پچھلے ہفتوں میں میڈیا، فوج اور سول سروس کے کچھ باخبر لوگوں سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ ہر ایک سے میں نے یہ پوچھا:کیا ترکی کو بدل دینے والے رجب طیب ایردوان کے خلاف منظرِ عام پر آنے والے سکینڈل جعلی طور پر گھڑے گئے ہیں یا ان میں کچھ حقیقت بھی ہے ؟ میرے اس استفسار کے پسِ منظر میں یہ احساس تھاکہ مشرقِ وسطیٰ کو تباہ کرنے کے بعد عالمی استعمار اب مضبوط افواج رکھنے والے ترکی اور پاکستان میں بھی خانہ جنگی چاہتاہے ۔افسوس کہ تقریباً سبھی کاجواب یہ تھا کہ سازش نہیں ،یہ حقیقت ہے ۔ طویلِ دورِ اقتدار نے ترک حکمران کو بدل ڈالا ہے ۔اب یہ وہ طیب ایردوان ہے ہی نہیں۔ تر ک حکمران خاندان لوٹ مار میں مصروف ہے اور اس کا سربراہ اس اپنے اہلِ خانہ کے تحفظ میں ۔ 2003ء سے 2014ء تک حکومت کرنے کے بعد آئین کے تحت طیب ایردوان کے لیے تیسری بار وزیراعظم بننا ممکن نہ تھا۔ اس صورتِ حال میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے کسی قابل اور دیانت دار سیاستدان کو آگے لانے کی بجائے ، صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد اب وہ تمام تر اختیارات کو صدر کی ذات میں مرتکز کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔گویا ایک فرد کے لیے آئین کو تلپٹ کر دیا جائے گا۔
میں طیب ایردوان کا مدّاح تھا ؛لہٰذا مجھے سخت صدمہ ہوا۔ شک کی گنجائش اس لیے بھی نہیں کہ ترک پولیس کی تربیت کرنے والے ڈاکٹر شعیب سڈل کی رائے بھی یہی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب
پاکستانی پولیس اور سول سروس کا ایک دیو مالائی کردار ہیں۔ جاپان اور ترکی سمیت، دنیا کے کئی ممالک قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ٹریننگ کے لیے ان کی خدمات حاصل کرتے ہیں ۔ انہی کے مشورے پر ترک پولیس میں اعلیٰ تعلیم کا آغاز ہوا ۔آج ا س میں پانچ سو پی ایچ ڈی افسران موجود ہیں۔ یہی پولیس اب جدید ترکی کے معمار رجب طیب ایردوان کی مزاحمت کر رہی ہے اور اس کے باوجو دکر رہی ہے کہ وہ ملک گیر مقبولیت رکھتے ہیں ۔بہرحال وہ کوئی معمولی لیڈر تو نہیں۔ ماضی کے مفلس ترکی کو انہوں نے اوپر سے نیچے تک بدل ڈالا تھا۔ اپنی اسی مقبولیت کے بل پر یکے بعد دیگرے مارشل لا نافذ کرنے والی افواج کا انہوں نے سخت احتساب کیا تھا۔ترکی ہی نہیں ، بحیثیتِ مجموعی دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔
ڈاکٹرشعیب سڈل اب پاکستان میں جرائم کی تحقیقات سے متعلق ایک عالمی معیار کا ایک ادارہ تشکیل دے رہے ہیں ۔ تحریکِ انصا ف کے سربراہ عمران خان سے ان کی پرا نی اور گہری دوستی ہے ۔ کپتان انہیں پختون خوا میں محتسب بنانا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر شعیب سڈل اس سے بڑے عہدوں مثلاً وفاقی ٹیکس محتسب کے منصب پہ فائز رہ چکے ہیں لیکن احتساب کے حوالے
سے ایک صوبے کو ماڈل بنانے کی خاطر انہوں نے اثبات میں جواب دیا ۔پھرکیا ماجرا پیش آیااور عمران خان کی خواہش کے باوجود ان کے گرد موجود سیاستدانوں کے حریص گروہ نے کیسے اورکیوں اسے ناممکن بنا یا، یہ ایک لمبی داستان ہے ۔قصہ مختصر یہ کہ سٹیٹس کو (Status Quo)کے خلاف نعرہ ء مستانہ بلند کرنے والے کپتان کی کم و بیش ساری ٹیم پر بڑے سوالیہ نشانات موجود ہیں ......یہ سب عوام کا خون چوسنے والے اسی گلے سڑے نظام کے طفیلیے ہیں اور وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک اس ہجوم کی ایک نمایاں شخصیت ہیں ۔
کپتان سے لوگ محبت کرتے ہیں ۔ میں بھی ان میں شامل ہوں لیکن بات اصول کی ہے ۔ صورتِ حال اس وقت یہ ہے کہ دھرنے کی طوالت سے تنگ، تحریکِ انصاف کے صفِ اوّل کے لیڈر منہ لٹکائے بیٹھے ہیں ۔اندر خانے تقریباً وہ سبھی اس بات پہ متفق ہیں کہ وزیراعظم کا استعفیٰ ممکن نہیں اور اس پرعمران خان کا اصرار غلط حکمتِ عملی ہے ۔ رات جب ڈھلنے لگتی ہے تو آپس میں اور دوسروں سے وہ مشورہ کرتے ہیں کہ کریں تو کریں کیالیکن خود میں اس قدر جرات نہیں پاتے کہ کپتان کے سامنے اپنے تحفظات ظاہر کر سکیں ۔ کیا اس طرح سیاسی جماعتیں چلتی ہیں ؟ ہم نے 2007 ء میں وزیراعظم ٹونی بلیئر سے اتفاق نہ کرنے والے لیبر پارٹی کے رہنمائوں ؛حتیٰ کہ وفاقی وزرا کو علیحدگی اختیار کرتے اور نتیجتاً صدر بش کے حلیف کو مستعفی ہوتے دیکھا ہے ۔ یہاں حال یہ ہے کہ ایک صاحب جنرل ضیاء الحق کے سائے میں جنم لینے والی نون لیگ سے ہوتے ہوئے قاف لیگ اور پھر 30اکتوبر2011ء کے جلسے کے بعد بھاگم بھاگ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ۔ ہر جائز و ناجائز حربے سے پارٹی الیکشن جیتا ، ٹکٹ حاصل کیا ، عام انتخابات میں فتح پائی اورپھر اپنے اہلِ خانہ کو اسمبلی میں گھسانے کی کوششیں کرنے لگے۔ اب کپتان سے اختلاف کی جرات وہ کہاں سے لائیں ؟ دوسرے کچھ ہی کہیں ، میرے نزدیک بنیادی طور پر جاوید ہاشمی کا فیصلہ سو فیصد درست تھا۔
آنکھیں کھولیے ۔ ہمیں افراد نہیں اداروں کی ضرورت ہے۔ ہمیں وہ نظام تشکیل دینا ہے ، جس میں گڑ بڑ ممکن نہ ہو۔ دھاندلی کی تحقیقات اپنی جگہ سو فیصد درست لیکن سب سے پہلے ہمیں الیکٹرانک ووٹنگ چاہیے ۔ افسوس کہ پنجاب اور دوسرے صوبے تو کجا ، پندرہ ماہ گزرنے کے بعد بھی پختون خوا کے بلدیاتی الیکشن دور دور تک نظر نہیں آرہے ۔صوبے میں کہیں کہیں کچھ بہتری ضرور ہے لیکن وہ انقلابی تبدیلیاں ہرگز نہیں ، عمران خان سے جس کی توقع کی تھی ۔ دوسری طرف احتجاج کی آگ بھڑکا نے کا نتیجہ یہ ہے کہ مذہب اور فرقے کی بنیاد پر تہہ در تہہ بٹے ہوئے پاکستانی معاشرے میں ایک نئی تقسیم ابھر آئی ہے ۔ اب ایسا کوئی امکان نہیں لیکن فرض کیجیے کہ لیگی حکومت گرا دی جاتی ہے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ نون لیگ کے لیے ہمدردی کا عنصر انگڑائی لے کر بیدار ہوگا۔ اس کے کارکن مشتعل اور لیڈر گلی گلی یہ دہائی دیں گے کہ مرکزکی سطح پر ڈیڑھ دو سال سے زیادہ وقت کبھی انہیں ملا ہی نہیں کہ وہ اپنی کارکردگی کے جوہر دکھا سکیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ رائے عامہ کنفیوژ اور منقسم رہے گی ۔نتیجہ یہ ہوگا کہ میاں برادران ایک بار پھر بھاری بھرکم مینڈیٹ کے ساتھ اسمبلی کا رخ کریں گے ۔ صورتِ حال کا ایک پہلو اور بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ علّامہ طاہر القادری ہی نہیں ، ملک بھر میں پھیلے ہوئے کئی درجن مولوی حضرات چند دن کے نوٹس پر اپنے ہزاروں مریدین کو اسلام آبادمیں بٹھا سکتے ہیں ۔ جماعتِ اسلامی جب چاہے ایک لاکھ پرجوش اور سخت جان کارکنوں کے ساتھ دھرنا دے سکتی ہے ۔ ایک بار یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ہی ختم ہو گا۔
ایک بار پھر سوچیے ۔ شخصیت پرستی اور اپنے پسندیدہ لیڈر کی اندھی تقلید ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے ۔