کی طرف جھکاؤ رکھا جائے جبکہ سیاسی قیادت بھارت اور چین کی طرف جھکنا چاہتی ہے اور بظاہر دانش کا بھی یہی تقاضا ہے کہ قریب ترین طاقتوں سے معاملات درست رکھے جائیں۔ بھارت اور چین سے بہتر اقتصادی روابط ہمارے لیے زیادہ سودمند اور کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔ مغرب کی منڈیوں تک مکمل رسائی بھی میسر نہیں۔ وہ لوگ ہمیں صرف صارف کی سطح پر رکھنا چاہتے ہیں۔ اب تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ 
اگر ہم اقتصادیات کے میدان میں اپنا کھونٹا مضبوطی سے گاڑنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ متوازن پالیسیاں اپنائیں اور (علاقائی) زمینی حقائق کو نظر انداز نہ کریں۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہم خود کو صرف پریشانیوں سے دوچار کرتے رہیں گے۔ ہمیں ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز کرنا ہے جن کے نتیجے میں عالمی لیڈر ہماری زمین پر قدم رکھنے سے گریز کریں اور پھر کوئی تصویر اُبھر کر ہمارا مُنہ چِڑائے! نریندر اور شی جنپنگ کا مصافحہ درد مند دل رکھنے والے پاکستانیوں کو ہرگز نہ کَھلتا اگر چینی صدر نئی دہلی تک پاکستان کی راہ سے ہوکر گئے ہوتے۔ ہمارا اور چین کا معاملہ تو معانقے کا ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ ہم مصافحے کے قابل بھی نہ رہے۔ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھرپور کوشش ہونی چاہیے کہ اب کوئی تصویر ہمارا مُنہ نہ چِڑائے، دِل نہ دُکھائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved