وزیراعظم سے لے کر‘ حکومت کا ہر عہدیدار ‘ عمران خان پر‘ لندن پلان کے ہتھوڑے یوں برسا رہا ہے ‘ جیسے خان اس کی‘ تاب نہیں لا پائے گا۔ عوام کو منہ نہیں دکھا سکے گا۔ اس کے لئے اپنی عزت بچانا محال ہو جائے گا اور عوام اسے بے یقینی سے دیکھنے لگیں گے۔ پتہ نہیں لوگ بھول کیوں جاتے ہیں؟ لندن پلان یا امریکی سرپرستی پاکستان میں اعزاز کی بات ہے۔ یہاں کے تو لیڈر جتن کرتے ہیں کہ انہیں ‘لندن پلان کا حصہ یا امریکی انتظامیہ کے کسی اہلکار کا جاننے والا ہی سمجھ لیا جائے۔ کیونکہ جتنی عزت‘ لندن پلان میں شرکت کے الزام یا امریکی ایجنٹ ہونے کی شہرت سے ملتی ہے‘ وہ عوام دوستی یا وطن پرستی میں کہاں؟ جس لیڈر کے بارے میں یہ افواہ بھی پھیل جائے کہ اسے اپنے ملک سے محبت ہے یا اس کا دیانتداری سے کوئی واسطہ ہے‘ تو سمجھ لیں کہ اس کا کیریئر برباد ہو گیا۔ کیریئر کا کیا سوال؟ اس کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ لیاقت علی خاں نے امریکی پٹھو بننے سے انکار کر کے‘ پاکستان کے جاگیردار ٹولے اور سول ملٹری بیورو کریسی کے خواب‘ توڑنے کی جسارت کی‘ تو انہیں گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ یہ کتابی باتیں ہیںکہ ان کے قاتلوں کا سراغ آج تک نہیں ملا۔ ورنہ جن لوگوں نے شہید ملت کے بعد‘ اقتدار کے ایوانوں میںجوڑتوڑ کی اجارہ داری حاصل کی‘ درحقیقت وہی شہید ملت کے قاتل تھے۔وہ اپنے جرم سے پردہ اٹھا کرجیلوں میں کیوں جاتے؟ خواجہ ناظم الدین ایک محب الوطن وزیراعظم تھے۔ ان کے خلاف چند جلوس نکال کر‘ اقتدار کے کھیل سے باہر نکال دیا گیا۔ ان کے بعد وطن پرستی کے جو دوچار‘ مریض وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے۔ انہیں پانچواں یا چھٹا مہینہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ جیسے آئی آئی چندریگر اور چوہدری محمد علی وغیرہ۔وطن اور قوم پرستی کے آخری مجرم‘ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ انہیں پھانسی کا پھندا چومنا پڑا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ حب الوطنی نے‘ پاکستان کے ایوان اقتدار سے منہ پھیر لیا۔ وطن عزیز میں‘ صدر یا وزیراعظم بننے کے لئے ‘ امریکہ یا برطانیہ کا ٹھپہ لازمی قرار پایا۔ امریکی ٹھپہ سب سے پہلے‘ محمد علی بوگرا پر استعمال ہوا۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کے لئے‘ پاکستان کے کسی منتخب ادارے کو منہ لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ سفیر بن کر امریکہ گئے اور وزیراعظم بن کر واپس تشریف لائے۔
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
بوگرا صاحب کی ترقی اور بلند اقبالی دیکھ کر‘ کمانڈر انچیف ایوب خان نے بھی واشنگٹن سے رابطے کئے۔ وہیں سے بطور وزیردفاع اپنی تقرری کرائی اور امریکی سرپرستی میں ہی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر اقتدار پر قابض ہو گئے۔ اس کے بعد امریکہ کو اتنا مزہ آیا کہ اسے آزادی و خودمختاری کے مرض میں مبتلا‘ لیڈر برے لگنے لگے۔ وہ نالائق بھی امریکہ کو پسند نہیں آئے‘ جو اس کے احکامات کی بجا آوری میں متذبذب ہو جاتے ۔ ریکارڈ دیکھ لیں۔ جسے براہ راست امریکہ نے مقرر کیا‘ وہ یا تاحیات برسراقتدار رہا‘ ورنہ کم از کم اس نے 10سال تو ضرور نکالے۔ صرف یحییٰ خان‘ اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔ غلطی ان کی تھی۔ انہیں جس
ملک کی حکومت دی گئی تھی‘ وہ اسی کو توڑ کر خیرسے بدھو گھر کو آئے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد تو ہمارے بیشتر سیاستدان‘ ایک ہی خواب کے پیچھے لگ گئے کہ کسی طرح وہ امریکہ بہادر کی نظرمیں آ جائیں اور وہ بھی وزارت عظمیٰ کے چار دن دیکھ لیں۔ چار دن والے‘ ایک وزیراعظم بھی‘ براہ راست امریکہ سے آئے تھے۔ اتنی جلدی میں آئے تھے کہ انہیں شیروانی سلوانے یا پاکستانی پاسپورٹ بنوانے کا وقت بھی نہ ملا۔ پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے‘ ان کا پاسپورٹ تیار کر کے‘ جہاز میں ان کے سپرد کیا گیا۔ سننے میں آیا ہے کہ شیروانی کسی واقف کار سے ادھار مانگ کر موصوف نے‘ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ شلوار کی کہانی تو منٹو کے افسانے ''کالی شلوار‘‘ کی طرح دلچسپ ہے۔ طویل مدت امریکہ میں رہنے کی وجہ سے‘ موصوف کمربند باندھنا بھول چکے تھے۔ پہلے سے کسی کو اس بات کاپتہ نہیں تھا۔ جب انہیں شلوار پیش کی گئی‘ تو انہوں نے کمربند باندھنے سے معذرت کر لی۔ بھاگم بھاگ ان کی شلوار میں کمرکے سائز کاالاسٹک ڈالا گیا اور انہوں نے قمیض کے نیچے‘ گیلس لگا کر شلوار پہنی۔ روایت کے مطابق‘ پاکستان کے اس وزیراعظم نے بھی‘ ہمارے قومی لباس میں حلف اٹھایا۔ ان کے بعد حلف اٹھانے والے وزرائے اعظم نے‘ بے شک شلوار کے کمربند خود باندھے ہوں لیکن ذہنی طور پر سب نے گیلس ہی پہن رکھے تھے۔اس امریکہ میڈ‘ پرائم منسٹر کا نام معین قریشی تھا اور انہوں نے ایک پاکستان میڈ وزیراعظم‘ نوازشریف کی جگہ لی تھی۔ضیاالحق کے بعد صدر غلام اسحق بنے۔ لیکن وزارت عظمیٰ بے نظیر کے حصے میں آئی۔ وہ جس المیے سے گزر کے آئی تھیں‘ امریکہ کی منظوری کے بغیر‘ ان کا ایوان اقتدار میں داخلہ ممکن ہی نہیں تھا۔ انہیں مجبوراً امریکہ سے این او سی لینا پڑا۔ اس وقت پاکستان میں برسراقتدار آنے کے لئے‘ امریکی سرٹیفکیٹ لازم ہو چکا تھا۔نوازشریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے‘ تو وہ امریکہ سے ''منظورشدہ‘‘ ہو چکے تھے۔ ان کی برطرفی داخلی کشمکش کے نتیجے میں ہوئی‘ لیکن امریکہ بہادر نے انہیں زندہ سلامت نکال لے جانے کا تسلی بخش انتظام کیا۔ جب نوازشریف قید میں تھے‘ امریکی صدر کلنٹن برصغیر کے دورے پر آئے اور واپسی پر وہ پانچ گھنٹے صرف اس لئے‘ اسلام آبادمیں رکے کہ نوازشریف کو زندہ سلامت بیرون ملک بھیجنے کی ضمانت حاصل کریں۔ مشرف کی کیا مجال تھی؟ اس نے ''یس سر!‘‘ کہہ کے حکم کی تعمیل کا وعدہ کیا اور نوازشریف مع اپنے تمام اہل خانہ‘ نوکروں چاکروں اور صندوقوں کے سعودی عرب چلے گئے۔اس معاہدے کے بعد ‘ان کے کاغذات پر بھی امریکی ٹھپہ لگ گیا اور نوازشریف بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ شریک جلاوطن ہو گئے۔ جب پرویزمشرف کی گستاخیوں سے امریکہ خفا ہوا‘ تو پرویز مشرف کو حکم دیا گیا کہ وہ بی بی اور نوازشریف کے ساتھ‘ وطن واپسی کے انتظامات پر رابطہ کریں اور ملک میں جمہوریت بحال کر کے‘ سیروسیاحت کے لئے چلے جائیں۔ امریکیوں کے حکم کے مطابق رابطے شروع ہو گئے۔ معاملات طے ہوئے۔ان کی روشنی میں ایک لندن پلان تیار ہوا۔ جس کا عنوان ''میثاق جمہوریت‘‘ رکھا گیا۔ سات سال اور کچھ مہینوں سے ‘پاکستان میں وہی ''میڈ ان امریکہ‘‘ جمہوریت چل رہی ہے۔ امریکہ نے اس جمہوریت کو محفوظ رکھنے کے لئے‘ اتنی احتیاط کے ساتھ کڑی نگرانی کی کہ آصف زرداری بھی‘ اقتدار کے پانچ سال پورے کر گئے۔ امریکہ نہ ہوتا‘ تو کسی کا باپ بھی آصف زرداری کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع نہ دلوا سکتا۔
اندازہ یہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں بھی‘ امریکہ نے اپنے لندن پلان کے مطابق ‘ جمہوریت چلانے کی ذمہ داری‘ نوازشریف کے سپرد کرنے کا بندوبست کیا اور وعدے کی تکمیل کا کام جناب افتخار محمد چوہدری کے سپرد کیا۔ قارئین کو یاد دلانا پڑے گا کہ جب چوہدری صاحب کو گھر میں نظربند کیا گیا‘ تو انتہائی سخت پابندیوں کے باوجود‘ ایئرمارشل اصغر خان ان سے ملاقات کے لئے گئے تھے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ ان کی بحالی اور دورہ امریکہ ‘ دونوں پر امریکی چھاپ نمایاں تھی‘ مگر کیا کیا جائے؟ ٹیڑھی سوچ کے کچھ لوگ ایسی ہی واہیات باتیں کرتے ہیں۔ البتہ نوازشریف کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی بھی ہے‘ تو ان کا کیا قصور؟ باخبر لوگ یقین سے کہتے ہیں کہ نوازشریف سچے ہیں۔ ان کی انتخابی کامیابی‘ امریکی وعدے کے مطابق ہے۔ حد یہ ہے کہ نئے لندن پلان کے مطابق‘ جب نوازشریف کے خلاف سازش ہوئی‘ تو امریکہ نے تین مرتبہ پاکستان کودھمکی دی کہ اگر پاکستان میں جمہوریت کو کچھ ہوا‘ تو امریکہ فلاں فلاں فلاں اقدامات کر سکتا ہے۔ کم از کم میں‘ امریکی دھمکیاں پڑھ کر یقین کر بیٹھا تھا کہ ہم خواہ کچھ بھی کہتے اور لکھتے رہیں‘ نوازشریف اپنی مدت اقتدار پوری کرکے رہیں گے‘ لیکن جب نوازشریف نے امریکہ پہنچ کر‘ لندن پلان کے وجود پر مہرتصدیق ثبت کی اور پاکستان میں ان کے باجے والوں نے لندن پلان‘ لندن پلان کی دھن چھیڑ دی‘ تو عمران خان کے مستقبل کے بارے میں میرے شکوک و شبہات رفع ہو گئے۔ لندن پلان کی حقیقت کی بھی‘ سرکاری طور پر تصدیق ہو گئی اور روایت کے مطابق لندن پلان کے تحت سازش کرنے والے‘ عمران خان کا اقتدار میں آنا یقینی ہو گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کو اپنے دوراقتدار میں کس کی پارٹنرشپ ملے گی؟ نوازشریف کی یا آصف زرداری کی؟ میں اپنی باقی زندگی کے لئے مطمئن ہو گیا ہوں۔ آنے والے پانچ سات سال کی جمہوریت‘ یہی تین چلائیں گے اور میری زندگی‘ انہی چند سال کے درمیان مجھے کہیں چھوڑ دے گی۔ صرف ایک شبہ ضرور ہے کہ اگر عمران خان واقعی محب الوطن نکل آئے‘ جیسی کہ لوگوں نے ان سے امید باندھ رکھی ہے‘ تو خدا ان پر رحم کرے۔ یہاں وطن پرستی کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔صرف شاہ محمود قریشی کی موجودگی دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ خان صاحب محفوظ ہاتھوں میں رہیں گے۔اگر یہ ہاتھ کسی اور کام میں نہ لگ گئے تو؟