تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     24-09-2014

فاختہ بی کے انڈے کس نے کھائے؟

عمران خان نے دوبارہ ملک بھر میں جلسوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ وہ کراچی میں بہت بڑا جلسہ کر چکے ۔ اگلی باری لاہور کی ہے۔ لاہور پھر بارشوں میں ڈوبا ہے‘ اس لیے لوگ یقینا اپنے غصے کا اظہار کریں گے۔ رہی سہی کسر بجلی کے ہوش اڑا دینے والے بلوں نے پوری کر دی ہے جو اس حکومت کا ایک اور سکینڈل ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ عمران خان جلسوں کے ذریعے دبائو بڑھا کر کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ وہ حکومت سے اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں اور سب سے بڑی شرط وزیراعظم نواز شریف کا استعفیٰ ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ لانگ مارچ کے دبائو کے بعد حکومت ان کی پانچ شرائط مان تو گئی تھی‘ جواباً کہا جائے گا‘ اصل شرط تو نواز شریف کا استعفیٰ تھا‘ جو پوری نہیں ہوئی۔ 
میرا خیال ہے کہ میاں نواز شریف نے نہ پہلے استعفیٰ دیا تھا اور نہ وہ ان جلسوں کی وجہ سے دیں گے اور اگر وہ حکومت میں نہ رہ سکے تو پورے سسٹم کو لے ڈوبیں گے جیسے 12اکتوبر کو انہوں نے کیا تھا ۔ وہ کبھی استعفیٰ دے کر عمران خان کو نیا الیکشن نہیں جیتنے دیں گے۔ ان کی کوشش ہوگی کہ فوج اقتدار سنبھال لے اور چاہے تین سال بعد الیکشن کرائے‘ اس سے انہیں فرق نہیں پڑے گا بلکہ تین سال بعد کسی کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ نواز شریف حکومت کن الزامات پر برطرف کی گئی تھی۔ لاہور سے کبھی نواز شریف کے خلاف بڑا عدالتی فیصلہ نہیں آیا لہٰذا اگر مقدمے چل بھی پڑے تو وہ اس طرح ''سٹے‘‘ لے لیں گے جیسے پچھلے سولہ برس سے چار ارب روپے کے قرضے کے سلسلے میں اب تک لیے جا رہے ہیں۔ الٹا نواز شریف مظلوم بن کر اُبھریں گے اور عمران خان پر الزام لگے گا کہ انہوں نے رہا سہا جمہوری نظام بھی تباہ کر دیا۔ اگر فوج انتظام سنبھالتی ہے تو پھر عمران خان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں لگے گا‘ اس لیے عمران خان کے کچھ خیرخواہوں کا یہ خیال تھا کہ عمران خان کو عدالتی کمشن مان لینا چاہیے تھا‘ جبکہ عمران خان کے حامی اعتراض کرتے ہیں کہ پہلے کون سے کمشن کی سفارشات پر عمل ہوا ہے کہ اب ہوگا۔
میرا خیال ہے کہ ماضی کے جن چار پانچ عدالتی کمشنوں کی سفارشات پر عمل نہیں ہوسکا‘ ان میں اور الیکشن دھاندلی کمشن میں بہت فرق ہوگا ۔ ماضی میں جو بھی کمشن بنے‘ ان کی رپورٹس پر عمل نہ ہوا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان میں سیاسی جماعتوں کو کوئی دلچسپی نہیں تھی یا پھر قومی مفادات کے نام پر سب چُپ رہے۔ 2010ء کے سیلاب عدالتی کمشن میں بھی سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو کوئی دلچسپی نہ تھی‘ اسی لیے سیکرٹری اریگیشن پنجاب رب نواز‘ جس کی وجہ سے درجنوں لوگ مرے اور اربوں روپے کی جائیدادیں تباہ ہوئیں‘ کو عملاً ڈپٹی وزیراعظم فواد حسن فواد نے بچا لیا کیونکہ وہ ان کا بیچ میٹ تھا ؟
کسی کو غرض نہیں کہ چیف جسٹس خواجہ شریف قتل سازش کیس میں کس سیاسی جماعت کو کیوں دلچسپی تھی‘ کس کا کیا کردار تھا‘ اسپیشل برانچ کے سربراہ کرنل احسان نے یہ سازش کیوں تیار کی اور اسے سزا کی بجائے وزیراعلیٰ نے انعام کیسے دیا؟ 
اسی طرح کس کو پروا نہیں کہ گوجرہ فسادات عدالتی کمشن میں کیا انکشافات کیے گئے تھے اور نو مسیحی بھائیوں کو زندہ جلانے کے واقعہ میں پولیس افسر احمد رضا طاہر کی نااہلی کا کیا عمل دخل تھا۔ ایبٹ آباد عدالتی کمشن پر بھی سب نے خاموشی سادھ لی کیونکہ سب کا خیال تھا کہ اس معاملے میں بڑی غفلت ہوئی اور اگر اس پر زور دیا گیا تو اداروں کی بدنامی ہوگی۔ حمودالرحمن کمشن رپورٹ کو بھی قومی مفادات کے نام پر چھپا لیا گیا اور سب چُپ سادھے رہے۔ 
ایک اور اعتراض کیا جاتا ہے کہ ماڈل ٹائون عدالتی کمشن کی رپورٹ بھی دبا لی گئی اور کچھ نہیں ہوا؛ لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ اگر جسٹس باقر کمشن کی رپورٹ حکومت نے دبا لی تو میڈیا اسے سامنے لے آیا ۔ آج شہباز شریف پر دبائو ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں کیونکہ کمشن نے ان پر ذمہ داری ڈال دی ہے اور انہوں نے ایسی صورت میں خود استعفیٰ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اب اگر وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے تو بھی ان کی اتھارٹی ختم ہو گئی ہے۔ آج کے جارحانہ میڈیا اور سیاسی شعور سے بھرپور عوامی دور میں سیاستدان یو ٹرن افورڈ نہیں کر سکتا۔ میڈیا ان کو روزانہ یاد دلاتا ہے اور شہباز شریف کی وہ ویڈیو بھی دکھاتا ہے جس میں وہ فرما رہے ہیں کہ اگر ان کی ذمہ داری ثابت ہوگئی تو وہ استعفیٰ دے دیں گے اور لوگ روزانہ یہ ویڈیو دیکھتے ہیں۔ سیاسی حکومتوں کو آمروں کے مقابلے میں یہ برتری حاصل ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے نمائندے ہیں اور بہتر اخلاقی پوزیشن پر فائز ہیں‘ لیکن جب سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اخلاقی اور سیاسی جواز کھو بیٹھتی ہیں تو پھر جلد یا بدیر انہیں جانا ہی پڑتا ہے۔ شہباز شریف کو بھی جلد یا بدیر ماڈل ٹائون کمشن رپورٹ کی وجہ سے نہ صرف جانا ہوگا بلکہ یہ مقدمہ آسانی سے ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ 
جہاں تک سپریم کورٹ کے الیکشن دھاندلی کمشن کا تعلق ہے تو یہ وہ کمشن ہے جس میں عمران خان اور ان کی جماعت نے بڑی مضبوطی سے اپنے موقف کو ثابت کرنا تھا اور میڈیا نے بھی اس ایشو کو ڈیڈ نہیں ہونے دینا تھا۔ اگر میڈیا عمران خان کے دھرنے کو چالیس دن تک زندہ رکھ سکتا ہے اور روزانہ ان کی تقریر دکھا سکتا ہے تو وہ الیکشن دھاندلی کمشن کو روزانہ کیسے نہ 
رپورٹ کرتا۔ یقینا وہ روزانہ پیش ہونے والے شواہد کو سامنے لاتا۔ عمران خان کی پارٹی کے پاس تو گواہوں کی فہرست بھی بہت طویل ہوسکتی تھی جنہیں وہ کمشن کے سامنے لاتے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم کے منہ پر اعتزاز احسن، مولانا فضل الرحمن اور زاہد خان جیسے سیاستدانوں نے کہا کہ دھاندلی ہوئی تھی۔ چوہدری نثار علی خان خود قومی اسمبلی میں کہہ چکے ہیں کہ ساٹھ سے ستر ہزار ووٹوں کی ہر حلقے میں تصدیق نہیں ہوسکتی ۔ بلاول بھٹو بھی کہہ رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی تھی۔ صدر زرداری نے خود عمران کو ہسپتال میں فون کر کے کہا تھا کہ یہ ریٹرننگ افسران کا الیکشن تھا۔ سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کا بیان بھی کمشن کے سامنے بہت اہم ہوتا۔ 
اگر عمران خان ان سب لیڈروں کی ایک فہرست گواہوں کے طور پر کمشن کے سامنے پیش کرتے اور انہیں بلایا جاتا تو وہ سب کچھ نہ کچھ کمشن کے سامنے ضرور رکھتے۔ اعتزاز احسن تو خود وکیل بن کر دھاندلی کمشن میں پیش ہوتے اور ثبوتوں کے ساتھ بتاتے کہ کیسے ان کی بیوی کو لاہور میں الیکشن ہرایا گیا تھا۔ عمران خان کے پاس الیکشن ٹربیونلز کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں بتایا گیا کہ کیسے دھاندلی کی گئی تھی۔ یوٹیوب اس وقت ان ویڈیو کلپس سے بھری پڑی ہے جن میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے الیکشن کے دن دھاندلی کے ریکارڈ قائم کیے گئے۔ شاید اسی لیے حکومت نے یو ٹیوب پر بین لگا رکھا ہے کہ لوگ ان شواہد کو نہ دیکھ سکیں۔ 
رہی سہی کسر اب الیکشن کمشن کی اپنی انکوائری رپورٹ نے پوری کر دی ہے‘ جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئی تھیں اور جو قوانین سب پر لاگو ہونے چاہئیں تھے‘ وہ لاگو نہیں ہو سکے اور لٹیروں کی ایک کثیر تعداد پارلیمنٹ میں پہنچ گئی تھی۔ 
اب بتایئے کہ ان شواہد کی موجودگی میں بھلا دھاندلی کمشن کیسے کہہ سکتا تھا کہ کچھ غلط نہیں ہوا۔ ایک دفعہ کمشن کی رپورٹ آجاتی تو نواز شریف کے لیے وزیراعظم رہنا ناممکن ہوجاتا اور چوہدری نثار کہہ چکے تھے کہ انکوائری کمشن نے تصدیق کر دی تو وزیراعظم کے علاوہ پوری پارلیمنٹ گھر جائے گی۔ عمران سے بہتر سمجھداری تو نواز شریف اور شہباز شریف نے دکھائی۔ انہیں علم تھا کہ فوج زرداری اور گیلانی کا تختہ نہیں الٹے گی‘ لہٰذا دونوں بھائی انہیں کمزور کرنے کے لیے میمو کمشن کے حوالے سے سپریم کورٹ پہنچ گئے اور یوںچند دنوں بعد عدالت نے گیلانی کو برطرف کردیا‘ چاہے الزام توہین عدالت کا ہی تھا۔ عمران خان بھی نواز شریف کو عدالت کے ذریعے نکلوا سکتے تھے۔ اب وہ نواز شریف کے استعفیٰ کو چھوڑ کر عدالتی کمشن پر راضی ہوجائیں تو بہتر ہے اور اس کمشن میں ان کے پاس بہت کچھ پیش اور ثابت کرنے کو موجود ہے۔ 
عدالتی کمشن کا موقع ضائع کر کے انہوں نے اپنے علاوہ اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ بھی زیادتی کی ہے۔ پاکستانی تاریخ میں آج تک کوئی دھاندلی کمشن نہیں بنا‘ اب بننا چاہیے تھا تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہوسکتا اور پتہ چلتا کہ پاکستان میں دھاندلی کیسے ہوتی ہے اور کون کراتا ہے اور اس کے فوائد کس کو پہنچتے ہیں۔ عمران خان کو عدالتی روٹ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ جہاں انہوں نے چودہ ماہ صبر کیا تھا‘ مزید چار ماہ صبر کر سکتے تھے۔ 
عمران خان کو کون بتائے کہ اچھے سیاست دان میں وقت پر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے علاوہ انتظار اور صبر کی خوبی بھی ہونی چاہیے‘ وگرنہ وہ ساری عمر بھٹکتا ہی رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پوری قوم بھی۔ دھاندلی کمشن کے ذریعے نواز شریف ہٹتے یا نہ ہٹتے، عمران خان وزیراعظم بنتے نہ بنتے لیکن کم از کم اس قوم کو یہ پتہ تو چلتا کہ فاختہ بی کی محنت کے انڈے کون کون سے کوے کھا گئے تھے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved